احتجاج کی قوت

تحریر: لال خان

کراچی میں اساتذہ کے احتجاجوں پر آنسو گیس کی بوچھاڑ اور لاٹھی چارج ہو، لاہور میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا احتجاجی دھرنا مختلف ہتھکنڈوں سے منتشر کرنے کی وارداتیں ہوں، پشتونخواہ میں پیرامیڈیکل سٹاف، نرسز اور دوسرے شعبوں کے محنت کشوں کے مظاہروں پر سرکاری تشدد ہو یا پھر بلوچستان میں واپڈا اور پوسٹل ورکرز کی جدوجہد کو حکومتی جبر کا سامنا ہو… حقیقت یہ ہے کہ گالی گلوچ کی نورا کشتی کرنے والی مختلف ناموں والی پارٹیاں جہاں بھی برسراقتدار ہیں ان میں ایک بنیاد ی قدر مشترک ہے: یہ اپنے حقوق مانگنے والے محنت کشوں پر تشدد اور جبر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ آج احتجاج ہر طرف جاری ہیں، لیکن بکھرے ہوئے ہیں۔ حکمران طبقات نے محنت کش طبقے کو نسل، مذہب، قومیت اور فرقے کے تعصبات میں الجھا کر ان کی یکجہتی کو توڑنے کا سلسلہ ہر دور میں جاری رکھا ہے۔ لیکن پاکستان کی اپنی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے وقت کئی مرتبہ آئے ہیں جب محنت کشوں نے ان تعصبات کو جھٹک کر وہ طبقاتی جڑت پیدا کی جس کو سرمائے کی یہ حاکمیت کچلنے کے قابل نہیں تھی۔ وہ اپنی قیادت کی غداریوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے۔ لیکن تمام تر جبر اور اس پرفریب سیاست کے فروعی ایشوز کو سلگتے ہوئے عوامی مسائل پر مسلط کرکے تحریکوں کو زائل کرنے کے طریقہ واردات کے باوجود محنت کشوں کے احتجاج جاری رہے ہیں۔ طبقاتی کشمکش ہر صوبے او ر خطے میں سلگ بھی رہی ہے اور کبھی بھڑک کر ابھرتی بھی ہے۔ لیکن ابھی وہ آگ نہیں بنی جو اس پورے استحصالی نظام کو راکھ کر دے۔ تاہم طبقات کے ناقابل مصالحت تضاد کے وجود کی غمازی ضرو ر کر رہی ہے۔
لیکن حالیہ عرصے میں ان سب احتجاجوں میں جو ایک منفرد اور حیران کن احتجاج ابھرا ہے وہ سارے زمانے کے سامنے پشتون تحفظ تحریک (PTM) کی صورت میں مسلسل چل رہا ہے۔ فاٹا کے نوجوانوں نے جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے پورے ملک اور خطے کے نوجوانوں اور مظلوم انسانوں میں ایک حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ نامساعد ترین حالات میں بھی ’انکار کا فرماں‘ اتر سکتا ہے، ذلت اور جبر کو پسماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان نہایت ہی مہذب، پرامن لیکن آہنی جذبوں کیساتھ ابھر کر چیلنج کر سکتے ہیں۔ عبدالحئی کاکڑ کے مضمون کے مطابق اس پشتون تحفظ تحریک، جس کے روح رواں علی وزیر ہیں، نے 26 مارچ کو عارف خان وزیر اور تین دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔ اس روز بیشتر تجزیہ نگاروں کے تناظر کے برعکس 40 سے زائد شہروں میں ان کارکنان کی رہائی کے لئے مظاہرے ہوئے۔ اگرچہ یہ بہت بڑے مظاہرے نہیں تھے لیکن پشاور سے لیکر کراچی تک عام لوگوں کا باہر نکلنا موجودہ دور میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ اتنا وسیع احتجاج اس لئے ممکن ہو سکا کہ اس پکار میں ایک سچائی بھی ہے اور پیغام پہنچانے والے ملک کے ہر بڑے شہر میں موجود ہیں۔
انگریز کے زمانے سے ان قبائلی علاقوں کو جس طرح پسماندہ رکھا گیا اس کی ایک وجہ یہاں کے باسیوں کی برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت اور بغاوت تھی، جس نے برطانوی راج کی دیوہیکل طاقت کو بھی پسپائی پرمجبور کیا۔ اس پسماندگی کی وجہ سے ان علاقوں خصوصاً جنوبی وزیر ستان کے بہت سے نوجوان کراچی اور دوسرے شہروں کی طرف روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔ کراچی اور لاہور جیسے شہروں میں آج پشتونوں کی بڑی آبادیاں ہیں۔ اسی طرح قبائلی علاقہ جات کے بہت سے نوجوان تعلیم کی غرض پورے ملک میں پھیل گئے۔ یوں پسماندگی سے نجات کے لئے بڑے شہروں میں منتقل ہونے سے جہاں ان آبادیوں میں ان کا ایک سیاسی کردار ابھر ا وہاں مقامی لوگوں سے محنت اور محرومی کا رشتہ بھی استوار ہوا۔ انہیں قومی محرومی کے ساتھ ساتھ اس محرومی کی بنیاد یعنی طبقاتی استحصال کے نظام کاادراک بھی حاصل ہوا۔
حالیہ احتجاجی تحریک کی مزید اہمیت اس حوالے سے بنتی ہے کہ اس میں پشتونوں کے علاوہ دوسری قومیتوں کے عام لوگ بالخصوص نوجوان بھی شریک ہوئے ہیں۔ اس سے جو طبقاتی جڑت پیدا ہو گی وہ اِس نظام اور اس کے رکھوالوں پر زیادہ کاری ضرب لگا سکتی ہے۔ طبقاتی یکجہتی کی تعبیر اور تعمیر چونکہ عملی جدوجہد میں ہوتی ہے اس لئے اس تحریک کے ملک گیر ہوجانے سے ان میں غربت اور امارت، محنت اور سرمائے کی بنیادی جنگ میں مل کر آگے بڑھنے اور قومی، صنفی و طبقاتی جبرو استحصال کرنے والے نظام کے خاتمے کے لئے انقلابی قوت کی ضرورت کا ادراک بھی پیدا ہوگا۔ ظاہری طور پر یہ تحریک پشتون قومی پرستی کی چھاپ کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جس طرح اس تحریک نے نہ صرف روایتی اور تنگ نظر قوم پرست قیادتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اسی طرح مذہبی پارٹیوں کے ملاں بھی ششدر ہو کر رہ گئے ہیں کہ یہ ان کے کنٹرول سے آگے کیسے نکل گئی ہے۔ اس تحریک کی مانگیں بنیادی انسانی حقوق پر مبنی ہے جن سے کوئی بھی ذی شعور انسان اتفاق کیے بغیر رہ نہیں سکتا۔ لیکن ایسے صوبے یا علاقے جہاں لوگ اس پیمانے پر جبر اور بربادی کا شکار نہیں ہیں ان کا بھی معاشی قتل عام یہی نظامِ سرمایہ کر رہا ہے جس کے تسلط کو جاری رکھنے کے لئے سامراجی، مقامی اور علاقائی حکمران طبقات نے یہ جبرو تشدد جاری رکھا ہوا ہے۔ اس نظام کے تحت ہر خطے میں بنیادی مسائل ایک ہیں۔ محرومی کی شکلیں مختلف ضرور ہو سکتی ہیں لیکن یہ موجود ہر جگہ ہے۔ موجودہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں تھی اسلام آباد دھرنا ختم کروانے کے لئے مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ریاستی جبر اور تضحیک کے خاتمے اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی مانگیں بھلا کیسے مانی جاتیں؟ یہ حاکمیت جانتی ہے کہ پہلی مانگوں کے مانے جانے سے مزید مطالبات کے لئے حوصلہ اور ہمت بڑھتی ہیں۔ اگر یہ نظام جبر، محرومی اور ناانصافی ختم کر دے تو چلے گا کیسے؟ حکمران طبقہ اگر استحصال نہیں کرے گا، اس کے ادارے جبر نہیں کریں گے تو پھر مال کیسے بنے گا؟ جہاں تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام ایک ہو، سبھی اس نظام کے مختلف دھڑوں کے نمائندے ہوں تو ایسی سیاست عوام کے لئے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ آج یہاں سب سے بڑی اور مقبول پارٹی ’سیاسی خلا‘ کی پارٹی ہے جسے ووٹ نہ دینے والے 60 فیصد سے زائد لوگوں کا ووٹ ملتا ہے۔ لیکن یہ سیاسی خلا زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا۔ فطرت کا یہ قانون ہے کہ وہ ’ویکیوم‘ کو برداشت نہیں کرتی۔ 26 مارچ کے احتجاجی مظاہرے سینکڑوں یا شاید ہزاروں افراد پر مشتمل تھے۔ لیکن اس تحریک کے جو اثرات عوام کے شعور پر مرتب ہو رہے ہیں وہ اس سے کہیں بڑی تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ یہ محکوم اور مظلوم خلق جان رہی ہے کہ ’جینا ہے تو لڑنا ہوگا۔ ‘ یہ لڑائی بندوق کی طاقت سے جیتی نہیں جا سکتی۔ یہ اس سے کہیں بڑی اور عظیم جنگ ہے۔ اس طبقاتی جنگ میں فتح مند ہونے کے لئے محنت کی دیوہیکل سماجی، سیاسی اور معاشی قوت درکار ہوتی ہے جس کا حامل صرف محنت کش طبقہ ہی ہو سکتا ہے۔ محنت کرنے والوں میں جب اپنی طاقت کا احساس بیدار ہوگیا تو پھر انہی کی پارٹی اس ’خلا‘ کو پُر کرے گی۔ لیکن جب یہ خلا پُر ہوا تو پھر یہاں پیسے اور ضمیر فروشی کی بیہودہ سیاست نہیں بلکہ انقلاب ہو گا!