رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ (RSF)
انقلابی طلبہ محاذ (RSF) اور طبقاتی جدوجہد کے زیر اہتمام موسم گرما کے دو روزہ نیشنل یوتھ مارکسی سکول کا انعقاد 27، 28 اگست 2017ء کو راولاکوٹ کے پرفضا مقام پر کیا گیا۔ تلخ سماجی و معاشی حالات اور سفری مشکلات کے باوجود سکول میں خواتین کی بڑی تعداد سمیت ملک بھر سے 150 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔
سکول مجموعی طور پر تین سیشنز پر مشتمل تھا، جن میں ’عالمی و ملکی تناظر‘، ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ اور ’نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل‘ شامل تھے۔ سکول کا باقاعدہ آغاز 27 اگست کی صبح دس بجے ہوا۔ میزبان ریجن سے کامریڈ راشد شیخ نے تمام کامریڈوں کو خوش آمدید کہا جس کے بعد پہلے سیشن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
پہلے سیشن کو چیئر کامریڈ نادر گوپانگ نے کیا جبکہ ’عالمی و ملکی‘ تناظر پر بحث کا آغاز کامریڈ اویس قرنی نے کیا۔ انہوں نے عالمی معیشت کی عمومی صورتحال، ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد امریکی سامراج کی کیفیت، چین کے معاشی بحران اور سامراجی عزائم، لاطینی امریکہ اور بالخصوص وینزویلا کی صورتحال، برطانیہ اور یورپ میں ابھرنے والی تحریکوں اور سیاسی تبدیلیوں، مشرق وسطیٰ کے انتشار، خلیجی ریاستوں کی آپسی چپقلش، ہندوستان اور افغانستان سمیت جنوب ایشیائی خطے کی صورتحال اور سرمایہ داری کے عمومی معاشی، سیاسی اور سفارتی بحران اور اس کے مضمرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اِسی طرح انہوں نے پاکستان میں حکمرانوں کی آپسی نورا کشتی، ریاست میں مختلف سامراجی طاقتوں کی مداخلت اور دھڑے بندی، معاشی بحران، محنت کش طبقے کی شعوری و سیاسی کیفیت اور تحریک کے تناظر پر بھی تفصیلاً بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اِس سیشن میں مرکزی پنجاب سے عمر رشید، ڈیرہ غازیخان سے رحیم بخش، دادو سے رمیز مصرانی، کشمیر سے ارسلان شانی اور بابر، مرکزی پنجاب سے سیف، شمالی پنجاب سے ظفراللہ اور لاہور سے عمران کامیانہ نے بحث میں بھرپور حصہ لیا اور عالمی و ملکی تناظر کے مختلف نکات پر سیر حاصل بحث کی۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں اویس قرنی نے بحث کو سمیٹتے ہوئے سیشن کو سم اپ کیا۔ سیشن کے اختتام پر کھانے کا وقفہ ہوا جس کے بعد سکول کے دوسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔
دوسرا سیشن انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ سے متعلقہ تھا۔ 1930ء میں روسی زبان میں شائع ہونے والی اِس شہرہ آفاق کتاب، جو مارکسی لٹریچر میں کئی حوالوں سے لاثانی اور انمول درجہ رکھتی ہے، کا پہلی بار اردو میں ترجمہ ’طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز‘ کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اِس سیشن کو چیئر کامریڈ بابر پطرس نے کیا اور بحث کا آغاز کتاب کے مترجم عمران کامیانہ نے کیا۔ انہوں نے کتاب کے تعارف سے شروعات کرتے ہوئے تاریخی، سیاسی، نظریاتی اور ادبی نقطہ نظر سے آج کے عہد میں کتا ب کی اہمیت واضح کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کے تجزئیے کا مارکسی طریقہ کار ہی ہے جس کے تحت یہ کتاب واضح کرتی ہے کہ واقعات اِسی طرح سے کیوں رونما ہوئے اور اِس کے برعکس کیوں رونما نہ ہوئے۔ اِسی وضاحت میں مصنف تاریخی مادیت، غیر ہموار اور مشترک ترقی، انقلابِ مسلسل، تاریخ میں فرد کے کردار، جبر و قدر، موضوعیت اور معروضیت، دوہرے اقتدار، ایک انقلاب میں نمائندگی کے نظام کے تضادات، انقلابی پارٹی کے کردار، پارٹی کے داخلی تضادات، پارٹی اور طبقے کے آپسی تعلق، انقلابی کیفیات میں طبقاتی طاقتوں کے مسلسل بدلتے ہوئے توازن، جنگ کی میکانیات،’سرکشی کے فن‘اور ماضی کے عظیم انقلابات سے انقلابِ روس کے موازنے جیسے موضوعات پر روشنی ڈالتا چلا جاتا ہے۔ یوں یہ کتاب محض تاریخ کا بیان نہیں ہے بلکہ وہ نظریاتی اوزار فراہم کرتی ہے جن کے ذریعے تاریخ کی گہرائی میں جا کر اُسے سمجھا جا سکتا ہے اور اِس پرکھ کی بنیاد پر مستقبل کو انقلابی بنیادوں پر ڈھالنے کی جدوجہد کی جا سکتی ہے ۔ عمران کامیانہ نے کتاب کے اہم ابواب اور موضوعات کا خلاصہ مختصراً بیان کیا اور کتاب سے کچھ خوبصورت اقتباسات پڑھ کر سنائے جنہیں سامعین نے خوب سراہا۔ اِس سیشن میں شمالی پنجاب سے ظفر اللہ اور آصف رشید (جنہوں نے کتاب کی پروف ریڈنگ بھی کی)، ریحانہ اختر اور مظفر آباد سے کامریڈ راشد شیخ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کتاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کتاب کے انفرادی و اجتماعی مطالعے کو انقلابی تنظیم کی کیڈر بلڈنگ کے لئے ناگزیر قرار دیا۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں عمران کامیانہ نے سیشن کو سم اپ کیا۔
سکول کے تیسرے سیشن کا آغاز 28 اگست کی صبح 9:30 بجے ہوا۔ اِس سیشن کو کامریڈ ابرار لطیف نے چیئر کیا جبکہ کامریڈ سنگین باچا نے ’نوجوانوں میں کام کا طریقہ کار اور لائحہ عمل‘ پر بحث کا آغاز کیا۔
سنگین باچا نے ملک میں طلبہ سیاست کی تاریخ، موجودہ کیفیت، روایتی تنظیموں کے کردار، نوجوانوں کے ایشوز، انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے اغراض و مقاصدتفصیل سے بیان کئے اور نوجوانوں میں کام کی انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عمل میں ناگزیریت اور اہمیت واضح کی۔ لیڈ آف کے بعد اوپن ڈسکشن میں عمر رشید، ندیم پاشا اور عبدالواحد نے حصہ لیا اور کام کے حوالے سے اپنی تجاویز اور آرا پیش کیں۔ اِس کے بعد ملک بھر میں کام کی صورتحال اور اہداف کے حوالے سے رپورٹیں پیش کی گئیں۔ سکول کی فنانس رپورٹ کامریڈ آصف رشید نے پیش کی جبکہ اختتامی کلمات اویس قرنی نے ادا کئے۔ سکول کا باقاعدہ اختتام تمام حاضرین نے انٹرنیشنل گا کر کیا جس کے بعد پورے ہال میں فلک شگاف انقلابی نعرے گونجنے لگے۔
سکول کے دنوں روز سیشنز کے دوران انقلابی شاعری اور ترانوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سیشنز کے بعد موسیقی کی محفلیں اور سیاسی و نظریاتی مباحث مسلسل جاری رہے۔ انقلابی نوجوانوں کے جذبے، مورال، ڈسپلن، انتظامات، سیشنز میں ہونے والی بحثوں کے معیار اور مقدار کے لحاظ سے یہ ایک کامیاب تربیتی سکول تھا جو خطے میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل آگے بڑھائے گا۔