انحصار کی سیاست

تحریر: لال خان

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے سینیٹ میں خطاب کی میڈیا اور سینیٹرز کی جانب سے خوب پذیرائی واضح کرتی ہے کہ یہاں طاقت کا اصل سرچشمہ کہاں ہے اور پالیسیاں بنانے اور انہیں لاگو کرنے میں اس جمہوریت کا کیا کردار ہے۔ لیکن ایک دلچسپ تبصرے نے بہت سے تلخ حقائق سے پردہ ضروراٹھایا ہے جن کی وجہ سے یہ ملک آج ایک نہ ختم ہونے والی دہشت گردی اور تنازعات کا شکار ہے۔ پریس رپورٹ کے مطابق جب کچھ سینیٹرز نے سابقہ سالوں کی خراب خارجہ پالیسی اور اس میں فوج کے کردار کے حوالے سے سوالات کیے تو آرمی چیف نے اعتراف کیا کہ ’’ہم سب نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں۔ اب آگے بڑھیں۔‘‘
نصف ملکی تاریخ میں فوجی اشرافیہ نے براہ راست حکومت کی ہے۔ ان آمریتوں کو ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی قانونی جواز فراہم کئے اور حکمرانوں کے گماشتہ دانشوروں اور کارپوریٹ میڈیا نے بھی داد دی۔ ’جمہوری‘ ادوار میں بھی فوج کا اہم پالیسی معاملات اور حکومت پر کنٹرول بعض اوقات بالکل واضح نظر آتا ہے۔ تاہم ان فوجی آمریتوں میں جبر کی شدت مختلف رہی اور مختلف نظریاتی لبادوں کو استعمال کیا جاتا رہا۔ ماضی میں حکمران سیاسی ٹولوں کے درمیان تضادات اور بحرانات کی وجہ سے فوج کو مداخلت کرنا پڑتی تھی۔ آج اس کے امکانات کم ہیں، اگرچہ اس امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جاسکتا۔
مشرف دور کے بعد فوج کا حکمرانی میں کردار زیادہ کھلم کھلا رہا ہے۔ عسکری اداروں کی نجی صنعت، رئیل اسٹیٹ اور معیشت کے دوسرے شعبوں میں بھاری حصہ داری موجود ہے۔ معیشت میں اس بڑھتے ہوئے کردار کی ہی وجہ سے ناگزیر طور پر ملک کی حکمرانی میں ان کا کردار بڑھ گیا ہے۔ تاہم یہ دعویٰ کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ اپنے تئیں ایک طبقہ بن گئی ہے، بنیادی طور پر غلط ہے۔ اگرچہ ریاست اور سیاست میں بحیثیت ثالث ان کا کردار بڑھا ہے لیکن اس سے وہ حکمران طبقہ نہیں بن جاتے اور نہ ہی اس سے طبقے اور ریاست کا وہ بنیادی تعلق تبدیل ہوتا ہے جسے مارکس اور بعد میں لینن نے واضح کیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ فوج کی ساخت سماج کی طبقاتی ساخت کا ہی عکس ہے بلکہ آمریتوں کے دوران بھی حکمران طبقہ وجود رکھتا ہے اور ریاست کو اپنے استحصالی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔یہاں کے سرمایہ دار طبقے کے بدعنوان، تاخیرزدہ اور مالی طور پر نحیف ہونے کی وجہ سے ریاستی اداروں پر اس کا انحصار بڑھا ہے۔ ایک صحت مند سرمایہ دارانہ معیشت کی تعمیر میں ان کی نااہلی کی وجہ سے ہے اور انہیں مجبوراً اپنی سماجی، معاشی اور سیاسی حیثیت کو بدعنوانی سے قائم رکھنے کے لیے ریاست کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ریاستی اداروں کے کچھ افراد یقیناًحکمران طبقے کا حصہ بن سکتے ہیں لیکن یہ ادارے بذات خود حکمران طبقہ نہیں بن سکتے۔
مارکس نے 1852ء میں لکھا تھا، ’’ہمیں صرف اتنا تصور کرنا چاہیے کہ جمہوری نمائندے سب کے سب کاروباری لوگ ہیں یا کارپوریٹ اور چھوٹے دکانداروں کے پرجوش حمایتی ہیں۔ اپنی تعلیم اور انفرادی حیثیت کے اعتبار وہ زمین اور آسمان کی طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جو چیز انہیں پیٹی بورژوازی کا نمائندہ بناتی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ذہنی طور پر وہ ان حدود سے تجاوز نہیں کر سکتے جن سے یہ پیٹی بورژوازی اپنی زندگی میں نکل نہیں سکتی اور نتیجتاً انہیں نظریاتی طور پر انہی مسائل اور حل کی جانب جانا پڑتا ہے جن کی طرف مادی مفادات اور سماجی حیثیت پیٹی بورژوازی کو عملی طور پر دھکیلتی ہے۔ یہ عمومی طور پر ایک طبقے کے سیاسی اور ادبی نمائندوں اور اس طبقے کے درمیان تعلق ہے۔‘‘
سماجی و معاشی بحران میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان کے موجودہ نودولتیے حکمران طبقات کا انحصار ریاست پر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ لیکن اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو اس نظام کو قبول کرتی ہیں، حکمران طبقات کے ان دھڑوں کے دم چھلہ بن جاتی ہیں جو سماج کی دولت اور ریاست کے اثاثوں کی لوٹ مار کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں۔ کسی حقیقی پروگرام یا عوام پر اعتماد کی عدم موجودگی میں نیو لبرل معاشیات اور بھتہ خوری کی یہ سیاست بالآخر ریاست پر ہی منحصر ہوتی ہے۔
1970ء کے تاریخی انتخابات کے بعد سے تمام تر الیکشن محکوم طبقات کے جوش و جذبے، امنگوں یا دباؤ سے عاری رہے ہیں۔اس سے مقتدر حلقوں کے لیے راستہ کھلتا ہے کہ وہ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوں اور جمہوری حکومتوں کو بناتے اور فارغ کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں نے عوام کو ترک کر دیا ہے اور چور راستوں سے حکومت میں آنے کا راستہ چُن لیا ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کے لیے مختلف علاقائی اور عالمی سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑھ کر انہیں ریاست کے مختلف دھڑوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے سامراجیوں کی رقابت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑے کسی حد تک خودمختار بن گئے ہیں اور اپنے معاشی اورا سٹریٹجک مفادات کے مطابق حکومتیں تشکیل دیتے ہیں۔ نیم کینیشین گروتھ ماڈل کے تحت چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اور اسلحے کی فروخت نے پاکستان میں اس نئی طاقت کے اثر و رسوخ کو بڑھایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی احمقانہ پالیسیوں اور بڑی مارکیٹ رکھنے والے ہندوستان کی طرف امریکی سامراج کے جھکاؤ نے عسکری بیوروکریسی کا رجحان چین کی طرف بڑھا دیا ہے۔ معاملہ سی پیک کے بڑے ٹھیکوں کا بھی ہے، جن سے’ سیاسی پارٹیوں‘ کے درمیان تنازعات جنم لے رہے ہیں۔ان پارٹیوں کے فنانسر بڑے سیٹھ ہیں جنہیں ان بڑے ٹھیکوں میں خاصی دلچسپی ہے۔لیکن روڈ انفراسٹرکچر سے لے کر بندرگاہوں اور پاور پلانٹوں کی تعمیر جیسے بڑے ٹھیکے ’ایف ڈبلیو او‘ ہی لے رہا ہے۔ یہ عمل، جس کا آغاز ضیا الحق کے دور میں ہوا تھا، اکثر سویلین فوجی تنازعے پر بھی منتج ہوتا ہے۔ مالی مفادات کی یہ جنگ میڈیا اور سیاست پر عدلیہ، قومی سلامتی، سکیورٹی، آئین، قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کے لبادوں میں چھائی ہوئی ہے۔
’جمہوری اور سیاسی‘ قوتوں کے ’گرینڈ الائنس‘ کی باتیں بھی احمقانہ ہیں۔ اس بدعنوان حکمران طبقے اور اس کے سیاسی نمائندوں کا ریاست پر انحصار اتنا زیادہ ہے کہ جب ایک دھڑا لوٹ مار سے بے دخل ہوتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیتا ہے اور مختلف معاملات میں سول ملٹری تنازعے کو استعمال کرکے مخالف سیاسی دھڑے کی حکومت گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ میڈیا بھی اس دھڑے بندی کا حصہ بنتا ہے اور بزنس ٹائیکون بھی اپنے مفادات کے تحت کروڑوں روپے اس کھیل میں لگاتے ہیں۔ بحران جتنا بڑھتا ہے یہ سیاسی تنازعے بھی شدت پکڑتے ہیں اور عدالتی سرگرمیاں بھی تیز ہوتی ہیں۔
لیکن موجودہ صورت حال میں براہ راست فوجی مداخلت کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ فوج نے مشرف کے جانے کے بعد بھی اہم پالیسیوں اور مالی وا سٹریٹجک شعبوں کا کنٹرول نہیں چھوڑا ہے۔ زرداری حکومت کا رویہ بہت مصالحانہ اور غلامانہ تھا۔ نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔ اُس کا خیال تھا کہ وہ طاقتوں کے اس پرانے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے۔ لیکن جمہوری نظام کی بالادستی کے نعروں کے باوجود اُس کے پاس عوام کی محرومی اور غربت ختم کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس کی ’بغاوت‘ بے جان ہے۔
عوام پارلیمنٹ، آئین اور جمہوری نظام کی بالادستی کے لیے باہر نہیں نکلیں گے، کیونکہ اس نام نہاد جمہوریت نے ان کی زندگیوں کو مزید عذاب میں ہی ڈالا ہے۔ عوامی حمایت کے بغیر کوئی بھی تحریک طاقتوں کا توازن نہیں بدلسکتی۔ عوام جب نکلیں گے تو سرمائے کے سارے نظام اور اس کے سیاسی ڈھانچوں کو ہی اکھاڑ ڈالیں گے۔