شام کا المیہ

تحریر: حسن جان

پچھلے ہفتے امریکی قیادت میں برطانیہ اور فرانس نے شام کے شہروں دمشق اور حمص میں ’کیمیائی ہتھیار بنانے والی تنصیبات‘ پر بمباری کی۔ بظاہر یہ حملہ حالیہ دنوں میں شامی حکومت کی جانب سے دمشق کے قریب مبینہ طور پر شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال، جس میں مبینہ طور پر 43 افراد ہلاک ہوئے تھے، کے جواب میں کیا گیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مطابق اس حملے کا مقصد کیمیائی ہتھیاروں کی پیداواری تنصیبات کو تباہ کرنا تھا تاکہ مستقبل میں شامی حکومت ’شہریوں پر اور حملے نہ کرسکے‘۔ پچھلے سال اپریل کے مہینے میں ہی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ہی جوازبنا کر امریکہ نے بحیرہ روم میں اپنے بحری بیڑوں سے حمص میں واقع شعیرات ایئر بیس پر 59 ٹوماہاک میزائل داغے تھے۔ امریکہ کے مطابق اس ایئر بیس کو کیمیائی حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس حملے کے چند گھنٹے بعد اسی ایئر بیس سے شامی ایئر فورس کے جنگی طیاروں نے دوبارہ باغیوں پر بمباری کے لیے اڑان بھری۔
حملے کے بعد امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے شامی حکومت کو خبردار کیا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے دوبارہ استعمال کی صورت میں امریکہ دوبارہ حملہ کرے گا۔ شام کی حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کی ہے جبکہ روس نے کہا ہے کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہے کہ یہ اشتعال انگیزی برطانیہ نے کی ہے۔ پہلے ہی ماہرین کی ایک ٹیم اقوام متحدہ کی جانب سے بھیجی جاچکی ہے جو صرف اس بات کا پتا لگائے گی کہ آیا کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے تھے یا نہیں۔ کس نے یہ ہتھیار استعمال کیے ہیں اس بات کا پتا کرنا ٹیم کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ یہ ٹیم تیس دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ مضحکہ خیزی یہ ہے کہ ماہرین کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اپنی رپورٹ ایک مہینے بعد پیش کریں گے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ان ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کو جواز بنا کر ٹوماہاک میزائل پہلے ہی داغ دیئے ہیں۔
حالیہ امریکی میزائل حملوں کے مقاصد اور حاصلات کے بارے میں خود بورژوا ماہرین بھی متذبذب اور کنفیوز ہیں کیونکہ ان حملوں سے نہ تو وہ بشار الاسد کی حکومت کو کوئی نقصان پہنچا سکے اور نہ ہی شام میں موجودہ طاقتوں کے توازن کو کوئی زک پہنچا سکے۔ سامراج کے اپنے ماہرین ان حملوں کے اصل مقاصد کے بارے میں لاعلم ہیں۔ اگر ان کا مقصد کیمیائی ہتھیاروں کی پیداواری تنصیبات کو نشانہ بنانا تھا تو بھی ان کی کامیابی واضح نہیں ہے۔ شام میں پچھلے سات سالوں کی خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ زخمی اور بے گھر ہوچکے ہیں۔ کیمیائی ہتھیاروں سے ہونے والی ہلاکتیں اس تعداد کا بہت تھوڑا حصہ ہے۔ اگر نام نہاد انسانی ہمدردی اور شہریوں کی جان بچانے کے لیے ہی شامی حکومت پر حملہ کیا گیا تو کیمیائی ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کو ہی کیوں بہانہ بنایا گیا؟
امریکی تھنک ٹینک ادارہ بروکنگز (Brookings) نے اپنے ایک حالیہ مضمون ’’ایک پُرفریب فتح‘‘ میں لکھا ہے، ’’حملہ بہت ہی محدود تھا۔ مغربی رہنماؤں نے کچھ ایسا کام کرنے کی کوشش کی جس سے کوئی روسی یا ایرانی (فوجی) نہ مرے اور شامی شہری بھی نشانہ نہ بنیں۔ ایسے اہداف کو نشانہ نہیں بنایا گیا جس سے صورت حال مزید پیچیدہ ہوجائے… یقیناًحملے میں شامل تمام مغربی ممالک اس طرح کا پیغام نہیں دینا چاہتے تھے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اس پیغام کو کس طرح سمجھا جائے گا کیونکہ روس اور شام بات کے جوہر تک پہنچنے کے ماہر ہیں۔ مغربی طاقتوں نے ہوشیاری دکھائی۔ داخلی سامعین (عوام) کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا اور ایک انتہائی کمزور پیغام دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ مغربی طاقتیں شام کے جھمیلے میں کودنا نہیں چاہتیں… اس مہینے ہونے والا حملہ کوئی پرزور پیغام دینے میں ناکام رہا۔‘‘
حملے سے کچھ عرصہ پہلے ہی ڈانلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کو واپس لانے کی بات کی تھی۔ ٹرمپ نے اپنے ٹی وی خطاب میں کہا، ’’یہ (مشرق وسطیٰ) ایک پرانتشار جگہ ہے۔ ہم اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ پرانتشار جگہ ہے۔ امریکہ ایک دوست ملک رہے گا لیکن خطے کی تقدیر کا فیصلہ اس کے لوگ ہی کریں گے۔‘‘ یہ کتنی منافقت ہے۔ امریکی سامراج نے ہی 2003ء میں عراق پر حملہ کرکے مشرق وسطیٰ کی موجودہ بربادی اور خونریزی کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اسی طرح شام میں بھی داعش اور دوسری بنیادپرست تنظیموں کو تشکیل دے کر بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔ آج یہ ایک عفریت بن کر پوری مشرق وسطیٰ میں خونریزی کر رہی ہیں۔
2011ء میں عرب انقلابات کے زیر اثر شام میں بھی بشارالاسد کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے شروع ہوئے لیکن جلد ہی سامراجی ممالک کی پراکسیوں کی مداخلت کے نتیجے میں یہ تحریک زائل ہوگئی۔ اس کے بعد شام سامراجیوں کے پراکسیوں کا اکھاڑا بن گیا۔ شامی فوج میں جرنیلوں کی پے در پے بغاوتوں اور شکستوں کے نتیجے میں بشارالاسد کی حکومت ایک وقت میں صرف دمشق تک محدود ہو کر رہ گئی تھی حالانکہ اس کی حکومت کو ایرانی پاسداران انقلاب اور اس کی فاطمیون بریگیڈ اور لبنان کی حزب اللہ کی کمک بھی حاصل تھی۔ شام کے کرد علاقوں سے حکومت خانہ جنگی کے آغاز سے ہی اپنی فوجیں ہٹا چکی تھی اور وہاں کردوں کی خودمختار حکومت قائم ہوچکی تھی۔ 2015ء میں ایسا لگ رہا تھا کہ شاید بشارالاسد چند دنوں کا مہمان ہے کیونکہ ملک کے زیادہ تر حصوں پر داعش،نصرہ فرنٹ اور دیگر بنیادپرست پراکسیوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ لیکن ستمبر 2015ء میں روس کی اس جنگ میں شمولیت نے صورت حال کو یکسر تبدیل کردیا۔ روس کی فضائی بمباری اور روسی فوج اور ایرانی ملیشیاؤں کی کمک کے نتیجے میں اسد کو سنبھلنے کا موقع ملا اور ملک کے تمام اہم علاقوں کو داعش اور دیگر سے تنظیموں سے ’آزاد‘ کرا لیا گیا۔
روس کی شام میں مداخلت کا مقصد دراصل مختلف سامراجی ممالک کے اس عالمی اکھاڑے میں اپنی حیثیت کو منوانا اور خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا تھا۔ لیکن آج کا روس کوئی سوویت یونین نہیں جس کے پیچھے ایک منصوبہ بند معیشت تھی۔ اسی کے بلبوتے پر ہی وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھراتھا۔ پیوٹن کا روس ایک مافیائی سرمایہ دارانہ ملک ہے جس پر قابض حکمران طبقات روس کی منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کو لوٹ کر امیر بنے ہیں۔ سالوں تک معاشی زوال میں رہنے کے بعد پچھلے سال ہی روس کی معیشت میں نحیف سی بحالی آئی ہے۔ معیشت کے زوال کی وجوہات میں جہاں مغربی اقتصادی پابندیاں ہیں وہیں تیل کی قیمتوں کی گراوٹ نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اس کمزور معیشت کے ساتھ روس کی خطے میں مداخلت زیادہ تحکمانہ نہیں ہوسکتی۔ بلکہ اگریہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ روس کی شام اور مشرق وسطیٰ میں مداخلت کا راستہ اس کی اپنی طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکی سامراج کی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے کھلا ہے۔ افغانستان اور عراق میں فوجی شکستوں، معاشی بحرانات اور عالمی سرمایہ داری کے اپنے نامیاتی زوال کی وجہ سے اب امریکہ ماضی کی طرح دھڑلے سے ہر جگہ فوجی مداخلت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے موجودہ حملے بھی امریکی سامراج کے اپنے ماہرین کے مطابق اس کی اپنی کمزوری کو عیاں کرتے ہیں۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے شام سے نکلنے کی بات کی تھی لیکن غالباً امریکی ڈیپ سٹیٹ اس فیصلے کے حق میں نہیں تھی اس لیے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر یہ حملہ کروایا گیا تاکہ محدود پیمانے پر ہی سہی لیکن شام میں امریکی موجودگی قائم رہے۔ جبکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے ڈالے گند کو صاف کرنے کا ٹھیکہ روس اور ایران کے حوالے کردیا ہے۔
شام سامراجی مداخلتوں کی وجہ سے اب کھنڈر بن چکا ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر شام کی تعمیر نو اور قبل از جنگ کی حالت میں واپسی کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔ ایران اور روس کو ملک کی تعمیر نو سے کوئی سروکار نہ ہوگا بلکہ اس دوران ملنے والے ٹھیکوں میں اپنی حصہ داری اور وہاں اپنی عسکری موجودگی کو مزید مضبوط کرنے سے غرض ہوگی۔ لیکن ایران کی موجودگی اور بڑھتا ہوا اثرورسوخ خطے کی دوسری ریاستوں بالخصوص اسرائیل اور سعودی عرب کے لیے ناقابل قبول ہوگا۔ ایسے میں ان کی پراکسی جنگیں جاری رہیں گے اور شامی عوام اسی طرح ان جنگوں کا ایندھن بنتے رہیں گے۔اس صورت حال میں شام کے المیے کا خاتمہ شام سے باہر مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں بالخصوص سعودی عرب، ایران اور ترکی وغیرہ میں محنت کش عوام کی کامیاب انقلابی تحریکوں سے ہوگا۔