۔9/11 کا آسیب

[تحریر: لال خان، ترجمہ: فرہاد کیانی]

نیو یارک اور واشنگٹن پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کے بعد کے گیارہ ہنگامہ خیز برسوں میں دنیا جنگوں، دہشت گردی، خونریزی، معاشی اور سماجی بربادی کے ہاتھوں بہت تاراج ہوئی ہے۔ یہ خوفناک واقعہ تاریخ کا ایک اہم موڑ تھاجس کا نقش اجتماعی نفسیات پر ثبت ہو چکا ہے۔لگ بھگ تین ہزار امریکی محنت کش اس تباہی میں ہلاک ہوئے۔ مرنے والوں میں سے کسی کا تعلق بھی امریکی اشرافیہ سے نہیں تھا۔ اس مجرمانہ اور پاگل پن کی کاروائی کو کرنے والے اسلامی بنیاد پرست اور ان کے ماضی پرست آقا ہر طرح سے قابل مذمت ہیں لیکن ان منافقانہ وجوہات کی بنا پر نہیں جو اس وقت بش اور بلےئر بیان کر رہے تھے۔ اس کے متعلق رجعتی مذہبی انتہا پسندوں سے لے کر لبرل عذر خواہوں تک کی جانب سے لا تعداد من گھڑت تھیوریاں پیش کی جا چکی ہیں۔ ہر تھیوری کے پیچھے اپنے مفادات ہیں۔ لیکن در حقیقت سامراج کے تخلیق کردہ راکشس جسے سی ائی اے اور مشرق وسطیٰ، پاکستان اور افغانستان میں اس کے پٹھوؤں نے جنم دیا اور تربیت سے کر پالا پوسا، اسی القائدہ نے امریکہ کے قلب یہ وار کر دیا۔
تاہم یہ مان لینا مشکل ہے کہ دنیا کی سب سے قوی عسکری اور معاشی طاقت کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اتنی خصی ہیں کہ انہیں اتنے بڑے حملے کے منصوبے کا علم ہی نہیں تھا جبکہ انہیں موساد پہلے ہی اس بارے میں خبر دار کر چکی تھی۔ حملے کے روز 11ستمبر2001ء کو ٹیڈ گرانٹ اور ایلن وڈز نے لکھا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ سی آئی اے اتنی بے خبر اور نا اہل تھی کہ اس نے امریکہ کے قلب پر اتنے تباہ کن حملے ہونے دیے؟ایک امکان کا ذکر نہیں کیا جا رہا اور وہ یہ ہے کہ یہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اپنی ترغیب تھی جو قابو سے باہر ہو گئی۔ سازشوں، اشتعال انگیزیوں اورجوابی اشتعال انگیزیوں سے بھری خفیہ ایجنسیوں کی اندھیری دنیا میں یہ خارج از امکان نہیں ہے کہ امریکی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ایک دھڑے نے بڑے پیمانے پر جنگجو پالیسی اور جنگی سازو سامان کے حصول کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے دہشت گردوں کو امریکہ کے اندر حملہ کرنے کی اجازت دی۔ امریکی انٹیلی جنس کی حیران کن ناکامی کی یہی وجہ ہو سکتی ہے، اگرچہ ان حملوں کی تباہ کاری سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اشتعال انگیزی پر مبنی یہ پلاننگ قابو سے باہر ہو گئی‘۔
9/11کے بعد امریکی اسلحہ ساز و عسکری صنعت (ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس) دنیا کا سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکی ہے۔ لاک ہیڈ مارٹن، جنرل ڈائینا مکس، ہیلی برٹن، جنرل الیکٹریک اور دیگر کمپنیاں بے پناہ دولت کی مالک بن چکی ہیں۔ امریکی جنگی مشینری ایسے حرکت میں آئی جیسے افغانستان اور عراق پر حملے کا تفصیلی منصوبہ پہلے سے ہی ان کے پاس موجود ہو۔ ان جنگوں پر آنے والی مجموعی لاگت 4ہزار ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے اوراس رقم کا بڑا حصہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بنانے والوں کی جیبوں میں جا رہا ہے۔انتہائی محتاط اندازوں کے مطابق عراق اور افغانستان میں قریباً167,000بے گناہ شہری قتل اور 80لاکھ سے زیادہ ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ سب کالے دھن کے پجاری و درندہ صفت بنیاد پرست دہشت گردوں اور منڈیوں اور اقتدار کے بھوکے سامراج کی وحشت ناک بربریت کے مابین لڑائی کا نتیجہ ہے۔ امریکی محنت کش اور نوجوان بھی اس معاشی و سماجی یلغار کا شکار ہوئے ہیں جواس جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اور جوئے پر مبنی مالیاتی اداروں اور بینکوں کو بچانے کی خاطر ان پر مسلط کی گئی ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں امریکی نوجوان، سامراج کے دیوانہ وار ننگے ناچ کا شکار بن چکے ہیں جن کے پاس تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری میں مسلح افواج میں بھرتی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
امریکی حکمران طبقہ بین الاقوامی معاملات میں اکثر حماقت کی حد تک کم نظری اور محدود سوچ کے تحت عمل کرتا ہے۔ یہ امریکی سائنس اور ٹیکنالوجی کے حاصلات اور یہاں کی سیاسی اشرافیہ کے عامیانہ پن اور پسماندگی کے مابین ایک جدلیاتی تضاد ہے۔ قدیم یونان کی المیہ بھری داستان کا مرکزی کرداد ہبرس بہت گھمنڈی اور متکبر ہو تا ہے جس کی وجہ سے آخر کار وہ برباد ہو جاتا ہے۔امریکی سامراج کی بے پناہ قوت، اس کی بے شمار دولت اور سویت یونین کے انہدام کے بعد ساری دنیا پر غلبے کی وجہ سے اس میں ہتک آمیز تکبر پیدا ہو ہے۔ لیکن داخلی اور خارجہ پالیسی میں مسلسل ناکامیاں اس سلطنت کے آخری زوال کو عیاں کر رہی ہے۔ ایک طرف دور دراز کے ممالک کو تباہ کرنے کے باوجود امریکی سامراج کو ایک کے بعد دوسری شکست کا سامنا ہے اور دوسری جانب تیزی سے پھیلتا ہوا بحران امریکی معیشت کو کھائے جا رہا ہے اور سماج میں بے اطمنانی سرائیت کر چکی ہے۔
2008-09ء کے بحران کے بعد سے امریکی صدمے والی کیفیت میں چلے گئے۔ ان کی خوش فہمی تھی کہ یہ محظ ایک غیر معمولی عمل ہے اور چیزیں جلد ہی معمول پر آ جائیں گی۔لیکن اب ایک نیاتکلیف دہ ’ ’معمول‘‘ ان کا مقدر بن چکا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اجرتوں، حالاتِ زندگی اور مراعات میں گراوٹ لا رہا ہے۔ محنت کشوں کے پاس اس کے خلاف لڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔گزشتہ 30برس میں دولت غیر معمو لی طور پر اوپر کی جانب منتقل ہوئی ہے اور محنت کشوں کی پیدا کردہ دولت کا بڑا حصہ پہلے سے ہی بے حد امیر افراد کی جیبوں میں جاتا رہا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں امریکہ کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں تین گنا اضافہ ہوا ہے لیکن اجرتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور اگر افراط ذر کو شمار کریں تو ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔ امارت اور غربت کی یہ خلیج اب بے پناہ وسیع ہو چکی ہے۔ڈیموکریٹ اور ری بپلکن امریکی پرولتاریہ کے خلاف سرمایہ داروں کے احکامات پر عمل درآمد کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ 1930ء کی دہائی میں امریکہ دنیا کا سب سے بڑاقرض خواہ ملک تھا اور آج دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک بن چکا ہے۔ مئی2012ء میں امریکہ کا مجموعی سرکاری قرضہ 15.7ٹریلین ڈالر تھا جو مجموئی قومی پیداوار کا 102فیصد ہے۔
’امریکہ میں خوشحال زندگی کے خواب‘ (The American Dream)کی مادی بنیادیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں۔ 1930 ء کی دہائی کے بعد سے پہلی مرتبہ امریکیوں کی اکثریت آمدن اور دولت کی از سر نو تقسیم کے حق میں ہے۔ پیو (Pew)ریسرچ کے مطابق18سے 29برس کی عمر کے 49فیصد امریکی سوشلزم کے حق میں ہیں جبکہ43فیصد سرمایہ داری کے۔وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک سے امریکہ اور ساری دنیا ششدر رہ گئے۔ تیونس، مصر، سپین،یونان اور وسکانسن کے واقعات سے متاثر ہو کرشروع ہونے والی چھوٹی سی تحریک امریکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ساری دنیا میں اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ مظاہرین کے مقاصد مختلف تھے لیکن وہ موجودو صورتحال کے خلاف تبدیلی کے لیے متحد تھے۔ امریکی محنت کشوں اور نوجوانوں پر لگایا جانے والا ’بے حسی ‘ کا الزام خاک میں مل گیا۔ اب تک سامراجی آقا اور اسلامی بنیاد پرست 9/11کے آسیب سے ڈرا کر ساری دنیا میں محکوم طبقات کو مجبور کرتے آ رہے تھے لیکن یہ خوف اب چھٹ رہا ہے۔ امریکہ میں طبقاتی جدوجہد کے ایک نئے عہد کا آغاز ہے جس کے بارے میں ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ یہ ’’وہ فولاد کی بھٹی ہے جس میں دنیا کا مستقبل پک کر تیار ہو گا‘‘۔
ڈیلی ٹائمز، 9ستمبر 2012ء

متعلقہ:

اداریہ جدوجہد: 9/11 دہشت اورجارحیت کا تصادم