| رپورٹ: حسن جان |
بلوچستان میں بد ترین ریاستی جبراور مشکل ترین معروض کے باوجود ہفتہ 14 مئی کو کوئٹہ میں طبقاتی جدوجہد کے زیر اہتمام ریجنل کانگریس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ طبقاتی جدوجہد بلوچستان کی تاریخ کی سب سے بڑی کانگریس تھی جس میں محنت کشوں، نوجوانوں، طلبہ تنظیموں، ٹریڈ یونینز، خواتین اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ نذر مینگل سرانجام دے رہے تھے۔ پروگرام کا آغازماسٹر ظفر نے ساحر لدھیانوی کی ایک انقلابی نظم ترنم سے گا کر کیا۔ اس کے بعد کامریڈ لال خان نے عالمی اور ملکی معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال پر مفصل لیڈ آف دی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنے بد ترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ کوئی بھی ملک اس بحران سے مبرا نہیں ہے۔ اس معاشی بحران کی وجہ سے عالمی سطح پر بیروزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ زائد پیداواریت اور قوت خرید کے گرنے کی وجہ سے کارخانے اور صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے سیاسی میدان میں مختلف ملکوں میں دائیں اور بائیں بازو کے نئے نئے رجحانات اور پارٹیاں ابھر رہی ہیں۔ لال خان نے کہا کہ ماضی میں سرمایہ دارانہ نظام کو شدید بحرانوں سے بچانے والا چین آج خود ایک شدید بحران سے دوچار ہے۔ چین کا مجموعی قرضہ اس کے جی ڈی پی کے 260 فیصد سے بھی تجاوز کرچکا ہے۔ جو لوگ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں ترقی کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
اس سیشن میں بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے بی ایس او کے وائس چیئرمین عزیز بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں نام نہاد پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کی آڑ میں بد ترین ریاستی جبر اور فوجی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ جس اقتصادی منصوبے کا آغاز ہی ہمارے گھروں پر بمباری اور ریاستی جبر سے ہو ہمیں ایسا منصوبہ قبول نہیں۔ بلوچستان کے وسائل پر یہاں کے باسیوں کا حق ہے۔ سامراجی طاقتیں ترقی کے لیے نہیں بلکہ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے بلوچستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ اس کے بعد پی ایس ایف آزاد کے رہنما محیب اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ بنی نوع انسان کی نجات کا واحد راستہ صرف اور صرف سوشلزم ہے۔ ہمیں گراس روٹ لیول پر کام کرکے عوام کو انقلاب کے لیے جیتنا ہوگا۔ پروفیسر احمد خان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں نے سماج کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے لاتعلق کردیا گیا ہے۔ بائیں بازو اور ترقی پسند قوتوں کی پس قدمی کی وجہ سے ہی آج سماج پر رجعتی قوتیں حاوی ہیں۔ کامریڈ تہذیب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سماج میں خواتین کو بدترین استحصال کا سامنا ہے لیکن تاریخ میں انقلابات میں خواتین نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ انقلاب روس کا آغاز خواتین کے ہڑتال سے ہی ہوا تھا۔
اس دوران ماسٹر ظفر نے ایک مرتبہ پھر ساحرلدھیانوی کی ایک انقلابی نظم ترنم سے گا کر ماحول کو گرما دیا۔ اس کے بعد پیرامیڈیکل سٹاف فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری وحید بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا حکمران طبقات نے پاکستان میں تمام قومیتوں کو جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ اقتصادی راہداری سے بلوچستان میں کوئی خوشحالی نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ سینڈک پروجیکٹ میں چین پچھلے بیس سال سے کام کر رہا ہے لیکن آج تک وہاں ایک ڈسپنسری بھی نہیں بنائی گئی کیونکہ چینی سامراج صرف لوٹ مار کے لیے بلوچستان میں آیا ہے۔ اس کے بعد محسن فگار نے ایک انقلابی نظم پڑھی۔ مرک ایمپلائز یونین کے منظوربلوچ اور نادرا ایمپلائز یونین کے رحیم نے بھی اظہار خیال کیا۔
آخر میں کامریڈ لال خان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سوالات کے جوابات دیئے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے اپنے معاشی زوال کی وجہ سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کا مستقبل مخدوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ریاست ایک رد انقلاب کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ اسے زندہ قوموں کو چیر کر تخلیق کیا گیا۔ ڈیورنڈ لائن اور ریڈ کلف لائن کے ذریعے مصنوعی سرحدیں بنا کر مختلف قوموں کو تقسیم کیا گیا۔ ہم ان مصنوعی سرحدوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ایک فتح مند سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں یہ مصنوعی سرحدیں مٹ جائیں گی اور جنوبی ایشیا کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قومی سوال پر ہمارا مؤقف وہی ہے جو لینن کا تھا۔ ہم ہر قوم کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انقلابی پارٹیاں اعلان کرنے سے نہیں بلکہ انقلابی معروض اور تحریکوں کے دوران ہی قائم ہوتی ہیں، اس سے قبل انقلابی پارٹی کی بنیادیں تعمیر کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے حملوں سے ہم مزید مضبوط ہوئے ہیں اور یہی ہماری طاقت ہے۔ سم اپ کے بعد تمام شرکا نے کھڑے ہوکر مزدوروں کا عالمی گیت گایا اور اسی کے ساتھ اس شاندار ریجنل کانگریس کا اختتام ہوا۔