صدی کا سچ!

اداریہ جدوجہد:-

اس سال پاکستان کو بنے 70 سال ہو جائیں گے او ر پیپلز پارٹی کا 50 واں یوم تاسیس منایا جائے گا۔ عددی حوالوں سے یہ اہم سنگ میل کچھ زرد اور المناک معلوم ہوتا ہیں۔ 70 سال کی آزادی کے بعد پاکستان کے باسیوں کی وسیع تر اکثریت برباد ہے۔ پیپلز پارٹی کی حالت زار یہ ہے کہ ریاست اور سامراج کی اطاعت نے اس کو ایک ایسی نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں اس کے بحران سے نکلنے کے امکانات کٹھن ہیں اور اس کا سیاسی روایت ہونے کا کردار مٹ جانے کے خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔ لیکن جہاں پاکستان میں غربت، ذلت اور خونریزی کا کھلواڑ جاری ہے وہاں عالمی طور پر بھی استحکام، ترقی اور انسانی بہتری کی بجائے انتشار اور زوال کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف ایک بیزاری اور اکتاہٹ ہے۔ اس نظام سے سارا جہاں تنگ اور مجروح ہے۔ نسلِ انسان بربریت میں سرکتے ہوئے اس سماجی نظام کو بدلنے کے لیے تڑپ رہی ہے لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکمران طبقات کے ساتھ ساتھ محنت کش عوام کی روایتی قیادتوں نے بھی ان کی نجات کے تمام راستوں کو مسدود اور بند رکھنے تہیہ کر رکھا ہے۔
لیکن اس یاس کے عالم میں امید اور نجات کی ایک ایسی یاد اور میراث بھی ہے کہ حکمران طبقات جس کو ایک صدی سے دبانے، بھلانے اور کچلنے کے باوجود مٹا نہیں سکے۔ یہ 1917ء کا بالشویک انقلاب ہے۔ اس سال عظیم انقلابِ روس کو ایک صدی بیت جائے گی۔ اگر ہم غور کریں تو ایک صدی بعد بھی اور کوئی نظریہ، لائحہ عمل اور انقلابی طریقہ کار نہیں ہے جو اس کو پچھاڑ دیتا اور اس سے بہتر کوئی حکمت عملی پیش کرسکتا جس سے انسانیت کی سیاسی، سماجی اور معاشی آزادی سائنسی بنیادوں پر ممکن ہوسکتی ہے۔ اصلاحات سے لے کر جبر تک، مذہب سے لے کر قوم پرستی تک، ہر نظریہ اور ہر حربہ اپنایا گیا ہے لیکن اس نظام کو بدلے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
1917ء کا بالشویک انقلاب بنیادی طور پر اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے اور نسل انسان کی صدیوں کی طبقاتی غلامی سے آزادی کا آج بھی واحد راستہ ہے۔ آج کے اس مایوسی اور بدگمانی کے دور میں، جہاں ہر طرف سے بری خبریں ہی آرہی ہیں، محنت کش اور غریب عوام کو جھوٹی امیدیں دلانے کے قابل بھی اس نظام کی سیاست اور دانش نہیں رہی ہے۔ ایسے میں انسانیت کے پاس گزشتہ سو سالوں کا یہ سب سے بڑا تاریخی سچ ہے جس نے پہلی بار ثابت کیا کہ انسانوں کی اکثریت اگر معاشرے کو چلاتی ہے تو یہ اسکی حاکمیت کے حصول اور اپنے مقدر کو اپنے اختیار میں لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ محنت کرنے والے عام انسان، جن کو طبقاتی معاشرے میں ہر گھڑی دھتکارا جاتا ہے، وہ اس ذلت اور تضحیک کی گہرائیوں سے نکل کر ابھر بھی سکتے ہیں، ان کی ہمت اور جرات بھڑک بھی سکتی ہے اور وہ آگے بڑھ کر اس نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک روشن مستقبل اپنے ہاتھوں سے خود تعمیر وتخلیق کرسکتے ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جس کو ہر قسم کی غداری، پراپیگنڈے، حکمرانوں کی بیش بہا دولت، جبر اور اختیار کے باوجود نہ تو مٹایا یا جاسکا ہے اور نہ اس کی میراث کو نئی نسل سے ہمیشہ کے لئے چھپایاجاسکتا ہے۔ اسی لیے 2017ء کا سال بالشویک انقلاب کی 100 ویں سالگرہ کے جشن کا سال ہے۔ یہ محرومی کی ان اتھاہ گہرائیوں میں بالشویزم اور انقلابی سوشلزم کی سچائی سے شعور، ہمت اور جدوجہد کو اجاگر کرنے کا سال ہے۔ محنت کش طبقات اور وسیع تر عوام تک یہ پیغام پہنچانے کا سال ہے کہ یہ بربادیاں صدا ہمارا مقدر نہیں ہیں۔ یہ استحصال، ظلم اور جبر ہماری تقدیر میں نہیں لکھا گیا بلکہ اس کو ایک وحشی نظام کی آمریت نے ہم پر مسلط کیا ہے۔ اس پورے نظام کو گرایا بھی جاسکتا ہے۔ سماجی واقتصادی، ثقافتی و تہذیبی، مادی و روحانی ترقی کی وہ رفتا ر اور عظمت بھی حاصل کی جاسکتی ہے جہاں انسان کو انسان بننا نصیب ہوسکے گا۔ ان محرومی کے بندھنوں سے آزاد ہو کر وہ سائنس، فلسفے، فن، تخلیق اور تعمیر کی نئی جہتوں اور نئی بلندیوں کے ساتھ معاشرے کو مانگ سے آزاد کروا کے انسانیت کو اس کی معراج پر لے جائے گا۔ وہاں تسخیر کائنات کا سفر بھی شروع ہو گا اور آگے بڑھے گا۔ یہی اس سال شروع ہونے والی اکتوبر انقلاب کی طویل سالگرہ کے جشن کا پیغام ہے۔