تحریر: لال خان
سو سال قبل 1917ء میں روس کی زار شاہی تقریباً پانچ سو سال پرانی ہوچکی تھی۔ آخری زار نکولس دوم مسند اقتدار پر براجمان تھا۔ لیکن اصل طاقت اس کی جرمن نژاد ملکہ (زارینہ) الیگزینڈرا فیوڈوروونا کے پاس تھی۔ زار اپنے تمام کلیدی فیصلے اور دن بھر کے کام اپنی ملکہ کے احکامات کے مطابق کرتا تھا۔ لیکن ملکہ کی اپنی ڈوریاں ایک مذہبی پیشوا اور پیر ’گریگوری راسپیوٹن‘ کے ہاتھوں میں تھیں۔
راسپیوٹن کا تعلق روس کے دور دراز اور پسماندہ خطے سائبیریا سے تھا۔ وہ ایک پیشہ ور چور تھا جس کے سر پر جوتے پڑنے سے گنج کا نشان بن گیا تھا۔ پھر 1897ء میں ایک مذہبی درسگاہ میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وہ روحانی پیشوا اور سادھو بن گیا۔ 1905ء میں وہ روس کے درالحکومت سینٹ پیٹرز برگ آیا اور نوسربازی میں مہارت کے باعث طبقہ امرا کی خواتین میں دم درود اور روحانی علاج کرنے والے معالج اور جوتشی کے طور پر بہت مقبول ہو گیا۔ اسی دوران اس کی رسائی زارینہ تک ہوگئی۔
’’گھریلو پریشانیوں‘‘ اور روحانی مسائل کے حل کیلئے راسپوٹن کا ’’علاج‘‘ ملکہ کوبہت کارگر محسوس ہونے لگا۔ یوں وہ راسپیوٹن کی جادووئی صلاحیتوں اور جنسی جلال کی اسیر ہوگئی۔ وقت کے ساتھ راسپیوٹن کا اثرورسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ ریاستی امور کا مختارِ کُل بن گیا۔ سپہ سالاروں کی تعیناتی سے لے کر کابینہ میں رودوبدل اور خارجہ امور سے لے کر ریاستی ٹھیکے دینے جیسے اہم معاملات کے فیصلے راسپیوٹن ہی کرتا تھا۔ ایک دیہات سے اٹھ کر محلات کی بلندیوں تک پہنچ جانے والی زارینہ پر بھی مطلق العنانیت کا بھوت سوار تھا۔ مذہبی قدامت میں اسے وہ تصوف اور طلسم ملا جو اس کی کھلنے والی قسمت سے مطابقت رکھتا تھا۔ مزید برآں زار شاہی اس وقت جس زوال کا شکار ہو چکی تھی اس کے پیش نظر شاہی خاندان کو ایک مذہبی آسرے اور سہارے کی ضرورت بھی تھی۔ کرخت، ڈھیٹ اور سفاک زارینہ کمزور قوت ارادی کے مالک زار کی جگہ لیتی گئی۔ انقلاب کے زلزلے سے کچھ ماہ پہلے 13 ستمبر 1916ء کو اُس نے زار کو لکھا، ’’ہر چیز بہتر اور خاموش ہو رہی ہے… لیکن لوگ تمہاری آشیر باد حاصل کرنا چاہتے ہیں… روس کو چابک کی ضرب سے بڑی محبت ہے۔ یہی ان کی فطرت ہے!‘‘ عوام کی طرف زارینہ کی حقارت کا یہ عالم تھا۔ اسی خط میں وہ راسپیوٹن کے بارے میں لکھتی ہے، ’’’ہمارے دوست‘ (راسپوٹن) کی مدد اور دعائیں درکار ہیں، پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اگر ’وہ‘ نہ ہوتا تو سب کچھ پہلے ہی ختم ہوگیا ہوتا۔ اس بات پر میں پوری طرح سے قائل ہوں۔‘‘ چند ہی ماہ بعد فروری 1917ء کے انقلاب نے زار شاہی کو اکھاڑ پھینکا۔ زوال میں کمال ایسی ’’روحانیت‘‘ ہی کر سکتی ہے۔ لیون ٹراٹسکی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’انقلاب روس کی تاریخ‘ میں لکھتا ہے، ’’اگر کوئی راسپوٹن نہ بھی ہوتا تو اسے پیدا کرنا ضروری ہو گیا تھا۔‘‘
آج سو سال بعد اس نظام کے حکمرانوں کو بھی ایسے ’’روحانی علاج‘‘ کی ضرورت رہتی ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی یہ وبا عام ہے۔ یورپ میں اصلاح پسند ’’سوشلسٹ‘‘ پارٹیاں جب تک فلاحی ریاست کو کسی قدر جاری رکھ سکتی تھیں تب تک ان کی قیادتیں کم از کم ایسی توہمات کا شکار نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن ایک زوال پذیر حکمران طبقہ ثقافتی، اخلاقی اور روحانی طور پر دیوالیہ اور کھوکھلا ہو جایا کرتا ہے۔ ’’سیکولر‘‘ بھارت میں بھی اندرا گاندھی جیسی ’’ترقی پسند‘‘ لیڈر ایک گرو کی خدمات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نام ’دھرندرا بھرمچاری‘ تھا۔ وہ دہلی، جموں اور کاٹرا میں آشرم چلاتا تھا اور راسپیوٹن کی طرح اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ سینئر وزرا اور کانگریسی لیڈر اس کے پیچھے پیچھے پھرتے تھے۔
بالخصوص ہمارے جیسے پسماندہ معاشروں میں افراد کا کردار بعض اوقات مبالغہ آرائی کی حد تک بڑھ جاتا ہے۔ عام لوگ استحصال کی زنجیروں سے آزادی اور ذلتوں سے نجات کے لئے ’’نجات دہندہ‘‘ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ لیڈر انکے نجات دہندہ بن سکیں یا نہ بن سکیں لیکن وہ اپنے خوابوں میں ان کو نجات دہندہ ضرور سمجھنے لگتے ہیں۔ بیدار ہو کر روایتی قیادتوں کی اصلیت جان لینے کے بعد یا تو وہ دوبارہ نیند میں غرق ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر بغاوت میں ابھر کر خود اپنا مقدر سنوارنے کی اشتراکی جدوجہد میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ لیکن انقلابی تحریکوں سے عاری عام حالات میں محرومی کی ذلتوں سے تنگ آکر وہ پیروں فقیروں اور مزاروں وغیرہ میں روحانی آسرے ڈھونڈتے ہیں اور کسی معجزے کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔ ایسے میں اِس نظام کے لیڈر بھی جب اپنے اپنے پیروں اور پیشواؤں کی پوجا کرتے پائے جاتے ہیں تو اس سے معاشرے میں پسماندگی اور رجعت بڑھتی ہی ہے۔ لیکن یہ سب ایک ایسے گلے سڑے نظام کی پیداوار ہوتا ہے جس کا مستقبل رجائیت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے۔ اِس سماجی تعفن کا اظہار بعض اوقات انتہائی بھیانک شکلوں میں بھی ہو سکتا ہے جیساکہ قصور میں ایک معصوم بچی کے بہیمانہ قتل کا واقعہ ہے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور ایسے واقعات ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ لیکن پھر جب کوئی نظام اس نہج پر پہنچ جائے تو کوئی ایک المناک واقعہ بھی عوام کی بغاوت کو بھڑکا سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے جب پارٹی کے انقلابی منشور اور محنت کش عوام کے مفادات سے انحراف کا آغاز کیا تو ایسے ہی پیروں اور پیشواؤں کے آسرے لینے شروع کئے۔ بے نظیر کا پیر ’دیوانہ بابا‘ بعض اوقات چھانٹے کا استعمال بھی کرتا تھا۔ اس تک جلد اور آسان پہنچ کے لئے ایک حجرہ بھی بنوایا گیا تھا۔ زرداری کے کالے بکروں کی قربانیوں اور پیر اعجاز کی مریدی سے سب آشنا ہیں۔ بینظیر سے پہلے نواز شریف بھی اسی پیر دیوانہ بابا آف مانسہرہ سے روحانی شفا حاصل کرتا تھا۔ اب عمران خان کی روحانی پیاس جس نہج کو جا پہنچی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اس عمل کا انت کیا ہوتا ہے۔
غریبوں کے پاس تو ایسے آسروں کے سوا کوئی مالی چارہ ہی نہیں ہوتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مالیاتی سیاست کے یہ انداتا آخر ان پیروں پیرنیوں کے اسیر کیوں ہو جاتے ہیں؟ مسئلہ یہ ہے کہ لیکن جس معاشی اور سماجی نظام پر یہ سیاست اور ریاست استوار ہیں وہ خود شدید تنزلی اور بحرانوں کا شکار ہے۔ ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔ ایسے میں حصول اقتدار سے لے کر شہرت اور ’’مقبولیت‘‘ کو برقرار رکھنے کا عمل بہت پیچیدگی اور غیر یقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ عوام کی طاقت سے تو اقتدار تب ملتا ہے جب انتخابات کے پیچھے کسی انقلاب کا دباؤ ہو، جیسا کہ 1970ء کے انتخابات میں تھا۔ عوام کو اپنے ساتھ جوڑنے کے لئے ان کی امنگوں سے مطابقت رکھنے والا پروگرام دینا پڑتا ہے اور اس پر عملدرآمد کا یقین دلانا پڑتا ہے۔ لیکن جس سیاست کی قوت محرکہ ہی عوام نہ ہوں اور جس کے پاس انہیں دینے کے لئے کچھ نہ ہو اس کے لیڈروں سے دم درودوں کے علاوہ کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟
محنت کش طبقات کے ساتھ اتنے دھوکے ہوئے ہیں کہ وہ اس مالیاتی سیاست کی حقیقت کو بھانپ چکے ہیں۔ اسی لئے اس مروجہ سیاست سے بیگانہ ہو گئے ہیں اور اس سیاسی کھلواڑ میں زیادہ تر درمیانہ طبقہ ہی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سیاست کے جلسے جلوس بھی پیسے کے زور پر ہی ہو رہے ہیں۔ چنانچہ اس سیاسی اشرافیہ کی یہ حالت ان کی روح کی غربت، متروک سوچ اور سماج کے تلخ حقائق سے فرار کا اظہار ہے۔ جس نظام کے یہ نمائندے ہیں اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔