حکمرانوں کی مردار سیاست!

| تحریر: ظفراللہ |

آج کل سپریم کورٹ کے باہر روزانہ ایک سیاسی تھیٹر لگا ہوتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں پاناما کیس زیر سماعت ہے۔ عدالت کے اندر ہونے والی ساری کاروائی کو عدالت کے باہر فریقین اپنے اپنے اندازمیں زیر بحث لاتے ہیں۔ اس کے بعد ٹی وی چینلوں پر اس کیس کی روداد سن سن کر کان پک جاتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے ملک میں اس کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں رہا اور یہ حکمران کسی اور ہی سیارے پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سارے کھلواڑ میں سب سے مکروہ کردار کارپوریٹ میڈیا ادا کر رہا ہے، جو یہ نان ایشو (جس کا وسیع تر عوام کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں) مسلط کر کے ذہنی اور نفسیاتی طور پر گھائل کر رہا ہے اور اپنی ریٹنگ بڑھا کر منافعوں اور دولت میں اضافہ کر رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مختلف میڈیا مالکان مختلف ریاستی دھڑوں کے متضاد معاشی مفادات کی نمائندگی بھی کر رہے ہوتے ہیں اور ان میں حصہ دار بھی ہوتے ہیں۔

صرف پچھلے آٹھ سالوں میں رونما ہونے والے موٹے موٹے واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایک کثیر تعداد میں برق رفتاری سے ایسے نان ایشوز ابھارے گئے جن کا آج نام و نشان بھی نہیں ہے۔ میمو گیٹ سے لے کر 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور پھر دھرنوں کی نامراد سیاست سے لے کر پاناما کیس تک، کتنے واقعات ہیں جن سے پاکستان کے محنت کشوں اور عام عوام کے ذہنوں کو ان نان ایشوز سے مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی۔ جہاں ایک طرف یہ نان ایشوزحکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان تضادات کی عکاسی کرتے ہیں وہاں اس حکمران طبقے کی سماجی ترقی اور بہتری کی کوششوں میں ناکامی اور خصی پن کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ حکمران اس ملک اور سماج میں رہنے والے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش سے بھی عاری ہیں۔ یہ نااہلی ان کو مجبور کرتی ہے کہ اسی طرح کے بیہودہ اور غلیظ ’مسائل‘ کا تماشہ لگا کر لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے نہ صرف ہٹائی جائے بلکہ ان کو باور کروایا جائے کہ یہی نان ایشوز ہی حقیقی مسائل ہیں جن کو اگر حل کیا جائے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے فی الوقت حالات ان کی اس طرح کی حرکتوں کے لئے کسی حد تک سازگار بھی ہیں۔
بے شمار ادیب، دانشور اور تجزیہ نگار حکمرانو ں کے اس تماشے کو 2018ء کے الیکشن کی تیاریوں سے تعبیر کر رہے ہیں جوکہ جزوی طور پر درست بھی ہے لیکن اگر مسئلے کا گہراجائزہ لیا جائے تو صورتحال کچھ مختلف ہے۔ حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے کہ جس کرپشن کا انہوں نے شور مچایا ہوا ہے وہ کرپشن اس ملک اور معیشت میں خون کی طرح شامل ہے جس کے بغیر سفید معیشت کا بھی دھڑن تختہ ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کالا دھن پاکستان کی دستاویزی معیشت کے 87 فیصد کے برابر ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس طرح کے کئی اندازے شائع ہوتے رہتے ہیں جن میں سے کئی ایک کے مطابق تو پاکستان کی معیشت کا حقیقی حجم، سرکاری اعداد و شمار میں آنے والی سفید معیشت سے دوگنا سے بھی زیاد ہ ہے۔ یوں کالی معیشت ہی سفید معیشت کو چلا رہی ہے اور عوام کو درس یہ دیا جاتا ہے کہ بس کرپشن ختم ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا!
تاریخی طور پر حکمرانی کی کوئی بھی شکل رہی ہو، حکمرانوں کے ایسے ہتھکنڈے ناگزیر ہوتے ہیں۔ ہر حکمران طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھا جائے۔ بالخصوص جب نظام معیشت زوال کا شکار ہواور سماج میں چارسو غربت اور محرومی کا راج ہو تو یہ حرکتیں عا م ہو جاتی ہیں۔ جس طرح سلطنت روم میں ’گلیڈی ایٹرز‘ کا کھیل کھیلا جاتا تھا اسی طرح آج کل اس ملک میں کبھی دھرنے تو کبھی سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں۔ ایک وقت ہوتا ہے جب یہ تماشے حکمرانوں کے لئے کار آمد رہتے ہیں۔ پھر یہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھونا شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اس بات کا خدشہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ کہیں ان تماشوں اور غیر سنجیدہ سیاسی ناٹکوں کے اندر سے سنجیدگی برآمد ہی نہ ہونے لگے۔ پھر اس کھلواڑ کو ختم کر کے نئے انداز اور نئی طرز کے ڈرامے اس وقت تک رچانے میں حکمران کامیاب رہتے ہیں جب تک خود محنت کش طبقہ تاریخ کے میدان میں قدم رکھنا شروع نہیں کر دیتا۔ اس لئے اس سارے انتشار میں بھی ایک نظم و ضبط موجود ہوتا ہے اور حکمرانوں کے مختلف ٹولے اپنے تضادات میں ایک توازن قائم رکھ کر چل رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف محنت کش اور عام عوام ان جعلی ناٹکوں اور نورا کشتیوں سے بے خبر اپنی روز مرہ زندگی کو ’’جینے‘‘ میں مصروف ہوتے ہیں۔ پے درپے معاشی حملوں نے عام لوگوں کی یہ حالت کر دی ہے کہ کروڑوں لوگ ان تماشوں سے نہ صرف لاتعلق ہوتے ہیں بلکہ ان کو پاناما جیسے فروعی مسائل کی تماش بینی کی ’’عیاشیوں‘‘ کی فرصت تک نہیں ہوتی۔ محنت کشوں اور عوام کی وسیع اکثریت اپنے معاشی، سماجی اور خاندانی مسائل کے گرداب میں اتنی بری طرح پھنسی ہوتی ہے کہ ان کو حکمرانوں کی یہ آپسی لڑائیاں ایک بیہودہ تماشے سے زیادہکچھ نہیں لگتیں۔ یہ کیفیت ہر عہدکے نیم رجعتی اور نسبتاً سیاسی بے حسی کے معروض میں نمایاں ہوتی ہے۔ عام لوگوں کی زندگی مہنگائی، لوڈٖ شیڈنگ، دہشت گردی، بے روزگاری، سماجی بیگانگی اور غیر انسانی رویوں کے شدید کرب میں مبتلا ہے اور اس طرح کی کیفیت میں ذاتی اور انفرادی بقاکی جدوجہد سماج پر حاوی ہوتی ہے۔ ان معروضی حالات میں محنت کش عوام کی ذہنی اور سماجی کیفیت کو مد نظر رکھ کر ہی ان کے سیاسی کردار اور سرگرمی کا تناظر بنایا جا سکتاہے اور اگر عمومی طور پر سماج میں محنت کشوں کی اس کیفیت کو پرکھا جائے تو تمام دھڑوں اور پارٹیوں میں شدید بیگانگی نظر آتی ہے، جو بورژوا سماج کے لئے بھی ایک خاموش خطرے کی گھنٹی ہے۔ جہاں محنت کش طبقہ اس ریاست، اس کے آئین اور ڈھانچو ں سے بیگانہ ہو جائے اور اس سماجی خلفشار میں اپنی سماجی حیثیت اور اس پر مسلط ریاستی اداروں کے درمیان ناقابل عبور تفریق کے احساس میں چلا جائے تو حکمرانوں کے لئے اس طرح کے تماشے کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ کرپشن جیسا ناسور نہ صرف اس نظام کی پیداوار ہے بلکہ سہارا بھی ہے اور یہ تیسری دنیا کے بیشتر حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر عوام، حکمرانوں کی کرپشن پر زیادہ حیران نہیں ہیں اور نہ ہی وہ حکمرانوں کی کرپشن کو غیر معمولی واقعہ سمجھتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی کرپشن کی داستانیں سن سن کر وہ اسے ایک معمول سمجھنے لگے ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی درحقیقت اوپر سے نیچے تک اس پورے سماج کا معمول بن چکی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے گل سڑ جانے کی علامت ہے۔ اس لئے یہ سوچ قطعی طور پر بے بنیاد اور لغو ہے کہ کرپشن کی بنیاد پر حکمرانوں کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک یا مزاحمت ممکن ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں عوام کی وسیع اکثریت تمام پارٹیوں اور ان کے لیڈران کو ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے سمجھتی ہے۔ محنت کش عوام کی حکمرانوں کی اس سیاست سے بیگانگی جہاں طبقاتی سیاست کی راہ میں رکاوٹ ہے وہاں یہ محنت کشوں کے بلند شعور کی بھی غمازی کرتی ہے کہ وہ حکمرانوں کے ہر پراپیگنڈے اور تماشے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس پر انتشار اور مفلوج معیشت میں حکمرانی کرتے ہوئے خود حکمرانوں نے بھی اپنے آپ کو سماج کے سامنے آشکار کیا ہے۔ ایک دوسرے پر مسلسل بھونڈے الزامات اس بات کی دلیل ہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ لیکن ایک بات جس پر حکمرانوں کے سارے ٹولے متفق ہیں وہ ہے محنت کشوں کا استحصال، جو وہ مختلف طریقوں اور شکلوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں اتنی صلاحیت اور گنجائش نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پرکوئی بھی حکومت چاہتے ہوئے بھی کوئی معاشی اور سماجی اصلاحات کر سکے۔ یہاں کے سرمایہ دار طبقے کی تاریخی تاخیرزدگی اور نا اہلی، ریاستی ادارو ں کی تشکیل اور بنیادی فزیکل اور سماجی ڈھانچے کی استواری میں ناکامی کی شکل میں واضح طور طور پر عیاں ہے۔ یہاں پر بیرونی سرمایہ کاری سے اجارہ داریوں کے منافعوں میں بے تحاشا اضافہ کر کے سماج کو جدت اور پسماندگی کے بیہودہ ملاپ کی زندہ تصویر بنا دیا گیاہے۔ سرمایہ داری کاسامراجی روپ پسماندہ ملکوں میں زیادہ گھناؤنی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کی کلاسیکی کالونائزیشن کے برعکس آج کے عہد میں منافعوں کی ہوس میں سماجی ترقی اور بنیادی صنعتی اور سماجی ڈھانچے کی تعمیر ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی اور ملکی سرمایہ دار اپنے غیر ملکی سامراجی آقاؤں کے مقابلے میں تاریخی، مالیاتی اور تکنیکی طور پر پسماندہ اور غلام ہونے کی وجہ سے نہ صرف ان کی دلالی پر مجبور ہوتا ہے بلکہ کرپشن، بجلی چوری اور رشوت جیسے اقدامات کے ذریعے ہی اپنی دولت میں اضافہ کر پاتا ہے۔ اس لئے یہ جرائم ان کے سماجی کردار اور حکمرانی کی ناگزیر ضرورت ہیں۔ ملک ریاض جیسے نو دولتیے سرمایہ دار کرپشن اور رشوت جیسے جرائم کا برملا اظہار کرتے ہیں اور کوئی ریاستی ادارہ ان سے پوچھ گچھ نہیں کرتا اور ریاست اپنے اس برہنہ کردار کو غریبو ں اور لاچاروں کی چھوٹی چھوٹی کرپشن اور جرائم کے خلاف اقدامات کر کے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ ایک طبقاتی معاشرے میں ریاست اور قانون کا کردار بھی طبقاتی نوعیت کا ہوتا ہے جس میں قانون صر ف غریبوں اور محرومو ں کے خلاف ’’ حرکت‘‘ میں آتا ہے جبکہ یہ اشرافیہ اور امرا کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کر تا ہے، جو اسے موم کی ناک سمجھتے ہیں۔
حکمران طبقہ سماج پر مختلف طریقوں سے حکمرانی کرتا ہے۔ صرف آئین و قوانین، تشدد و جبر کافی نہیں ہوتا۔ ریاست اور حکمران طبقے کے تقدس اور اتھارٹی کو کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے عوام کے ذہنوں اور نفسیات پر مسلط کیا جاتا ہے۔ سکول اور کالج کے نصاب، کھیلوں اور کھلاڑیوں، مذہب، ریاستی اداروں اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کی سوچ کو کنٹرول اورمجروع کیا جاتا ہے۔ اور اس کام کے لئے ان کے پاس صحافیوں، استادوں، پرفیسروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں، ججوں اور وکیلوں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے جو پورے سماج میں بورژوا اخلاقیات اور ثقافت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ یہی اداکار آج کل سپریم کورٹ کے باہر بیہودہ حد تک غلامانہ انداز میں ’’آئین‘‘ اور ’’قانون‘‘ کی باریکیوں کی وضاحت کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم انداز میں سوچی سمجھی سکیم کے مطابق پوری عدالتی کارروائی کی تشریح کی جارہی ہوتی ہے۔ دونوں فریقین ’’جج صاحبان‘‘ کے ریمارکس کی اپنی اعتبار سے وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی جج نے وضاحت نہیں کی کہ کس گروپ کا مؤقف درست ہے۔
سرمایہ داری میں پیچھے رہ جانے والے سماج، عجائب گھر کی طرح ہوتے ہیں جہاں مختلف تاریخی مراحل بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ سرمایہ دارانہ نظام کی ان سماجوں کو یکساں بنیادوں پر جدید طریقے سے ترقی نہ دے سکنے میں ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ سماج صرف سوشلسٹ چھلانگ کے ذریعے ہی آگے بڑھ سکتا ہے، ورنہ ایسی ہی سیاست، معیشت، حاکمیت اور بیہودگی کا راج ہوتا ہے جو آج کل پاکستان میں ہے۔ یہاں پر ریاست کے مختلف اداروں کا وہ کردار نہیں پروان چڑھ سکتا جو کہ ایک کلاسیکی سرمایہ دارانہ ریاست میں ہوتا ہے۔ یہی صورتحال اس سماج میں سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیوں کی ہے جو اس کمزور ریاست پر حاوی ہو کر اسے اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہونے والی ایک مشینری میں تبدیل کر کے رکھ دیتی ہیں، جو عوام سے مزید دور اور لا تعلق ہو کر سماج سے بلند اور بالاتر اور بیگانہ ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف محنت کش طبقہ بھی صرف اپنے مسائل، غربت اور محرومی کی بدولت متحرک نہیں ہوتا بلکہ اس کے تحرک کی وجہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی عناصر کا ایک مخصوص ترتیب میں تشکیل پا کر اس کے شعور پر اثر انداز ہونا ہوتاہے جو محنت کشوں کو ایک دھماکے کے ساتھ جدوجہد کے راستے پر گامزن کردیتے ہیں۔ جس طرح ٹراٹسکی نے 1905ء کے روسی انقلاب کی ناکامی کے بعد لکھا تھا کہ ’’اب روس کی مزدور تحریک میں ابھار معاشی ابھار کی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے ‘‘ جو کہ پھر 1912ء 1909-ء کی معاشی بہتری کے دور کے بعد پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح شعور کی تبدیلی بھی بنیادی طور پر ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں جانے کا نام ہے اور معاشی بڑھوتری اور طبقے کی مادی زندگی میں مثبت تبدیلی بھی تحریک کو بھڑکانے کا باعث بن سکتی ہے۔ کیونکہ غربت اور ذلت کی انتہاؤں میں عام طور پر تحریک مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتی ہے۔ کوئی ایک معیاری واقعہ طبقے کی نفسیاتی کیفیت میں بھونچال برپا کر کے اسے بغاوت پر آمادہ کر سکتا ہے۔ حکمرانوں کے نان ایشوز کے یہ ناٹک تب تک چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے جب تک موجودہ کیفیت جوں کی توں برقرار ہے۔ بعض اوقات یہ کیفیات اپنی طبعی عمر سے زیادہ طویل ہو جایا کرتی ہیں، خاص طور پر ایک سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں۔ محنت کش طبقہ ابھی یہ جسمانی اور نفسیاتی گھاؤ بر داشت کر رہا ہے جو حکمران ہر روز ان پر لگاتے ہیں۔ لیکن پھر برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب طبقہ ’’اپنے لئے طبقہ‘‘ بننا شروع ہوتا ہے تو جہاں رنگ، نسل اور مذہب کے تعصبات ہوا ہو جاتے ہیں وہاں پاناما جیسے یہ جعلی ناٹک اور تماشے بھی رُک جاتے ہیں۔ طبقاتی جنگ کی صفیں ترتیب پانے لگتی ہیں۔ حکمرانوں کے نان ایشوز کو چیر کر محنت کش طبقات سنجیدہ، نظریاتی اور انقلابی سیاست کا آغاز کرتے ہیں۔ پھر وہ حکمرانوں کے ان تماشوں کو دفن کرتے ہوئے اپنی تقدیر کے خود مالک بنتے ہیں، وقت کو اپنے تابع کر کے زمانے بدل کے رکھ دیتے ہیں اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی بنیاد رکھتے ہیں۔

متعلقہ:

’’خفیہ خزانے‘‘