| رپورٹ: PYA شمالی پنجاب، فوٹوگرافی: نعمان ساقی |
موسم گرما 2016ء کے نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد 22، 23 اور 24 جولائی کو خانسپور کے پرفضا مقام پر کیا گیا۔ انتہائی کٹھن معاشی اور سماجی حالات میں تمام تر مصائب کو شکست دیتے ہوئے سکول میں ملک کے طول و عرض سے 150 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ تین روزہ سکول مجموعی طور پر پانچ سیشنز پر مشتمل تھا۔
سکول کا باقاعدہ آغاز 22 جولائی کی صبح میزبان ریجن (شمالی پنجاب) سے کامریڈ آصف رشید نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہہ کر کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ان عالمی حالات اور ملکی معروضی صورتحال پر مختصراً روشنی ڈالی جس میں پاکستان کے مارکسسٹ انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل آگے بڑھا رہے ہیں۔
پہلے دن کا پہلا سیشن ’’جنوب ایشیا کے تناظر‘‘ پر مبنی تھا۔ سیشن کو چیئر احمد عمار نے کیا۔موضوع پر بحث کا آغاز رضوان اختر نے کیا اور مفصل انداز میں جنوب ایشیا کے ممالک کے تاریخی پس منظر، نو آبادیاتی اور بعد از نو آبادیاتی دور، مصنوعی سرحدوں،سیاست، ثقافت، معیشت، تضادات، انقلابی تحریکوں اور بحرانات کو بیان کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹیوں کے نظریاتی انحراف، مودی سرکار کے محنت کش طبقے پر حملے اور ردِ عمل، نیپال میں ماؤسٹوں کی طویل گوریلا جدوجہد اور پھر انتہائی موقع پرستانہ انداز میں سرمایہ داری کے ساتھ مصالحت، سری لنکا کی خانہ جنگی کے اسباب اور نتائج، بنگلہ دیش کی دو پارٹی سیاست اور محنت کشوں کی جدوجہد اور پاکستان کی موجودہ کیفیت اور تناظر پر بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا جن کی روشنی میں فیصل آباد سے شازیہ، ڈیرہ غازی خان سے رحیم، کوئٹہ سے سرتاج، کشمیر سے راشد شیخ، رحیم یار خان سے کاشی، دادو سے موسیٰ، ملتان سے نادر، حیدر آباد سے راہول، پختونخواہ سے سنگین باچا، فیصل آباد سے عمر رشید اور لاہور سے عمران کامیانہ نے بحث کو آگے بڑھایا۔ اس موقع پر ایشیائی طرز پیداوار، ٹراٹسکی کے ’غیر ہموار اور مشترک ترقی‘ اور ’انقلاب مسلسل‘ کے نظریات بھی جنوب ایشیا کے تناظر میں زیر بحث آئے اور عالمی معیشت، چین، ایران، امریکہ اور یورپ کی موجودہ کیفیت اور تناظر پر بھی بات ہوئی۔ سیشن کے سم اپ میں بحث کو سمیٹتے ہوئے رضوان اختر نے کہا کہ دنیا کے دوسرے پسماندہ خطوں کی طرح جنوب ایشیا میں بھی سرمایہ داری اپنے تاریخی فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی ہے، دنیا کی آدھی سے زائد غربت اس خطے میں پلتی ہے، قومی مسئلہ ہر جگہ سلگ رہا ہے، سامراجی لوٹ مار نام نہاد ’’آزادی‘‘ کے بعد شدید تر ہی ہوئی ہے، ان ممالک میں سرمایہ داری کے تحت کسی ترقی یا بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے، تاریخ نے یہ فریضہ ہمارے کندھوں پر عائد کیا ہے کہ خطے میں وہ انقلابی قوت تعمیر کریں جو سامراج اور مقامی سرمایہ داری کے جبر و استحصال کو اکھاڑ پھینک کر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے تمام جعلی سرحدوں کو مٹاتے ہوئے خطے کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھے۔
کھانے کے وقفے کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’’کموڈیٹی فیٹشزم‘‘ تھا۔ سیشن کو چیئر عصمت پروین نے کیا۔ لیڈ آف میں اویس قرنی نے ’داس کیپیٹل‘ کے پہلے باب کو انتہائی سادہ اور آسان الفاظ میں بیان کیا اور واضح کیا کہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں انسانوں کے تعلقات چیزوں کے تعلقات میں بدل جاتے ہیں، انسانوں کے مابین تعلقات مادی جبکہ اجناس (Commodities) کے تعلقات سماجی ہو جاتے ہیں، انسان منڈی کی معیشت کو نہیں بلکہ معیشت انسانوں کو چلانے لگتی ہے اور کس طرح کموڈیٹی انسانی محنت کی پیداوار ہونے کے باوجود انسان کو اپنا تابع کر لیتی ہے۔ لیڈ آف کے بعد دلچسپ سوالات کی روشنی میں شمالی پنجاب سے احمد عمار، حیدر آباد سے ونود کمار، لاہور سے عمران کامیانہ اور ڈیرہ غازیخان سے رحیم نے اظہار خیال کیا اور کمیوڈیٹی کے اندر موجود قدر استعمال اور قدر تبادلہ کے تضاد، ویلیو (قدر)، تجریدی محنت اور کار آمد محنت، کموڈیٹی فارم، ’کنزیومر ازم‘ اور منڈی کی معیشت سے جنم لینے والی سماجی نفسیات، رشتوں، اخلاقیات اور معیارات پر بات رکھی۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے اویس قرنی نے کہا کہ سرمایہ داری ایسے سماج کو جنم دیتی ہے جہاں پیداواری عمل انسان کے کنٹرول میں ہونے کی بجائے انسان پر حکومت کرنے لگتا ہے، کموڈیٹی فیٹشزم، کھپت برائے کھپت کی نفسیات اور منڈی کی اطاعت سے آزادی سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے اور سوشلزم کا بنیادی فریضہ انسان کو معیشت کی غلامی سے نکال کر معیشت کو انسان کا تابع بنانا ہے۔
مجموعی طور پر سکول کے تیسرے اور دوسرے دن کے پہلے سیشن کا آغاز 23 جولائی کی صبح 10 بجے ہوا۔ سیشن کا موضوع ’’مارکسزم اور (بائیں بازو کی) فرقہ پرستی‘‘ (Marxism & Sectarianism) تھا۔ سیشن کو چیئر راہول نے کیا۔ لیڈ آف میں ماجد میمن نے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی تصانیف اور کامریڈ لینن کی شہرہ آفاق کتاب’ ’’بائیں بازو‘‘ کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری‘کی روشنی میں اس رویے، طریقہ کار اور لائحہ عمل کی وضاحت کی جو کمیونسٹوں کو محنت کش طبقے کی تنظیموں، ٹریڈ یونینز، بورژوا جمہوریت، انتخابات اور وسیع تر عوام کی طرف اپنانا چاہئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کس طرح موقع پرستی اور انتہا پسندی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور انقلابی رجحانات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انقلابی مارکسزم کے نظریات ہمارے پاس محنت کش طبقے کی امانت ہیں اور یہ ہمارا تاریخی فریضہ ہے کہ تمام تر مصائب، جبراور مشکل معروضی حالات کو جھیلتے ہوئے خود چل کر محنت کش طبقے تک جائیں، ان کی ہر جدوجہد میں شریک ہوں اور ہراول کردار ادا کریں، ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کی بجائے محنت کشوں کی روایتی تنظیموں میں جا کر اصلاح پسندوں، مفاد پرستوں اور سرمایہ داری کے ایجنٹوں کے خلاف جدوجہد کریں اور مارکسزم کو وہ عوامی قوت بنائیں جو تاریخ کا دھارا موڑ دے۔ اس سیشن میں لاہور سے کامریڈ عامر کریم، حیدر آباد سے حاجی شاہ، شمالی پنجاب سے ریحانہ اختر، کشمیر سے ابرار لطیف، فیصل آباد سے نعمان، بلوچستان سے سرتاج، ڈیرہ غازیخان سے شہریار ذوق، فیصل آباد سے عمر رشید اور لاہور سے عمران کامیانہ نے سوالات کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر انٹرازم، روایتی سیاسی پارٹیوں میں کام، قانونی اور غیر قانونی کام کے طریقہ کار کا امتزاج، پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال اور تناظر، انقلابی پراپیگنڈا کے لئے بورژوا پارلیمانیت کے استعمال جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔ سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے ماجد میمن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مارکسزم اور انقلابی سوشلزم کے نظریات کو سماج کی ہر استحصال زدہ پرت تک لے جا کر بالشویک پارٹی کی تعمیر کا عمل تیز کیا جائے گا۔
مجموعی طور پر سکول کے چوتھے اور دوسرے دن کے آخری سیشن کا آغاز 23 جولائی کی دوپہر کھانے کے وقفے کے بعد ہوا۔ سیشن کا موضوع ’’مارکسزم اور مذہب‘‘ تھا اور اسے شہریار ذوق نے چیئر کیا۔ اپنی لیڈ آف میں مہدی حسن نے تاریخی مادیت کی روشنی میں مذاہب کی شروعات، ارتقا، سیاسی و سماجی کردار،قدیم انقلابی تحریکوں کے مذہبی اظہار اور مذہب پر اثرات، جدید تاریخ میں مذہب کے حکمران طبقات کے ہاتھوں استعمال، جدید اسلامی بنیادی کی شروعات اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اس کے استعمال جیسے نکات پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ اس سیشن میں شمالی پنجاب سے عمار، کراچی سے ہردل کمار، فیصل آباد سے اقصیٰ، کوئٹہ سے شکیلہ، رحیم یار خان سے مسعود افضل (کاشی)، فیصل آباد سے نعمان، ملتان سے سقراط، کوئٹہ سے سرتاج حیدر، یاسر، وقاص، فیصل آباد سے سیفی اور لاہور سے عمران کامیانہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے مذہب کی سماجی و معاشی بنیادوں، سیاسی کردار، مذہبی بنیاد پرستی، سیکولرازم، مارکسسٹوں کے مذہب اور مذہبی افراد کی طرف رویے، بالشویک انقلاب کے بعد روس میں بالشویکوں کی مذہب کی طرف پالیسیوں جیسے موضوعات پر بات رکھی۔ کامریڈز نے کہا کہ مارکسسٹ جہاں سیاست اور ریاست میں مذہب کی آمیزش کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اس عمل کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں وہاں اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کے انفرادی حق کا بھرپور دفاع بھی کرتے ہیں، ہمارا مقصد طبقاتی سماج کے ان مادی حالات کے خلاف جدوجہد ہے جہاں سے پسماندگی، توہم پرستی اور غیر سائنسی نظریات برآمد ہو کر پورے سماج پر حاوی ہوتے ہیں یا حکمران طبقات کی طرف سے کر دئیے جاتے ہیں۔مارکس نے مذہب کو محکوموں کی پکار قرار دیا تھا اور اس محکومی سے نجات سوشلسٹ سماج میں ہی ممکن ہے جب انسان کو اپنی ذات کی تکمیل اور تسخیر کائنات کے مواقع میسر آئیں گے۔ سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے مہدی حسن نے ایران میں ملاؤں کے اقتدار پر قبضے، سعودی ایران پراکسی جنگ اور اس کے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک پر اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا مذہبی بنیاد پرستی اور فسطائیت کے خلاف لڑائی صرف انقلابی سوشلزم کے نظریات کے تحت ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔
مجموعی طور پر سکول کے پانچویں اور آخری سیشن کا آغاز 24 جولائی کی صبح 10 بجے ہوا۔ سیشن کو چیئر عمران کامیانہ کیا اور راشد شیخ نے انقلابی پارٹی کی تعمیر میں نوجوانوں کے کردار، دنیا کے مختلف خطوں میں طلبہ تحریکوں،پاکستان میں طلبہ سیاست کی موجودہ کیفیت، نوجوانوں میں مارکسزم کے نظریات کی ترویج کے لائحہ عمل اور ان کی نظریاتی تربیت پر بات رکھی۔ اس کے بعد تمام ریجنز کی جانب سے ’طبقاتی جدوجہد‘ کی 35ویں کانگریس کے تناظر میں تنظیمی اہداف کا تعین کیا گیا۔
سکول کے اختتامی الفاظ ادا کرتے ہوئے عمران کامیانہ نے کہا کہ انتہائی کٹھن حالات میں کامیاب نیشنل سکول کے انعقاد، سکول کے بلند سیاسی، ثقافتی اور نظریاتی معیار نے اور شرکا کے اٹل عزم و حوصلے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اس ملک اور پورے خطے میں اگر کوئی قوت سرمایہ داری کی نہ ختم ہونے والی وحشت کا خاتمہ کر کے سرخ سویرے کی نوید بن سکتی ہے تو وہ ہم ہی ہیں۔ہم پر ہونیو الے ہر حملے نے ہمیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہی کیا ہے، ہماری ہر کامیابی ذمہ داریوں کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیتی ہے، موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ سکول میں متعین کئے گئے اہداف کو پورا کرنے میں تمام توانائیاں صرف کی جائیں اور کانگریس 2016ء کو معیاری اور مقداری حوالے سے آج تک کی سب سے کامیاب کانگریس بنایا جائے۔ تمام شرکا نے محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا۔
سکول کے تینوں روز تمام سیشنز کے دوران انقلابی شاعری اور ترانوں کا سلسلہ جاری رہا۔ شرکا کا جوش و ولولہ اور شمولیت مثالی تھی اور سیشنز کے بعد بھی تناظر، تاریخ، معیشت، فلسفے اور دوسرے موضوعات پر بحث و مباحث کا سلسلہ جاری رہا۔ تاریخی اہمیت کا حامل یہ کامیاب سکول پاکستان اور جنوب ایشیا میں انقلابی مارکسزم کی قوتوں کی بڑھوتری میں سنگ میل ثابت ہوگا۔
پہلا دن تصاویر میں
دوسرا دن تصاویر میں
تیسرا دن تصاویر میں