اوقا ت کار میں کمی کی جدوجہد اور مزدور تحریک کے فرائض

تحریر: عمر شاہد

کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کو عیاں کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ سرمایہ دار کا حتمی مقصد شرح منافع میں اضافے کا حصول ہے اور اس شرح کا تعین پھر محنت اور سرمائے میں موجود مستقل کشمکش کرتی ہے۔ سرمایہ دارہر وقت اس کوشش میں رہتا ہے کہ اجرتیں گھٹا کر سب سے نیچی جسمانی سطح پر لائی جائیں اور کام کے گھنٹے بڑھا کر سب سے اوپر کی جسمانی سطح تک پہنچائے جائیں۔ جبکہ محنت کرنے والے لگاتار مخالف سمت میں زور ڈالتے رہتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ اور محنت متضاد مفادات کے حامل ہوتے ہیں اور ان دونوں کے مابین کسی قسم کی مصالحت ناممکن ہے۔ مارکس نے ہی واضح کیا کہ سرمایہ ایک مردہ محنت ہے جو ایک ویمپائر کی طرح زندہ محنت کو چوستا رہتا ہے اور وہ جس قدر اس زندہ محنت کو چوسے اسی قدر اس کی زندگی بڑھتی ہے۔ جن اوقات کے دوران محنت کش کام کرتا ہے وہی وقت ہے جس کے دوران وہ اس قوت محن کو خرچ کرتا ہے جو سرمایہ دار نے اس سے خرید ی ہوتی ہے۔ اگر مزدور اپنا وقت اپنے لیے استعمال کر لے تو سرمایہ دار کو لوٹ لیتا ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ سرمایہ دار کے نزدیک مزدور کی حیثیت محض ’بولنے والے اوزار ‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس کا حتمی مقصد صرف سرمایہ دار کے لئے قدر زائد کی پیدائش ہے۔ کارل مارکس نے سرمایہ دار کی نفسیات پر اپنی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپیٹل کے دسویں باب میں لکھا کہ ’’ بطور سرمایہ دار وہ صرف مجسم شدہ سرمایہ ہی ہے۔ اس کی روح سرمائے کی روح ہے۔ لیکن سرمائے کی زندگی کا واحد محرک ہے قدر اور قدرِ زائد پیدا کرنا تاکہ اس کے مستقل عنصر یعنی ذرائع پیداوار کو اس قابل بنایا جا سکے کہ یہ زائد محنت کی زیادہ سے زیادہ ممکن مقدار کو جذب کر سکے۔‘‘ سرمایہ دار کے نزدیک محنت کش کاوہ وقت جو اس کی قدر زائد بڑھانے میں صرف ہو وہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جبکہ جو وقت محنت کش اپنے لئے صرف کرتا ہے وہ اس کے نزدیک نقصان شمار ہوتا ہے۔ ایک طے شدہ اوقات کار کے دن کا محض ایک حصہ ہی محنت کش کی اجرت کے بدلے ہوتا ہے جبکہ زیادہ وقت سرمایہ دار اس سے مفت میں کام لے رہا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار کی ہر وقت یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ محنت کش کے اوقات کار کو زیادہ سے زیادہ طویل کر کے اس کی محنت کابدترین استحصال کر کے اپنی قدر زائد کو بڑھا سکے۔ سرمایہ داراوں کو اس بات کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ محنت کش ہی وہ ’بولنے والا اوزار ‘ہے جو بے جان سرمائے میں جان ڈالتا ہے لہٰذا جس وقت میں محنت کش اس کے لئے کام نہیں کر رہا ہوتا تو اس کا مستقل سرمایہ (مشینری، زمین ، عمارت وغیرہ) بھی ضائع ہو رہا ہوتا ہے۔سرمایہ دار کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اوقات کار لامتناہی ہوں اور اس دوران یہ اپنے منافعوں میں تیز تر اضافہ کر سکے۔ چونکہ مزدور ایک ایسا بولنے والا اوزار ہے جس کی جسمانی حدود کی وجہ سے دن رات اس کی قوت محنت کااستحصال ممکن نہیں ہے چنانچہ ضروری ہے کہ دن اور رات کے کام کی وجہ سے تھکنے والے مزدوروں کی باہم ادلی بدلی کی جاتی رہے۔
اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ 132 سال پہلے شکاگو کے محنت کشوں کی جانب سے اوقات کار میں کمی کی جدوجہد آج کے عہد میں بھی ناگزیر بن چکی ہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے اعدادو شمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ دوسر ی عالمی جنگ کے بعد سے اب تک ٹیکنالوجی میں ترقی کے باوجود اوقات کار کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ مارکس نے ہی واضح کیا تھا کہ سرمایہ داری میں نئی ٹیکنالوجی محنت کشوں کو راحت فراہم کرنے کی بجائے ان کی زندگیوں میں مزید بربادی لانے کا موجب بنتی ہے۔ مثال کے طور پر ’OECD‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اوسط ہفتہ وار کام کے اوقات کار 1970ء کی نسبت اب دوگنے ہو چکے ہیں۔
ان ممالک میں زیرو گھنٹہ کنٹریکٹ سسٹم ، جس کے تحت کسی بھی ورکر کو کسی بھی وقت کام پر طلب کیا جا سکتا ہے، شفٹ سسٹم، یعنی مختلف شفٹوں پر کام ، لچکدا ر اوقات کار، آن لائن جابز اور دیگر کئی حربوں سے محنت کشوں سے قدر زائد نچوڑی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے تحت نئی ٹیکنالوجی نے انسان کو 24 گھنٹے کا غلام بنا دیا ہے جس میں اس کے اوقات کار کی کوئی حد مقرر نہیں رہی۔
سرمایہ داری کے بحران کے باعث دنیا بھر میں محنت کشوں پر سنگین حملے کئے جارہے ہیں ۔ ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی مراعات کو چھینا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ضروریات زندگی کے بلند اخراجات اور کم اجرتوں کے باعث محنت کش ایک سے زائد نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ اوور ٹائم کے نام پر محنت کشوں کے خون کے آخری قطرے کو بھی نچوڑا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے جہاں محنت کشوں کی زندگیوں سے کھلواڑ جاری ہے وہی پر محض زندہ رہنے کے لئے بھی یہ اپنی زندگیاں قربان کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکن سائیکالوجسٹس ایسوسی ایشن کے سروے کے مطابق 65 فیصد امریکیوں نے ملازمت سے متعلق مسائل کوذہنی سٹریس کی اہم وجہ قرار دیا۔ جاپان میں ہر سال کام کے دباؤ اور زائد اوقات کار کی وجہ سے 2000 خودکشیوں کے کیس سامنے آتے ہیں۔ جبکہ درجنوں ہلاکتیں ہارٹ اٹیک، سٹروک اور دفتروں میں بہت زیادہ وقت دینے کی وجہ سے لاحق دیگر بیماریوں سے ہوتی ہیں۔ریسرچ کے مطابق جاپان، جو تکنیکی لحاظ سے انتہائی ترقی یافتہ ملک ہے، کے نوجوان امریکہ اور یورپ کے نوجوانوں کی نسبت لمبے اوقات کار کے لئے کام کرتے ہیں ۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں یہ صورتحال بدتر ہے۔ پاکستان کے اپنے قوانین کے مطابق ڈیلی اوقات کار 9گھنٹے ہیں جس میں ایک گھنٹہ ریسٹ دیا جانا چاہئے۔ تاہم یہاں صورتحال ابتر ہے۔ یہاں محنت کش سے ایک اوسط دن میں 12 سے 14 گھنٹے کام لیا جانا معمول بن چکا ہے۔ یونینز کی کمزور صورتحا ل کے باعث محنت کش زندہ رہنے کے لئے شدید استحصال کا شکار ہیں۔ بیروزگاری اور کم اجرت کے عذابوں نے زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ماضی میں محنت کشوں کی جدوجہد کے نتیجے میں طے شدہ اوقات کار اور چھٹیوں کی مراعا ت حاصل کی گئیں تھیں جن کو بڑی بے دردی سے یہ سرمایہ دار چھین رہے ہیں۔ کارل مارکس نے بہت پہلے واضح کیا تھا کہ جب قوت محنت بیچی یا خریدی جائے تو سماج میں تیزی سے ’آزاد وقت‘ اور ’کام کے وقت‘ کی واضح اور متضاد تقسیم سامنے آتی ہے۔ جس میں محنت کش کی نظر میں زیادہ اہمیت اسکے آزاد وقت کی ہوتی ہے جبکہ فیکٹری، کارخانے میں کام کے دوران گزارا گیا وقت غیراہم اور ضائع تصور ہو تا ہے۔ اسی وجہ سے محنت کشوں کو کام سے چھٹی کا دن زیادہ خوش رکھتا ہے۔ اسی طرح قوت محنت کی خریدو فروخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیداوار پر محنت کش کا حق نہ ہونے کی وجہ سے سماج میں بیگانگی پھیلتی ہے جس کی وجہ سے تفریح اور کام سے فراغت کے مواقع زیادہ اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ تفریح اور آزادی کے یہ مواقع بھی عمومی رائے عامہ کے برعکس حقیقی طور پرآزاد نہیں ہوتے۔ تفریح کے مواقع محنت کش کو وقتی طور پر کام سے آزادی دے کر زیادہ کام کے لئے تیار کرتے ہیں۔یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مشین کی گھسائی اور مرمت کے لئے اسے کچھ عرصہ کے لئے ’آرام ‘ فراہم کرنے کے لئے بے جان کر دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مقابلے اور معیار زندگی بہتر کرنے کے سخت پریشر نے اب محنت کشوں کو اس راہ پر لا کھڑا کیا ہے جہا ں وہ اپنی محنت ، اپنے ساتھی محنت کشوں اور سماج سے زیادہ سے زیادہ بیگانہ ہو رہے ہیں۔ تنہائی اور پریشانی جنم لے رہی ہے۔ اب زندگیاں محض مشینوں کے پرزے بنتی جا رہی ہیں جن کا فقط ایک کام سرمایہ داروں کے مستقل سرمائے میں جان ڈالنا رہ چکا ہے۔ مارکس نے لکھاکہ’’ قدرِ زائد کے لیے اپنی انسان نما بھیڑیے جیسی بھوک میں سرمایہ نہ صرف اخلاقی حدود پھاند جاتا ہے بلکہ دیہاڑی کی زیادہ سے زیادہ طبعی حدود کو بھی… یہ انسانی جسم کی بحالی اور تازگی کے لیے ضروری نیند میں بھی کمی کر کے اس کو چند گھنٹوں کی غنودگی میں بدل دیتا ہے۔اور یہ غنودگی ایک مکمل طور پر تھکے ہوئے جسم میں دوبارہ تروتازگی کے لئے طاری ہونا لازمی ہے۔‘‘
اس صورتحال میں مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کا کردار نہایت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ ٹریڈ یونینز بنیادی طور پر محنت کشو ں کی لازوال جدوجہد کا نتیجہ ہیں جن کا ظہور سرمایہ داری کے ابھار اور ترقی کے عہد میں ہوا۔ ان کے فرائض میں محنت کشوں کا مادی اور ثقافتی معیاربڑھانے کے ساتھ ان کے معاشی حقوق کی نگہداشت کرنا تھا۔ غیر انقلابی ادوار میں ان پر زیادہ تر مصالحت پسند، اصلاح پسند اور موقع پرست قیادتیں براجمان رہتی ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بحران نے اصلاح پسندی کی گنجائش کو بھی انتہائی کم کر دیا ہے۔ فی الوقت سرمایہ داری صرف اور صرف محنت کشوں کا معیارِ زندگی گرا کر ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے۔ ٹراٹسکی نے یونینز کی اس کیفیت پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’ٹریڈ یونینز اپنے آپ کو یا تو انقلابی تنظیموں کے طور قائم رکھ سکتی ہیں یا پھر سرمائے کے غلاموں کے طور پر۔ٹریڈ یونین بیوروکریسی نے قابل اطمینان طور سے دوسرا راستہ چنا۔ جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی تمام تر اتھارٹی سوشلسٹ انقلاب کی مخالفت کرنے میں لگ گئی، حتیٰ کہ محنت کشوں کی سرمائے یا رجعت کے خلاف کسی بھی کوشش کے خلاف برسر پیکار ہو گئی۔ ‘‘ لیکن محنت کشوں کے اندر موجود اضطراب اور سرمایہ داروں کے پے در پے حملوں کے پیش نظر یونین قیادتوں کو لازمی طور پر محنت کشو ں کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرنا ہونگے اور انہیں حملوں کے خلاف دفاع کے لئے میدان عمل میں اتارنا ہو گا۔ یہ عمل اتنا سیدھا بھی نہیں ہو گا بلکہ تاریخ کے تھپیڑے ان کو لازمی طور پر اس طرف دھکیلے گے۔ اس صورتحال میں وہی قیادت رہے گی جو کہ محنت کش طبقے کے وسیع تر مفاد میں درست حکمت عملی مرتب کر سکے۔ انقلابیوں کو مہم جوئی یا بے صبرا پن دکھانے کی بجائے عمل اور استقامت سے صورتحال کو بیان کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا ۔ محنت کشوں کی معاشی مطالبات کی لڑائی ایک سیاسی لڑائی ہے جو محنت کشوں کو لڑنا ہو گی۔ دو متضاد طبقات کے مابین کبھی بھی مصالحت نہیں ہو سکتی اس لئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ جدوجہد ہے۔ سرمایہ دار مزید حملے کریں گے۔ اس لئے محنت کشوں کو بھی متحد ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اینگلز کے الفاظ میں ’’سیاسی معاشیات جس انصاف سے ایسے قوانین ترتیب دیتی ہے جو موجودہ معاشرے پر حکمرانی کرتے ہیں وہ انصاف صرف ایک فریق کے لئے ہے… سرمائے کے لئے۔ اس لئے ہمارا یہ نعرہ ہونا چاہئے: کام کے ذرائع، خام مال، فیکٹریوں، مشینوں پر خود محنت کشوں کی ملکیت!‘‘