| تحریر: قمرالزماں خاں |
پاکستان کی تاریخ میں سب سے بھیانک اور سفاکانہ قتل عام بلدیہ ٹاؤن میں 289 مزدوروں کو زندہ جلا کرمارنے کا تھا جس میں ایم کیو ایم ملوث تھی۔ مگر پاکستانی ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگی تھی اور نہ ہی اس ہولناک اقدام کے خلاف ایم کیوایم کے خلاف معمولی سا بھی ایکشن لیا گیا۔
22 اگست 2016ء کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے جس قسم کا اشتعال پیدا کیا گیا یہ اپنی طرز کا کوئی پہلامظہر نہیں تھا۔ ماضی میں جب موجودہ قسم کے ’’میڈیا ہاوسز‘‘ موجود نہیں تھے، الطاف حسین اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹرز کو اغوا کرواکے انکی طبیعت درست کیا کرتا تھا۔ اس نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے مرحوم مالک کو ساری رات زمین پر بٹھا کر اسکی تذلیل کی تھی اور اسکے سامنے اپنے ایسے مطالبات رکھے تھے جن پر دہائیوں تک عملدرآمد کیا جاتا رہا۔ ریاستی اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر انکی اپنی بنائی ہوئی تنظیموں، پارٹیوں اور گروپوں کے اس قسم کے ’’انتہائی سنگین‘‘ واقعات پر عمومی طور پر چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں لال مسجد کے خطیب کی طرف ریاست کا پیار بھرا رویہ اسکے باوجود ہے کہ وہ ریاست کی رٹ کو مسلسل چیلنج کرتا ہے اور اسکی سرپرستی میں چلنے والے مدرسے جامعہ حفصہ میں ’داعش‘ کے امیر ابوبکر بغدادی کی غائبانہ ’بیعت ‘ کی ویڈیو سوشل میڈیا پرچلتی رہی ہے۔ اس ویڈیو میں عراق میں قتل وغارت گری کرنے والے اس وحشی سے درجن بھر نقاب پوش خواتین پاکستانی فوج، اسکے سربراہ اور دیگر عسکری اداروں کے سربراہان کے قتل کا مطالبہ اور پاکستان پر قبضہ کرنے کی اپیل کرتی نظر آئیں۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق یہ ایک کھلی باغیانہ روش تھی، یقینی طور پر پاکستان کی ’’حاکمیت اعلیٰ‘‘ اور ’’سالمیت‘‘ کو چیلنج کیا جارہا تھا، مگر یہاں نہ تو کوئی آپریشن ہوا اور نہ ہی ملا عزیز اور اسکی طالبات کے خلاف غداری کے مقدمات چلاکران کو سز ا دی گئی۔ ایسے اقدامات بوقت ’ضرورت‘ہی لئے جاتے ہیں۔
عمومی طور پر کراچی آپریشن کے بارے میں ایم کیو ایم کی طرف سے میڈیا میں پھیلایا گیا تاثر ہے کہ یہ’آپریشن‘ ایم کیو ایم کو ٹارگٹ کر رہا ہے۔ 22 اگست کو ایک میڈیا ہاؤس، جس کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بعد پاکستانی عسکری اسٹیبلشمنٹ کا ترجمان ہے، پر ایم کیوایم کے خواتین وحضرات کے حملے پر کہرام زیادہ مچایا گیا اور اس حملے کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کی طرف سے شدید ’ردعمل‘ نظر آیا (یا کم از کم تاثر یہ دیا گیا)۔ مگر اس ’’ردعمل‘‘ کی شدت کا دائرہ بڑا محدود رہا جس سے ایم کیو ایم کی سیاست اور اسکی بقا کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہوا۔ رینجرزکی پکڑ دھکڑاور اسکو میڈیا پر نمایاں کرکے دکھایا جاناایسا کوئی امر نہیں ہے جو ایم کیو ایم کی سلامتی کے لئے خطرہ ہو۔ اس وقت تک جتنی بھی اکھاڑ پچھاڑ کی گئی ہے یا آنے والے دنوں میں ایم کیوایم کے تنظیمی ڈھانچوں میں کئے جانے کے امکانات ہیں، اس سے ایم کیو ایم کے سیاسی وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ ایک زیادہ میک اپ شدہ’ متحدہ قومی موومنٹ ‘ حکمران طبقے کے مفادات کے لئے زیادہ بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔ ایم کیوایم کو مٹانا مقصود ہوتا تو پھر بلدیاتی الیکشن کے موجودہ مرحلے میں ایسا کیا جاسکتا تھا۔ ریاست کے لئے یہ ذرا بھی مشکل نہ تھا کہ کراچی کے میئر، ڈپٹی میئر اور نچلے درجے کے بلدیاتی اداروں کے سربراہان ایم کیو ایم سے نہ بننے دئیے جاتے۔ اس سے واضح طور پر ریاست کے کراچی اور ایم کیو ایم کے متعلق رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ’گڈ طالبان‘ کی طرح زیادہ ’تابعدار‘ متحدہ قومی موومنٹ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی مقاصد کے لئے لازم ہے۔ ریاست اور اسکے اداروں نے کراچی جیسے محنت کشوں کے سب سے بڑے شہر کو ایک طبقاتی جڑت سے محروم رکھنے کے لئے پچھلے چالیس سالوں میں جتنے بھی اقدامات کئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں پر فرقہ ورانہ، لسانی اور قومی تقسیم کے اوزار کا استعمال مطلوب ہے۔ یہاں تمام فرقوں، لسانی اور قومی گروپوں میں ریاستی مداخلت اور ریاست کے مختلف دھڑوں کی جانب سے ان کی حمایت اور سرپرستی موجودہے۔
طالبان کی طرح ایم کیو ایم کے عفریت کے ’’آزاد اور خود مختار‘‘ ہونے کی خواہش اور اس عمل میں کہیں کہیں ریاست کی چٹکیاں لینے پر اسکی ’سرزنش‘ کی جاتی ہے مگر اس طرح کہ اسکا وجود برقرار رہ سکے۔ کراچی میں 12 مئی کے قتل عام کو ’’عوامی طاقت کا ردعمل‘‘ قراردینے والا کوئی سویلین نہیں بلکہ آرمی چیف تھا۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو معرض وجود میں لانے اور پروان چڑھانے کا فریضہ بھی جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں سرانجام دیا گیا تھا۔ اس عمل کے طے شدہ سیاسی و طبقاتی اہداف تھے۔
کراچی کی کیفیت اور چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے والی صورتحال ریاست پاکستان کے اپنے بحران کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ہے۔ اداروں کا باہمی تصادم اور اداروں کے اندر یکسوئی اور ایکتاکے فقدان کی وجہ سے ہر آپریشن، ہر پالیسی اور ہر حکمت عملی میں تضادات نظر آتے ہیں۔ ’آپر یشن ضرب عضب‘ سے زیادہ شدت کی لڑائی سیاسی حکومت اور عسکری اداروں میں ہورہی ہے۔ لڑائی کی وجوہات وہی دھرنوں کے دنوں والی ہیںیعنی ٹھیکے، اسلحے کی خریداری اور خارجہ پالیسی کو تعین کرنے کا حق وغیرہ، جو آخری تجزئیے میں مالیاتی وجوہات ہیں۔ اس لڑائی میں ہمیشہ کی طرح عسکری قوتوں کے بہت سے بازو ہیں۔ حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفیکیٹس اسی سلسلے ٹیلی وژن چینلز پر تقسیم کئے جاتے ہیں۔
آج 69 سال بعد بھی یہاں آباد مختلف قومیتیں اور لسانی گروہ ایک یکجا ریاست میں ضم نہیں ہو سکے۔ دیگربیان کی گئی وجوہات کے ساتھ کراچی میں لسانی بنیادوں پر سیاسی طاقت کومتحدہ قومی موومنٹ کی شکل میں استوار کرنے کی مادی، معاشی اور معاشرتی وجوہات تھیں۔ مگر 30 سالوں میں زیادہ ترحاکمیت پر براجمان رہنے کے باوجود’ متحدہ ‘کراچی کا کوئی بنیادی مسئلہ حل نہ کرسکی۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی آج بھی کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے کراچی کو کچرے کا ڈھیر قراردیا جاتا ہے۔ بے روزگاری کے مسئلے کو متحدہ نے نوجوانوں کو یرغمال بنانے کے لئے استعمال کیا اور انکو ’روزگار‘ دینے کے بدلے جرائم کی دنیا میں دھکیل کر اپنی طاقت اور دہشت کو قائم رکھا۔ پورے پاکستان کی طرح کراچی کے مسائل کی بنیاد نہ تو لسانی تھی اور نہ ہی لسانی بنیادوں پر اسکو حل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا کراچی کے مسائل ان بنیادوں پر حل نہ ہوسکے جن کا اعلان 1986ء میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) اور بعد ازاں ایم کیو ایم کی تشکیل کے وقت کیاگیا تھا۔ بلکہ اس نقطے کو فراموش کروانے کے لئے ہی تو ایم کیو ایم بنائی یا بنوائی گئی تھی کہ’ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے کراچی کے محنت کش طبقے کی زندگی نہیں بدلی جاسکتی‘۔ لہٰذا مرض کی درست تشخیص تھی نہ ہی اسکا تدارک ہوسکا اور وہ بڑھتے بڑھتے ناسور بنتا چلا گیا۔
پچھلے تیس سالوں میں ایم کیو ایم نے اپنا وجود لسانی نفرت، طاقت، فاشسٹ ہتھکنڈوں، قتل وغارت گری اور تشدد کے ذریعے برقراررکھا ہے۔ مگر تیس سالوں میں بنیادی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم سے وابستہ عام لوگوں میں بیزاری، مایوسی اور بیگانگی پیدا ہوتی اور بڑھتی گئی ہے۔ اس بیگانگی نے جلاوطن قیادت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اگرچہ اسکی وجوہات مختلف تھیں۔ ماضی کی من مانیوں اور اختیارات میں کمی کے پیش نظر ’الطاف حسین‘ پر فرسٹریشن غالب آتی گئی۔ طاقت کا اندھا استعمال کرنے کے عادی اور ہر مطلق آمر کی طرح الطاف حسین بھی ذہنی عدم توازن کا شکار ہوگیا اوراسکی حرکات وسکنات کسی طور بھی کسی صحت مند ذہنی حالت والے انسان سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ مگر سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہوتی ہے کہ الطاف حسین کے بے تکے جملوں، رونے دھونے، تقریر کے دوران غیر متعلقہ گیت گانے اور پنجابی فلموں جیسی بڑھکوں پر تعلیم یافتہ اور شکل وصورت سے معقول نظر آنے والے سامعین خواتین و حضرات خوب سردھنتے اور ’’جی بھائی، آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھائی‘‘ جیسے جملے دہراتے پائے جاتے۔ یہ اس جبر کا نتیجہ ہے جو تنظیم کے اندر ان غنڈہ عناصر کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے جو جلسوں کے دوران ہی ان افراد کو زود کوب کرتے، کھینچتے ہوئے لے جاتے تھے جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور وہ الطاف حسین کے مضحکہ خیز جملوں پر ہنس پڑتے ہیں۔
الطاف حسین کی ایم کیو ایم پر گرفت کم ہوتی ہے یا برقرار رہتی ہے یہ اتنااہم سوال نہیں ہے جتنی بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کراچی کے محنت کش عوام کو مسلسل منتشر اور شہر کو مسلسل خوف و ہراس میں مبتلا رکھنے کے لئے کسی نہ کسی شکل میں ایم کیو ایم کی ضرورت ہے (نام جو بھی رکھ لیں)۔ تاہم موجودہ اکھاڑ پچھاڑ، ریاستی اداروں کی حکمت عملی کی ہزیمت اور فاشسٹ قیادت سے اسکے پیروکاروں کی بدزنی سے اس ’معمول‘ کے شکار کراچی کے عوام کے شعور پر مختلف اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ لوگ اس گھن چکر سے نکل کرپورے نظام کے خواص اور کردار کا جائزہ لینے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ تلخ حالات محنت کشوں اور نوجوانوں کو اس طرف دھکیل رہے ہیں۔ شعور کی یہ کروٹ بغاوت میں بھی بدل سکتی ہے!