[تحریر: لال خان]
راولپنڈی میں محرم الحرام کے موقع پر ہونے والے خونریز شیعہ سنی تصادم میں درجنوں انسانی جانیں مذہبی بنیاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات کا دائرہ ملک کے کئی دوسرے شہروں تک پھیل چکا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کی نفرتوں کی یہ سنگین انتہاپاکستانی معاشرے میں پھیلتے ہوئے انتشار کی غمازی کرتی ہے۔ یہ انارکی اور خونریزی اتنی بھی خود رو اور اچانک نہیں ہے جتنا کہ حکومتی عہدہ داران اور میڈیا اسے بنا کر پیش کررہے ہیں۔ پس منظر میں بہت سے مالیاتی مفادات اور ریاستی و غیر ریاستی عناصر کارفرما ہیں۔
ریاستی سرمایہ داری کے مشہور ماہر اور بھارت میں امریکہ کے سابقہ سفیر جان کینتھ گلبرتھ نے بھارتی سیاست کے بارے میں ایک بار کہا تھاکہ یہ’’ دنیا کا سب سے منظم انتشار ہے۔‘‘ پاکستانی ریاست، سیاست اور سماج بھی ارادتاً پیدا کردہ باترتیب بد نظمی اور انتشار کے دردِزہ میں مبتلا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے مذہب کی بنیاد پر قتل غارت گری جاری و ساری ہے اوراس سلسلے میں بنیاد پرستوں کو ریاست کے بعض حصوں کی مکمل آشیر باد حاصل ہے۔ پاکستانی ریاست نے یہ پالیسی امریکی سامراج کے اشارے پر شروع کی تھی۔ 1980ء اور 90ء کی دہائی میں پاکستان میں ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازو کے انہدام سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو رجعت پسندی نے پرْ کیا اور ضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کوخوب استعمال کیا۔ امریکیوں نے اس سفاک آمر کو افغانستان میں جاری ’ڈالر جہاد‘ کو چلانے اور اس خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے آلہ کار بنایا۔ خاص طور پر سر د جنگ کے آخری عرصہ میں امریکہ کی یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی کیونکہ امریکیوں کو خود سوویت یونین کے انہدام کی توقع نہیں تھی۔ مختلف فرقہ وارانہ گروہ اور بنیاد پرستوں کے کئی دھڑے ایسے ہیں جن کے نہ صرف امریکی سامراج بلکہ اس خطے کے ’’مختلف اسلامی ملکوں‘‘ کی ریاستوں کے ساتھ ہمیشہ سے قریبی مراسم استوار رہے ہیں۔ تصادم تب ہوتا ہے جب مختلف فرقہ وارانہ گروہوں کی سرپرستی کرنے والی سامراجی قوتوں کے تضادات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ اسی طرح ’مقدس جنگجوؤں‘ کے کسی گروہ کو جب سامراجی پشت پناہی ملتی ہے تو اس گروہ کے اندر ’مالِ غنیمت‘ کی تقسیم اور حصہ داری پر دھڑے بندی کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سامراجی طاقتیں اور حکمران انقلابی تحریکوں کو ڈی ریل کرنے کے لئے بھی بنیاد پرستی کو استعمال کرتی ہیں۔ 2011ء میں مشرقِ وسطیٰ میں جب عوامی آتش فشاں پھٹا اور اس خطے میں سامراج کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو اسلامی پارٹیاں اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کے لئے پیش پیش نظر آئیں۔ جیسے ہی انقلاب کے زلزلے نے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلانا شروع کیا اور لوگ اپنے سماجی و معاشی مسائل حل کروانے سڑکوں پر آئے تو سامراج نے اسلامی بنیاد پرستوں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ مصر اور تیونس میں اسلامی بنیاد پرستوں سے ان کے معاملات جلد طے پا گئے جبکہ لیبیا کے معاملے میں انہوں نے راتوں را ت القاعدہ کے ہزاروں جنگجوؤں کو ’آزادی پسند جنگجوؤں‘ کی صفوں میں شامل کروا دیا۔ شام میں بھی عوامی تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم کر کے خونریز خانہ جنگی کا آغاز کروا دیا گیا۔
پاکستان میں ہمیشہ سے مذہبی فرقہ واریت کے جغادری اپنی مکروہ اختراعات کا پرچار کسی ندامت و پشیمانی کے بغیر کر تے رہے ہیں۔ نفرتوں کی یہ دکانیں آج بھی سجی ہیں۔ کھلم کھلا جہادی دہشتگردی اور معصوم انسانوں کے قتلِ عام کی حمایت کی جاتی ہے۔ سماجی اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کا جینا مذہبی قصائیوں نے دوبھر کر دیا ہے۔ پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑے عوامی تحریکوں کو دبانے اورسماجی انتشار پیدا کر کے کسی ممکنہ انقلابی موج کا رخ موڑنے کیلئے ان عناصر کو استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ سماجی نفسیات پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارانہ زہرانڈیلا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب اور چنگھاڑتے ہوئے لاؤڈ سپیکروں سے لے کرذرائع ابلاغ تک، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر فرقہ واریت کو تقویت دی جاتی ہے۔ عمومی طور پر اس خون ریزی سے معاشرے میں خوف، ڈر، بیگانگی اور رجعت کے رجحان پروان چڑھتے ہیں۔ قومیت، رنگ و نسل، زبان اور ذات برادری کی طرح مذہبی تعصب اور فرقہ واریت بھی محنت کش عوام کو تقسیم کرنے کے موثر ہتھکنڈے ہیں۔ ’لبرل‘ اور قدامت پرست کرداروں کے تنازعے پر مبنی ناٹک کو بھی بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔ لال مسجد کے دہشت گردوں سے لے کر درجنوں لوگوں کے قتل کا فخریہ اعتراف کرنے والے مذہبی جنونیوں تک، قانون اور ’’آزاد عدلیہ‘‘ میں کسی کو سزا دینے کی جرات ہے نا ہی نیت۔ یہ عدالتیں صرف ایک جرم کی سزا دیتی ہیں اور وہ ہے غربت!
مذہب کا کردار ہمیشہ سے ایک سا نہیں رہا۔ اس عہد میں یہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے، نہایت منافع بخش کاروبار!ملا اشرافیہ اور اسلامی پارٹیاں بہت امیر ہیں۔ گاؤں کا مولوی اب جاگیردار کے اناج اور مذہبی رسومات کی آمدن پر گزارہ نہیں کرتا۔ مسجدیں خوب پھل پھول رہی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر اگل کر چندہ جمع کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے آزاد خیال، سیکولر اور جمہوری حکمران بھی سماجی بغاوتوں کا رخ موڑنے کیلئے مذہبی تعصب کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ اسی طرح ’’اعتدال پسند‘‘ اور شدّت پسند ملاؤں کے درمیان لکیر بہت ماند پڑ چکی ہے۔ رائیونڈ میں ہونے والے تبلیغی اجتماع پر حاضری دینے والے سرمایہ دار، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاستدان دراصل حکمران طبقے کی رجعتی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔ کیا تبلیغی جماعت اعتدال پسند ہے؟سرکاری دانشور اور مذہبی پیشوا جس امت کی بات کرتے ہیں اس میں فرقہ واریت کا زہر اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ دوسرے مسلک والوں کے گلے ثواب سمجھ کر کاٹے جارہے ہیں۔ مختلف فرقوں کے ان داتا فرقہ واریت اور مذہبی دہشتگردی کی صنعت کے ذریعے ارب پتی بن گئے ہیں۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کتنی معصوم جانیں ضائع ہوں گی، کتنا لہو بہے گا۔ سرمائے کے اس نظام میں مذہب کے کاروبار کا حتمی مقصد بھی سرمائے کا حصول ہے لیکن اس آگ اور خون کے کھلواڑ میں مرنے والوں کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
مذہبی تہواروں اور مختلف فرقوں کے مقدس دنوں میں فرقہ وارانہ تصادم کے خطرے بڑھ جاتے ہیں۔ ان مذہبی تہواروں کے دوران مختلف فرقوں کے ملاؤں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ ٹیلی وژن پر لامحدود ائیر ٹائم ملتا ہے جسے وہ اپنی شخصیت کے تسلط کو قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے فرقے پرکنٹرول کو مزید مضبوط کرنے کے لئے اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کے رجحانات کو ہوا دی جاتی ہے۔ 14 سو سال سے چلے آرہے یہ تنازعات اب بھی حل ہونے والے نہیں ہیں۔ فرقے کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ وحشت اور جنون نئے فرقوں کو جنم دیتا ہے اور یہ نئے فرقے مذہبی پیشواؤں کو نئے کاروباروں کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
یہ مذہبی تعصبات درحقیقت معاشرے کے بہاؤ اور ارتقا میں ایک جمود اور ٹھہراؤ کی غمازی کرتے ہیں۔ فطرت ٹھہراؤ کو پسند نہیں کرتی۔ ٹھہرا ہوا پانی بھی بدبودار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر ٹھہرے ہوئے معاشروں میں جنم لینے والی پراگندگی، گھٹن اور ذلت انتشار، نفسا نفسی اور ماضی کے تعصبات کو ابھارنے کا باعث بنتی ہے۔ موجودہ حکمران اور ان کا نظام اس معاشرے کو آگے بڑھانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ صرف محنت کشوں کا سیلاب ہی اس غلاظت کو دھو سکتا ہے!
متعلقہ:
گلیمر میں لپٹی قدامت پرستی
نورا کشتی؟
لبرل ازم اور قدامت پرستی