| تحریر: لال خان |
اس نظام زر میں سال بدلتے ہیں، حالات نہیں بدلتے۔ حکمران بدلتے ہیں عام انسان کی زندگی کے معمولات نہیں بدلتے۔ وہی گھسے پٹے دعوے اور عوام کے عذابوں سے دور فروعی موضوعات کی گردان چلتی رہتی ہے۔ دہشت گردی کی درندگی ہو یا اس کوکچلنے کے ریاستی دعوے، اعلیٰ عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات کی پیچیدگیاں ہوں یا وکلا اور سیاست دانوں کی بے مقصد اور کم ظرف تکرار، فوجی سربراہوں کی بدلیاں ہوں یا سپریم کورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے ردوبدل ہوں، پارلیمنٹ کی بیزار کن کاروائیاں ہوں یا پیچیدہ آئینی ترمیم، جن کا بنیادی زندگی سے تعلق ہی نہ ہو، الیکشن کے بارے میں اتنی شدید بے چینی ہو اور پھر انتخابات میں دھاندلی کا کھیل ہو، ہر روز حکومت کے خاتمے کی پیشین گوئیاں ہوں اور حکمرانوں کے اپنی نسل کو ہی وراثتی اقتدار دینے کے اشارے ہوں، معیشت کی کامیابی کے دعوے ہوں اور اسکے بیمار ہونے کے الزامات ہوں، فوجی سویلین کشمکش ہو یا پھر فوج کی سویلین ترغیب کے بیانات ہوں، جمہوریت اور مارشل لا کے ’’تضادات‘‘ پر بے معنی بحث ہو یا پھر طرز اقتدار کے بارے میں مسلسل نئے منصوبے پیش ہورہے ہیں۔ یہاں کی مسلط کردہ سیاست اور کارپوریٹ میڈیا میں یہی موضوعات ہیں جن تک تمام بحثیں اور خبریں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بھر مار ہے اور ٹریفک ہر طرف جام ہوتی جارہی ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بے دریغ اخراجات کرنے والی بالادست اور درمیانے طبقے کی قدامت پرست وماڈرن فیشنوں والی خواتین کی بھیڑہے۔ ریستوران بڑے شہروں اور پوش علاقوں میں رش سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہاؤسنگ سکیموں کی بھرمار ہے جن سے مکان تو ملتے ہوں گے، گھر اور گھرستی کا سکون نصیب نہیں ہوسکتا ہے۔ درمیانے طبقے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ ہر طرف اتنی دولت ہے کہ سب امیر ہی امیر ہیں۔ ایک ایسی کیفیت پیدا کردی گئی ہے جس میں ایک فیس بک اور سوشل میڈیا کی دنیا ہے جس میں غرق افراد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی گریزاں ہیں کہ اس ملک میں 82 فیصد آبادی بنیادی انٹرنیٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کی تخیلاتی دنیا میں معاشرے کے محنت کش عوام پر مبنی بھاری اکثریت کی اصل زندگی کی دنیا کو فراموش کررکھا ہے۔
سیاست اور میڈیا پر کثرت سے جن موضوعات پر واویلا مچا ہوا ہے ان کا یہاں کے محروم اور مظلوم عوام کی زندگیوں کے سلگتے ہوئے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ہم غورسے دیکھیں تو یہ دو مختلف دنیائیں ہیں جن میں ایک اقلیتی دنیا نے اکثریت کی زندگی اور رائے کو اندھیرے میں ڈبو رکھا ہے۔ یہ بالادست اور درمیانے طبقات کی دنیا درحقیقت 4 کروڑ کے قریب افراد پرمشتمل ہے جبکہ اس ملک کی کل آبادی بیشتر جائزوں کے مطابق22 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ اس طرح 20 فیصد سے بھی کم آبادی کی روایات، اقدار، ثقافت اور ذہنیت آج کے عہد میں فلم سے لے کرٹیلی ویژن اور ادب سے لے کر سیاسی تجزیوں تک، ہر جگہ حاوی ہے۔ لیکن ان میں بھی اپنے تضادات ہیں۔ لبرل ازم اور قدامت پرستی اورسیکولر ازم اور مذہبیت کے درمیان ایک درمیانے طبقے کی تکرار اور بے معنی بحث جاری ہے جس میں محرومی اور ذلت کا نہ ذکر ہے نہ حل اور نہ ہی ان اذیتوں سے چھٹکارے کا کوئی لائحہ عمل موجود ہے۔
اس عہدکا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس ملک کی 50 فیصد سے زیادہ دولت اور وسائل ایک فیصد کی ملکیت ہیں۔ باقی 4 کروڑ کے قریب درمیانے طبقے کی مختلف پرتیں انکی پیروی بھی کررہی ہیں اور ان میں شامل ہونے کی ایک ایسی اندھی دوڑ میں بھاگے چلے جارہے ہیں کہ زندگی کو جی لینے اور اس کو محسوس کرنے سے بھی قاصر معلوم ہوتے ہیں۔ سیاست بھی یہی ہے اور ثقافت بھی یہی۔ رشتے بھی اسی کے گرد مرکوز ہیں اور سماجی تعلقات بھی۔ فریب، جھوٹ اور دھوکہ دہی فن کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ سچائی اور معاشرے کی ان اذیتوں سے نجات کے نظریات کو اس نظام کی موجودہ عہد کی بالادست پرتوں اور ان کے اداروں نے پرانا، ناکام اور بیکار کہہ کر بے دخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر محنت کش عوام آج ششدر اور جھنجلاہٹ کا شکار ہو کر سہل ہونے کی کوئی راہ تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں تو درمیانے اور بالاست طبقات کی سیاست اور ریاست اور معاشرت بھی شدید انتشار اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ درمیانے طبقات اس دوڑ کو کبھی جیت نہیں سکتے اور حکمران سرمایہ دار وجاگیردار طبقات اپنی دولت اور طاقت کی ہوس کوکبھی مٹا نہیں سکتے۔ جتنا لوٹتے ہیں مال کی مزید ہوس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وقتی طور پر حکمران، عوام کی بغاوت کے خطرے کو بے ضرر اورلاغر سمجھ کر فراموش کرچکے ہیں لیکن اتنی دولت اور طاقت حاصل کرلینے کے بعد بھی کوئی سکون اور استحکام استوار کرنے میں ناکام ہیں۔ دولت اور طاقت کی حصہ داری میں حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں مسلسل کشمکش اور سطحی تصادم جاری ہیں۔ لیکن معاشرے میں نہ چین ہے نہ کوئی سکون۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ جسے رک سا گیا ہو، اتنی تیز تر حرکات جاری ہوں لیکن سماجی سفر ٹھہر گیا ہو۔ اگرچہ بمشکل یہ سرک رہا ہے لیکن بھاری اکثریت آگے بڑھنے کی بجائے مزید محرومی میں گررہی ہے۔ سطح کے نیچے عوامل بہرحال مسلسل جاری رہتے ہیں۔ اچھی خبروں کی جعل سازی، ان کی سنائی کے ساتھ ہی، بے نقاب ہوجاتی ہے۔ ترقی کے دعوؤں سے زندگی پر کوئی بہتر ی کا اثر محسوس نہیں ہورہا ہے۔ اس سماجی گھٹن میں جہاں کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے تو ہم پرستی اور جھوٹے سہاروں پر امیدوں کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ لیکن پھر ایسی آس بھلا کب تک بھوک، ننگ اور افلاس کی اذیت کو قابلِ برداشت بنائے رکھ سکتی ہے۔
سیاست میں پارٹیوں نے محنت کشوں کی اس ذلت کے خاتمے کے عندیے دینے بھی بند کردیئے ہیں۔ سیاست جن موضوعات کی پیروکاری کرنے پر مجبورہے ایسے میں دولت کے بغیر چل نہیں سکتی اور دولت جس سیاست کو چلاتی اور چلواتی ہے اس میں دولت مندوں کے مفادات اور موضوعات پر ہی یہ کھلواڑ جاری رہتا ہے۔ خیرات سے سماجوں کی بھوک اور محرومی تو نہیں مٹا کرتی۔ اور نہ تعلیم، علاج اور ر وزگار کی فراہمی ہوسکتی ہے۔
زندگی ایک دن کی خیرات کے بعد باقی دنوں میں بھی قائم رکھنا ہوتی ہے۔ اس کو چلانے کے لیے درکار وسائل لٹ گئے ہیں اور مزید لٹ رہے ہیں۔ یہی لٹیرے کبھی سیاست دانوں کے روپ میں، کبھی سماجی رہنمائی کی شکل میں، کبھی نیک پرہیزگارپیشواؤں کے ڈھونگ میں ذرائع ابلاغ عوام پر مسلط رکھتے ہیں۔ لیکن تاریخ اس امر کی بھی گواہ ہے کہ ایسا لامتناہی طور پر کبھی چل نہیں سکا۔ ایسے ادوار آتے ہیں جب کارپوریٹ میڈیا کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ مسلط کردہ اقتدار بکھر جاتا ہیں۔ انفرادیت اور خودغرضی کے بندھنوں کو توڑ کر محنت کش ایک یکجہتی اور طبقاتی بھائی چارے میں اپنی محرومیوں اور ذلتوں کے گرد یکجا بھی ہوجاتے ہیں۔ اس سماجی واقتصادی جبر سے نکل کر وہ معاشرے اور سیاست کے میدان میں بطور طبقہ زوردار انداز میں داخل ہوتے ہیں۔ ان کا شعور طبقاتی جدوجہد کی روشنی سے منور ہوجاتا ہے۔ ان کی سوچ اجاگر ہوتی ہے اور وہ تاریخ کے میدان میں اتر کر اپنے مقدر کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ دولت اور وسائل، جن پر چند افراد اور خاندانوں کا قبضہ ہے، جن کو تخلیق کرنے والی انسانی محنت ہے، وہ محنت پھر اپنا حق وصول کرتی ہے۔ دولت کی سیاست کو محنت کی تحریک شکست دیتی ہے۔ منافع خوری کی بیڑیوں سے آزاد ہو کر جدید ذرائع ابلاغ اور ٹیکنالوجی معاشرے میں ضروریات کی بہتات پیدا کرنے لگتے ہیں۔ جس سے مانگ مٹتی ہے، انسان کو سانس لینے اور اپنے آپ، زندگی اور اس جہاں کے بارے میں سوچنے کا وقت ملتا ہے۔ حسیات میں جمالیاتی حسن پیدا ہوتا ہے۔ رشتوں میں خلوص آجاتا ہے۔ انسان حیوانیت سے نکل کر انسانیت کے دائرہ میں داخل ہوتا ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جس کو انقلاب کہا جاتا ہے۔ نسلوں سے فراموش کردہ یہ محنت کرنے والے محروم انسان سیاست، ریاست، معیشت، صحافت اور معاشرت پرچند کی اجارہ داری ختم کرتے ہیں۔ ملکیت کے نئے رشتوں کی استواری سے اشتراکی معاشرہ حتمی نجات کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔