تحریر: لال خان
برق رفتاری سے بڑھتی ہوئی ’پشتون تحفظ تحریک‘ (PTM) کی جانب سے 8 اپریل کو پشاور میں منعقد ہونے والا جلسہ حالیہ دور میں نہ صرف پشاور بلکہ پورے پختونخواہ میں سب سے بڑا جلسہ تھا۔ کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے اس جلسے کا بلیک آؤٹ ایک شرمناک عمل تھا۔اس عمل سے میڈیا مالکان اور ملک کی جابر حاکمیت کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش ہوگیا۔نہ صرف مذہبی جماعتوں بلکہ قوم پرست، سیکولر اور لبرل جماعتوں کی قیادتوں نے بھی جلسے کی مخالفت کی اور لوگوں کو اس میں شرکت سے روکا۔ لیکن وہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ تمام تر مین سٹریم پارٹیوں کے سارا دن ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے جلسوں کی نسبت یہ جلسہ زیادہ بڑا تھا۔
اس جلسے میں خواتین کی خاطر خواہ شرکت نے پشتون سماج کے ترقی پسندانہ پہلو کو اجاگر کیا جنہیں اس ملک میں سماجی طور پر سب سے زیادہ قدامت پسند سمجھا جاتا ہے۔ خطے کو تارج کرنے والی اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر بچے اور خواتین ہی ہوئی ہیں۔ رجعت اور طالبان کے ابھار نے ان کی روزمرہ زندگیوں کو مقید اور گھٹن زدہ کردیا تھا۔ آپریشنوں کے دوران گھروں سے بے دخلی اور دربدری نے خواتین اور بالخصوص بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔
اسلام آباد دھرنے کے خاتمے کے بعد جب حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہوئی تو پی ٹی ایم کی قیادت میں ایک نئی تحریک کا ابھار ہوا۔یہ عام پشتون نوجوان تھے جن کا تعلق زیادہ تر فاٹا سے تھا۔یہ دراصل سیاسی و معاشی غلامی کے خلاف ایک سماجی بغاوت ہے۔اب تک اس تحریک نے تمام رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور نسبتاً جمود کے شکار پاکستانی سماج کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان نوجوانوں نے ریاست کو للکار کر پورے خطے میں لاکھوں لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے۔
تاریخ میں ایسے مخصوص لمحات بھی آتے ہیں جب کوئی بھی واقعہ یا حادثہ ایک طاقتور عوامی تحریک کاموجب بن جاتا ہے۔ایک پختون نوجوان’ نقیب اللہ محسود‘ کے کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں قتل نے ایک ایسے ہی عمل انگیز کا کام کیا تھا۔ اس خطے کے عوام بالخصوص پشتونوں کی اس تباہ کاری کا آغاز دہائیوں پہلے اس وقت ہوا جب امریکی سامراج، سعودیوں اور ضیا آمریت نے 1978ء کے افغان ثور انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد کا آغاز کیاتھا۔سامراج کا پروردہ یہی جہادی گروہ 1992ء میں خطے سے امریکی انخلا کے بعد ایک دیوہیکل بلا میں تبدیل ہوگیا جس کے خلاف جارج بش نے نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا آغاز کیا۔ مذہبی بنیادپرستوں کی ہولناک دہشت گردی اور انکے خلاف آپریشنوں نے اس علاقے کو تاراج کردیا۔ان بربادیوں اور تباہ کاریوں کے خلاف ہی پشتون تحریک کا جنم ہوا ہے۔ پی ٹی ایم کی تحریک کو نہ صرف پختونخواہ بلکہ پورے پاکستان میں عوامی حمایت اور ہمدردی ملی ہے۔
ان کے بنیادی مطالبات میں نقیب کے قتل میں ملوث راؤ انوار اور دوسرے پولیس افسران کو سزا دینا، قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ، چیک پوسٹوں پرسکیورٹی فورسز کی جانب سے عوام اور بالخصوص قبائلی خواتین کی تحقیر و تذلیل کا خاتمہ، گمشدہ افراد کی بازیابی، قبائلی علاقوں سے لینڈ مائنز کا خاتمہ اور فوجی آپریشنوں کے ’کولیٹرل‘ نقصانات میں لوگوں کے تباہ ہونے والے گھروں کی دوبارہ تعمیر شامل ہیں۔پی ٹی ایم نے سہل زندگی کے لیے خوراک، صحت، روزگار اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے مطالبات بھی شامل کئے ہیں۔
پشاور جلسے سے پہلے پی ٹی ایم نے کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، بٹ خیلہ، لنڈی کوتل، خیبر ایجنسی اور دیگر علاقوں میں بھی جلسے اور لانگ مارچ کئے۔ تمام تر جلسے اور احتجاج انتہائی منظم اور پرامن رہے۔دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کے جلسوں اور ’دھرنوں‘ کے برعکس پی ٹی ایم کی قیادت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اپنے احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کے دوران کوئی روڈ اور ٹریفک بند نہ ہو، تاکہ عوام کو کوئی تکلیف نہ ہو۔
بیرونی ایجنٹ ہونے اور غداری کے الزامات اور ریاست اور حکمران طبقات کی داشتہ میڈیا اور دانش کی جانب سے بہتان تراشی کی مہم اس بات کا ثبوت ہے کہ ’سٹیٹس کو‘ کی قوتیں اس تحریک سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔فی الحال پی ٹی ایم کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان کی جدوجہد آئینی دائرے کے اندر ہے۔لیکن وہ پختہ ارادوں کے ساتھ غیرمتزلزل ہیں اور جدوجہد میں کسی طرح کی کوئی کمزوری نہیں دکھائی ہے۔
انکے مطالبات کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ اور دھمکیاں دراصل ریاستی پالیسی سازوں کے اس خوف کی غمازی ہے کہ ان علاقوں کا کنٹرول ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔ اس ہچکچاہٹ کی دوسری وجہ یہ خوف ہے کہ اگر ان مطالبات کو تسلیم کیا گیا تو زیادہ وسیع مطالبات سامنے آئیں گے جو پورے نظام کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر حکمران طبقات کے سنجیدہ پالیسی ساز اس تحریک کی کامیابی کے بعد اس کے پورے ملک میں پھیلاؤ سے خوفزدہ ہیں۔
تحریک کو سنجیدہ چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔تحریک کی قیادت کے خلاف سخت اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ حکمرانوں کے لیے ایک خطرناک راستہ ہوگا کیونکہ تحریک کی پختونخواہ میں بنیادوں سے قطع نظر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ لیکن انتہاپسندوں کے ہاتھوں قیادت کو ہٹانے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مقامی یا بیرونی مفادات کے حامل ایجنٹ اس تحریک میں مداخلت کرکے ریاست کو جبر کا جواز فراہم کریں۔لیکن اس طرح کے ہتھکنڈے بیک فائر بھی کر سکتے ہیں اور نہ صرف مقامی ریاست بلکہ سامراجی قوتوں کے مفادات کے لئے بھی سنگین مضمرات کا باعث بن سکتے ہیں۔
لاہور، سوات اور دیگر علاقوں میں طے شدہ عوامی جلسوں کو روکنا یا رکاوٹیں ڈالنا حکمرانوں کے لیے تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔کسی مذاکراتی عمل کے ذریعے معاملہ ختم کرنے کی کوشش کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر چند بڑے مطالبات کو ہی تسلیم کیا جاتا ہے تو بھی ان پر عمل درآمد مشکوک ہوگا۔ حکمران طبقات اس تحریک کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر بھی عمل کریں گے تاکہ یہ طوالت اختیار کرکے تھکن اور مایوسی سے ہی ختم ہوجائے۔
اس تحریک کی ابتدائی کامیابیاں اور دباؤ پی ٹی ایم کی قیادت کے لیے نئے اور زیادہ بڑے چیلنج لائی ہیں۔ یہ انکی آزمائش کا وقت ہے۔ جھوٹ اور بہتان تراشیاں بھی ہوں گی۔ دھمکیوں، خوف اور بلیک میلنگ کے ذریعے بہکانے کی کوششیں ہوں گی۔ انہیں اور انکے خاندانوں کو کھلے عام یا خفیہ انداز میں جبر اور معاشی حملوں کا نشانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ قیادت کے لیے لازم ہے کہ تحریک کے مورال اور تحرک کو قائم رکھے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ لازمی بات یہ ہے کہ ملک کی دوسری قومیتوں، نوجوانوں اور غریب عوام کی وسیع حمایت حاصل کی جائے۔ قیادت کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ مخصوص مفادات کے حامل عناصر اس شاندار اور جاندار تحریک کو یرغمال نہ بناسکیں۔ نہ ہی انہیں مہم جو عناصر کو اپنے نزدیک رہنے دینا چاہیے‘ جو تحریک کو تحلیل کروا سکتے ہیں۔ ہمدردوں کی شکل میں موجود یہ موقع پرست عناصر خوفناک انداز میں اس بغاوت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
یہ محکوموں اور محروم عوام کی تحریک ہے۔ اس تحریک کے حقیقی ہمدرد اور حمایتی وہ لوگ ہیں جو سماج کی انقلابی تبدیلی کے لیے طبقاتی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ تحریک تمام قومیتوں کے جابر طبقات اور حاکموں کے خلاف محکوموں کی تحریک ہے تاکہ محرومی، محکومی اور خونریزی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس طرح کی یکجا طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی اپنے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں اور استحصال اور جبر کے اس نظام کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پی ٹی ایم کی جانب سے شروع کی جانے والی اس تحریک نے سخت ترین حالات میں بھی محکوم اور استحصال زدہ عوام کی بغاوت اور جدوجہد کی صلاحیت کو دنیا کے سامنے واضح کردیا ہے۔