| تحریر: لال خان |
ہندوستان میں 2 ستمبر کی عام ہڑتال محروم و مجبور طبقات کی اس نظام کے خلاف جدوجہد کی روایت کا ایک اور تسلسل تھا۔ سارے ملک میں کروڑوں محنت کش بظاہر وزیر اعظم نریندر مودی اور اسکی معاشی پالیسیوں بالخصوص نجکاری کے خلاف ایک روزہ ہڑتال میں شریک ہوئے لیکن یہ بحیثیت مجموعی پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی ایک چنگاری تھی۔ ہندو انتہا پسندی کے لبادے میں مودی سرکا در حقیقت سامراجی اور مقامی سرمایہ داری کے مفادات کی جارح نمائندہ ہے۔ الجزیرہ کے مطابق اس ہڑتال میں 18 کروڑ محنت کشوں نے حصہ لیا جن میں سٹیٹ بینک کے ملازمین، نرسز، اساتذہ، ڈاک کے محنت کش، کان کن اور تعمیرات کے مزدور شامل تھے۔ کچھ ٹریڈ یونین اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کے مطابق یہ تعداد 20 کروڑ تھی جو کم و بیش پاکستان کی کل آبادی کے برابر ہے۔ گزشتہ برس 2 ستمبر کی عام کی ہڑتال (’’بھارت بند‘‘) میں 15 کروڑ محنت کش شریک ہوئے تھے۔
نیچے سے عام محنت کشوں کے بے پناہ دباؤ کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی قیادتوں نے ہڑتال کی کال واپس لینے سے انکار کر دیا تھا، اگر چہ آخری لمحات پر حکومت کم از اجرت میں اضافے سمیت کچھ مطالبات ماننے پر تیار ہو چکی تھی۔ بی جی پی کی ماخذ تنظیم ’راشٹریا سوئم سیوک سَنگھ‘ سے جڑی بڑی یونین بھارتیہ مزدور سنگ نے ہڑتال کی مخالفت کی اور اب انہیں کم از کم محنت کشوں کی با شعور پرتوں کے غصے اور نفرت کا سامنا کرنا ہو گا۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے پر سی آ ئی ٹی یو، اے آئی ٹی یو سی، آئی این ٹی یو سی، ایچ ایم ایس اور چھ دوسری بڑی ٹریڈ یونین تنظیموں نے اس ہڑتال کی کال دے دی۔ یو نین لیڈروں نے وزیر کی جانب سے غیر ہنر مند محنت کش کی کم از اجرت 6396 روپے سے بڑہا کر 9100 روپے کرنے کی پیشکش رد کر دی تھی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق محنت کشوں کے مطالبات میں پیداوار نہ دینے والے کارخانوں کو بند کرنے کے حکومتی منصوبوں، کچھ صنعتوں میں بیرونی سرمایہ کاری کی حدمیں اضافے (نجکاری کی ایک شکل) اور سرکاری کمپنیوں کے شیئرز کی فروخت کے حکومتی منصوبوں کا خاتمہ شامل سرفہرست تھا۔ یونینز کے مطابق حکومت کو سب کے لیے سوشل سکیورٹی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کی ضمانت اور کم از کم اجرت کو دوگنا کرنا چاہیے۔
ہندوستان کے کارپوریٹ میڈیا کے مطابق نئی دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں بجلی و پانی جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی متاثر نہیں ہوئی۔ لیکن دہلی میں حالیہ تاریخ میں نرسوں کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہر ہوا جس میں بیس ہزار افراد نے صفدر جنگ ہسپتال سے جلوس نکالا۔ تاہم نجی بینک کام کرتے رہے اور نجی سکول اور کالج بھی کھلے تھے۔ ہڑتال کی قوت اور پھلاؤ کا یہ عالم تھا کہ ریاستی جبر اور خونریزی کے باوجود جموں اور کشمیر میں ہڑتال تھی اور سی آئی ٹی یو جمو ں کشمیر کے صدر یوسف تاریگامی نے جموں شہر میں ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت کی۔ الجزیرہ کے مطابق جمعہ کو ہزاروں سرکاری بینک، دفاتر اور کارخانے بند تھے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں خلل تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر جنوبی ریاستوں کرناٹکا اور کیرالہ میں تھا۔ بہار میں کاروبار اور دکانیں بند رہیں اور یونین کارکنان نے ٹرینیں اور روڈ ٹرانسپورٹ بند کروا دی۔
آج ہندوستان میں نا برابری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ’نیو ورلڈ ویلتھ‘ کے مطابق مٹھی بھر کروڑ پتی یا دس لاکھ ڈالر سے زیادہ دولت مند افراد ملک کی 54 فیصد دولت پر قابض ہیں۔ جبکہ غربت میں اضافہ ہوئے جا رہا ہے اور2010ء میں شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد 77 کروڑ سے بڑھ کر83.6 کروڑ ہو گئی ہے۔ مودی کی رجعتی سرکار میں حالات اور بھی تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔ یونیسکو کے مطابق 50 فیصد ہندوستانیوں کے پاس سر چھپانے کی مناسب جگہ نہیں، 70 فیصد مناسب ٹائلٹ (بیت الخلا) سے محروم ہیں(جس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں)، 65 فیصد گھروں کے قریب پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، ملک کی آدھی آبادی بجلی سے محروم ہے اور85 فیصد دیہاتوں میں سیکنڈری سکول نہیں ہے جبکہ 40 فیصد تک کوئی سڑک ہی نہیں جاتی۔ دوسری طرف یہی ہندوستان دنیا کے دس ’امیر ترین ممالک‘ میں شامل ہے جہاں امرا کی مجموعی دولت 5600 ارب ڈالر سے زیادہ ہے لیکن ایک عام ہندوستانی شدیدترین غربت اور محرومی میں سلگ رہا ہے۔
ہندوستان میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوانوں کی تعداد موجود ہے اور66 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر ہے۔ چنانچہ معاشی بحران اور بے روزگاری کے سماجی اثرات کہیں زیادہ بد تر ہیں۔ بر سر روزگار محنت کشوں کو بھی ’ری سٹرکچر نگ‘ کے نام پر ملازمت کی مراعات اور سہولیات پر شدید حملوں کا سامنا ہے۔ کارپوریٹ سرمایہ دار اورحتیٰ کہ چھوٹے کاروبار بھی محنت کشوں کو ’کنٹریکٹ‘ پر رکھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں محنت کش بیگار کی جکڑ بندی میں ہیں۔ 14 سال کی عمر سے کم کروڑوں بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔ چالیس کروڑ کی لیبر فورس میں سے 94 فیصد سے زیادہ محنت کش قانونی دائرے سے باہر غیر منظم جگہوں پر کام کرتے ہیں جن میں ریڑھی لگانے سے لیکر گھر پر جواہرات پالش کرنے جیسی صنعتیں شامل ہیں۔
2008ء میں منظم شعبے میں محنت کشوں کی تعداد 2 کروڑ 75 لا کھ تھی جن میں 1 کروڑ 73 لاکھ سرکاری اداروں میں ملازم تھے۔ ان محنت کشوں کے سر پر نجکاری کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ مودی نے اپنے ’جمہوری‘ چناؤ پر اربوں روپے خرچ والے سرمایہ داروں سے ان لیبر مخالف پالیسیوں (’’اصلاحات‘‘) کا وعدہ کر رکھا ہے۔ لیکن یہ مالکان اور سامراجی مودی سرکار کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ محنت کشوں کی جدوجہد اور حالیہ اور گزشتہ برس کی عام ہڑتال کے سامنے یہ نام نہاد اصلاحات سست پڑ چکی ہیں۔ موجودہ ہڑتال سے مودی سرکار کا تذبذب اور بھی بڑھ جائے گا اور اس کا نیو لبرل ایجنڈا مزید سست روی کا شکار ہو گا۔
افرادی قوت اور شمولیت کے لحاظ سے یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال تھی تاہم اس ہڑتال کی کامیابی کا یہ مطلب نہیں محنت کشوں کے مطالبات تسلیم ہو جائیں گے۔ سرمایہ داری جس بحران سے عالمی سطح پر دوچار ہے اس میں حکمران طبقات کے پاس محنت کشوں پر حملوں کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسری طرف محنت کش طبقے کی برداشت بھی جواب دیتی جا رہی ہے۔ یہ طبقاتی جدوجہد کے دھماکہ خیز انداز میں پھٹنے کا مکمل نسخہ ہے۔ ہڑتال کے بعد زندگی پھر اسی تکلیف دہ معمول کی جانب لوٹ چکی ہے لیکن یہ معمول پچھلے سال سے مختلف ہے۔ با شعور نوجوانوں اور محنت کشوں کے بڑے حصے جدوجہد جاری رکھنا چاہتے ہیں اورسال کے سال عام ہڑتال اور بیچ کے وقفے میں تلخ زندگیوں میں کوئی بھی بہتری نہ آنے کے معمول کو توڑنا چاہتے ہیں۔
روزنامہ ’دی ہندو‘ کے مطابق ’’محنت کشوں کی 14 تنظیموں اور فیڈریشنوں نے مزدور ادھیکار سنگھرش ابھیان کے نام سے (پورے ملک کے محنت کشوں کی نمائندگی کرنے والی) ’سی ٹی یو او تنظیموں‘ کے متبادل نیا پلیٹ فارم کھڑا کیا ہے‘‘۔ اس کے کو آرڈینیٹر امیتاو بھٹا چاریہ نے کہا کہ ’’لبرلائیزیشن کے25 برسوں کے دوران سی ٹی یو او تنظیمیں مضبوط لیبر تحریک بنانے اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہیں… پچھلے سال بھی عام ہڑتال ہوئی تھی اور اس سے پہلے بھی یہ ہوتی رہی ہیں۔ کیا مزدوروں کے حالات میں کوئی بہتری آئی ہے؟ سی ٹی یو او تنظیموں نے محنت کشوں کے مفادات کو بار بار کمزور کیا ہے اور کارپوریٹ نواز ریاست سے سمجھوتے کیے ہیں۔ اسی لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے‘‘۔ اس نئی تنظیم نے بھی اس ہڑتال میں حصہ لیا اور اسے اپنے سال بھر کے کام کا آغاز قرار دیا۔
یہ ہڑتال اور مزدور تحریک کی کروٹ نہ صرف مودی سرکار کی مقبولیت اور اس کے ’’وکاس‘‘ (ترقی) کے نعرے کے ناٹک کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ محنت کشوں کے سامنے اس کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ دنیا بھر میں محنت کشوں کی جدوجہد پھر سے ابھر رہی ہیں۔ اصل ہندوستان جو محنت کشوں اور غریب عوام کا ہندوستان ہے، بیدار ہو رہا ہے۔ طبقاتی شعور آگے جانے سے ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے فرسودے نظرئیے پر بضد کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کی اصلاح پسند قیادتوں پر بہت دباؤ پڑے گا۔
سرمایہ داری ہندوستان کو ایک متحد، یکجا اور جدید صنعتی قوم بنانے، سماجی ڈھانچے اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر اور مذہبی قدامت پرستی کا خاتمہ کرنے کے قابل سیکولر ریاست تشکیل دینے میں تاریخی طور پر ناکام رہی ہے۔ بی جے پی، کانگریس اور تمام مذہبی اور سیکولر بورژواپارٹیاں سرمایہ داری کی نمائندہ ہیں اور اس طبقاتی نظام میں رہتے ہوئے حقیقی جمہوریت کبھی قائم نہیں ہو سکتی۔ آج نئے عہد میں محنت کش طبقہ اور اس کی تحریکیں سماجی اور معاشی نظام کی تبدیلی کے لیے متحرک ہو رہی ہیں۔ مارکسزم کے نظریات اور انقلابی سوشلزم کے پروگرام سے لیس ایک سیاسی قوت ہی یہ فریضہ ادا کرسکتی ہے۔ اس عام ہڑتال نے ایک مرتبہ پھر ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت کے سامنے تاریخ کا چیلنج رکھ دیا ہے۔ اس تاریخی فریضے میں ناکامی کی سزا بہت سخت ہو گی۔ ان روایتی قیادتوں کے پاس کھونے کو صرف پارلیمانی سیاست اور اصلاح پسندی کی زنجیریں ہیں جبکہ ہندوستان کے ایک ارب سے زائد محنت کش عوام کے پانے کو پورا جہاں ہے۔
متعلقہ: