دکھوں کے پہروں میں خوشی کے لمحے

اداریہ جدوجہد:-

سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور تہذیبی تہواروں میں خوشیوں کے دن بھی ہوتے ہیں اور برسیاں بھی منائی جاتی ہیں۔ کبھی خوشی کبھی غم کو انسانی زندگی کا معمول اور مقصد قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن سب کو انتظار خوشیوں کے تہواروں کا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے جیسے طبقاتی سماجوں میں چونکہ بھاری اکثریت محرومی اور ذلت کا شکار ہو کر زندگی کے عذابوں میں مبتلا ہوتی ہے اس لیے اگر ایک چھوٹے سے اقلیتی طبقے کے محلوں اور علاقوں میں ہر وقت جشن کا سماں جاری رکھوایا جا رہا ہو تو وہ ایک استحصال زدہ سماج میں ہمیشہ مصنوعی، محدود اور محروموں کے خوف سے خفیہ اور پوشیدہ رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں سب سے زیادہ انتظار’عید‘ کا ہوتا ہے۔ غیر مساوی سماجوں میں یہ نفسیات بھی پائی جاتی ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف دے کر، بھرپور مشقت سے نڈھال کر کے پھر ایک دن خوب جشن منانے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ ملاں حضرات خطبات میں کچھ بھی فرماتے رہیں لیکن اگر ایسا ہوتا تو امرا اور بالادست حکمرانوں کے محلات میں ہر روز جشن تو منائے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے جشنوں کی روشنیاں تیز ہوتی ہیں لیکن ان کے اندر کے اندھیرے رشتوں کی منافقت اور تعلقات کی مفاد پرستی ان کے ہر جذبے اور ہر احساس کو اتنا مصنوعی اور ظاہری کر دیتی ہے کہ نہ ان میں کوئی گرمائش ہوتی ہے نہ کوئی کشش۔ لیکن عام وقتوں میں ’’عیدوں‘‘ میں محنت کش طبقات اور محروم آبادی کے بچے بوڑھے خواتین اور مردوں میں خوشی بڑی ہی گہری اور تڑپ تڑپ کے حاصل کی گئی کسی نادر شے کی طرح ہوتی ہے۔ خیراتوں اور فطرانوں کا زور ہوتا ہے۔ مخیر حضرات پتہ نہیں اپنی روحوں کے کون کون سے کفاروں کی ادائیگی میں لاحاصل تسکین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اور وہ ہاتھ جو اس خیرات کو پانے کے لیے پھیلتے ہیں ان کی خوشی کسی ’’غیرت‘‘، ’’ضمیر‘‘ یا ’’خودداری‘‘ سے محروم بن کر رہ جاتی ہے۔ لیکن دولت والوں کی بے مہر روحوں کو اتنی تسکین کی شاید ضرورت نہیں ہوتی بلکہ یہ خیرات کی نمائش ان کے کاروبار کو تیز کرنے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ لیکن ان عیدوں کے بعد تو غریبوں کا پھر سے رمضان شروع ہونا ہوتا ہے کیونکہ قلت اور بچت کرتے کرتے اپنے آپ کو صرف غذا ہی نہیں ہر دوسری ضرورت سے محروم رکھنا ان کا نصیب اس نظام نے بنا دیا ہے۔ جہاں پورے ملک میں عید ہوتی ہے وہاں ہر خاندان اور ہر فرد اپنی حیثیت کے مطابق عید پراخراجات کرتا ہے۔ یہ اجتماعیت کم اور انفرادیت تو بہت زیادہ اختیار کر جاتی ہے۔ لیکن جو بڑھ چڑھ کر خرچ کر کے عید کی خوشیوں میں بہتات تلاش کرتے ہیں وہ سارا سال پھر خوار بھی رہتے ہیں۔ لیکن عوام کے لیے اس نظام کی تاریک رات میں یہ چند لمحے گزر جاتے ہیں، پہر ہیں کہ کٹتے ہی نہیں۔ عیدوں سے نہ کبھی مسکینوں اور غریبوں کی زندگیاں بدلی ہیں اور نہ کبھی خوشیاں معاشرے میں دکھوں کا خاتمہ کر سکی ہیں۔ عید پر غریبوں کو خوشیوں کا ایک نوالہ کھلا کر یہ مخیر حضرات پھر ان کی بھوک بڑھا دیتے ہیں۔ جن خوشیوں کی تلاش میں پھر پورا سال ان کی محنت کا ہولناک استحصال ہوتا ہے۔ میڈیا عید کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے ہر گھر میں خوشی کی ریل پیل ہو۔ غذا کی بھرمار ہو اور سب نئے کپڑوں اور تحفوں سے مالا مال ہوں۔ لیکن محروم آبادی کے گھروندوں کو یہ خوشیاں مہنگی پڑتی ہیں کیونکہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے یہ اپنی محنت کا مزید استحصال کروانے پر مجبور رہتے ہیں۔ خوشیا ں اس وقت اپنا کردار ہی بدل لیتی ہیں جب سماج میں محرومی اور غریبی کے دکھوں کا خاتمہ ہو جائے۔ ایک استحصالی گلے ہوئے سماج میں یہ جشن یہ خوشیوں کے تہوارعمومی نفسیات پر ایسے گھاؤ لگا جاتے ہیں جو ہر لمحے ان کو ان کی محرومی اور محتاجی کا احساس دلاتے ہیں۔ لیکن پھر یہ احساسِ محرومی انسان کب تک برداشت کرے گا۔ یہ غربت کی تضحیک، یہ محرومی کی ذلت اور محنت کی تذلیل جب ایک بغاوت کا قہر بن کر انفرادی رگوں اور شریانوں میں دوڑنے والے لہوکو معاشرے کی رگوں اور شریانوں میں شورش کروائے گا تو پھر خیرات پانے والاہاتھ مخیر ہاتھوں کو صرف جھٹکے گا نہیں بلکہ ان ہاتھوں سے محنت کشوں کی نسلوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا انتقام بھی لے گا۔ یہ عید انقلاب ہو گی، سوشلزم کا جشن ہو گا جو معاشرے کو فلاح، بہتات اور فراوانی کے ذریعے خوشیوں اور خوشحالی کا گہوار ہ بنا دے گا۔ عارضی اور مصنوعی خوشیاں پانے کے لیے اپنے آپ کو اذیتوں میں مبتلا کر کے کسی تہوار کا انتظار کرنے کی ضرورت کا ہی خاتمہ ہو جائے گا۔