بے ثمر ’’سارک‘‘

[تحریر: لال خان]
تیس سال پرانی ’’سارک‘‘ کا ایک اور علامتی اجلاس اختتام پزیر ہوا۔ کانفرنس پاک بھارت تعلقات کی ترشی سے کھٹائی میں پڑتے پڑتے رہ گئی۔ جمعرات کو توانائی کے معاہدے میں پاکستان نے بالآخر شمولیت اختیار کر ہی لی۔ تاہم یہ جعلی سا معاہدہ بھی سارک کی ساکھ کو بچانے کی نحیف کوشش تھی۔ نیپال کی کنگال ریاست کے جانب سے کانفرنس پر کئے جانے والے بھاری اخراجات اور کارپوریٹ میڈیا کی مبالغہ آرائیوں کو آخر کوئی جواز تو چاہئے تھا۔ دنیا کی 23 فیصد آبادی والے سارک ممالک میں دنیا کی 44 فیصد غربت پلتی ہے۔ حکمرانوں کے یہ ادارے اور ان کی کانفرنسیں اتھاہ غربت، بھوک، بیماری اور پسماندگی میں گھرے اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو کچھ دے پائی ہیں نہ دے سکتی ہیں۔

کانفرنس کی ناکامی کو چھپانے کے لئے مودی اور نواز شریف کو بڑی مشکل سے مصافحے پر راضی کیا گیا

کانفرنس کا حتمی نتیجہ بھارت کے NDTV نے ان الفاظ میں بیان کیا کہ ’’اختتامی لمحات میں جب مودی اور نواز شریف نے مصافحہ کیا تو کانفرنس تالیوں سے گونج اٹھی۔ ان کی مسکراہٹ ایک دن پہلے تک کے تلخ رویوں سے متضاد تھی جب دونوں ایک دوسرے کو نظر انداز کررہے تھے۔ توانائی کے معاہدے نے کانفرنس کی لاج رکھ لی کیونکہ پاکستان نے اس سے پہلے ہندوستان اور دوسرے ممالک کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔نیپال کے مطابق سڑک اور ریل کے سفر پر سے پابندیاں ختم کرنے کے معاہدوں پر چھ ماہ بعد پھر غور کیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سارک رہنماؤں نے نواز شریف کو توانائی معاہدہ ماننے پر قائل کیا تاکہ کانفرنس کو مکمل انہدام سے بچایا جاسکے۔‘‘
اس سے قبل بدھ کو نریندرا مودی نے سارک کی نااہلی اور کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد خطے میں سے تنازعات کے خاتمے اور رکن ممالک کے درمیان تعاون کے معاملے میں ایک انچ آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔‘‘ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے مزید کہا کہ ’’بغض اور شک پرستی کا شکار سارک، خطے کے ممالک کو قریب لانے میں ناکام رہی ہے اور عوام کی خواہشوں پر پورا نہیں اتر پائی۔جنوب ایشیا سے زیادہ اجتماعی کوششوں کی ضرورت دنیا کے کسی خطے میں نہیں ہے اور اسی خطے میں ہی پیش رفت سب سے سست ہے۔‘‘ مودی جیسے شخص کو مدنظر رکھا جائے تو یہ الفاظ اگرچہ بڑے شائستہ لگتے ہیں لیکن عالمی سطح پر زوال پزیر نظام میں معاشی طور پر مفلوج ریاستوں پر مشتمل اس اتحاد کی یکسر نامرادی کا اعتراف مودی نے بہرحال نہیں کیا۔دنیا میں کم ہی ایسی جگہیں ہوں گی جہاں حکمرانوں کی سفارت اتنی پرفریب، بے رحم اور منافقانہ ہوتی ہے۔
کانفرنس کے پہلے دن شائع ہونے والی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ’’گزشتہ 30 سالوں میں ممبر ممالک کے درمیان معاشی رشتے استوار کرنے اور ترقی دینے میں سارک کا کردار صفر رہا ہے۔ 2006ء میں طے پانے والے آزاد تجارت کے معاہدے کے باوجود جنوب ایشیا کے ممالک صرف پانچ فیصد تجارت ایک دوسرے سے کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے روابط بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وزیراعظم مودی نے سوائے پاکستان کے ، تمام رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ جموں کشمیر کے بارڈر پر ہونے والی فائرنگ میں 20 لوگوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ہمسائے بات چیت کو تیار نہیں ہیں۔‘‘
بی بی سی پر شائع ہونے والے عامر متین کے تجزئیے کے مطابق ’’کاغذوں میں یہ بڑا اچھا لگتا ہے کہ گرڈ کو جوڑنے کے معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں لیکن تاثر یہی ہے کہ سارک کی اس کانفرنس سے کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا اور یہ ناکام ہو گئی کیونکہ بھارت اور پاکستان تو آپس میں بات چیت تک نہیں کر سکے…کٹھمنڈو میں گھوم پھر کر ہمیں اندازہ ہوا کہ پاکستان ہو، بھارت ہو یا پھر نیپال، یہاں کے لوگوں کی ضروریات اور مجبوریاں ایک جیسی ہی ہیں۔‘‘
سارک کا ہر رکن ملک داخلی طور پر شدید معاشی بحران اور سیاسی و سماجی انتشار سے دوچار ہے۔ افغانستان سامراج کے براہ راست قبضے میں ہے۔منشیات کے کاروبار پر پلنے والے مذہبی جنونیوں کے گروہ اور جنگی سردار پورے ملک کو چیر پھاڑ رہے ہیں، دارالحکومت سے باہر امریکہ کی کٹھ پتلی ریاست کا کوئی وجود نہیں ہے، خواتین بدترین جبر کا شکار ہیں اور مستقبل پر بربریت کے سائے گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں۔ بنگلہ دیش عالمی سطح پر محنت کشوں کے وحشیانہ استحصال کی علامت بن چکا ہے اور یہاں پچھلے کچھ سالوں کے دوران ہونے والی عام ہڑتالوں کی تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ سیاسی فسادات معمول ہیں، محنت کش عوام میں ریاست اور استحصالی نظام کے خلاف نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔چاروں طرف خشکی میں گھرے بھوٹان کی حیثیت ثانوی سی ہے، یہ دراصل بھارت کی سٹیلائٹ ریاست ہے۔
ہندوستان دنیا کی ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی غربت کا گھر بھی ہے۔بڑے شہروں کے پوش علاقوں اور بازاروں کی چمک چمک میں 80 فیصد آبادی کی محرومی کو بھلا کیسے چھپایا جاسکتا ہے؟ خواتین کی حالت یہ ہے کہ دہلی اب ’’بلادکار کا دارلحکومت‘‘ کہلایا جانے لگا ہے، ہندو بنیادپرستوں کی حالیہ حکومت ’’سیکولرزم‘‘ کا پول خود ہی کھول رہی ہے۔ بھارتی ریاست کے سامراجی عزائم کا اظہار نہ صرف پاکستان سے ٹکراؤ میں ہوتا ہے بلکہ ہندوستان کا حکمران طبقہ کشمیر سے لے کر آسام تک بدترین قومی اور طبقاتی استحصال کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔
بھارت اور مغربی سامراجی قوتوں کے تسلط میں جکڑا مالدیپ، ملک سے زیادہ جزائر کا مجموعہ ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے مالدیپ میں چین کی ’’دلچسپی‘‘ بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ تھوڑی سی آبادی پر مشتمل سیاحت کے اس مرکز کی سیاست میں سامراجی قوتیں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں جس کی اہم وجہ اس کی بحری اسٹریٹجک اہمیت ہے۔ ماؤ اسٹ رہنماؤں کی جانب سے گوریلا جنگ ترک کر کے سرمایہ دارانہ ’’جمہوری سیٹ اپ‘‘ کا حصہ بن جانے کے بعد نیپال میں لمبے عرصے سے جاری خانہ جنگی ختم ہوئی ہے۔ ان ’’انقلابی‘‘ رہنماؤں نے نیپال کو دنیا کی واحد ’’ہندو ریاست‘‘ قرار دینے والی بادشاہت سے بھی ’’مصالحت‘‘ کر لی ہے۔ افلاس کے مناظر اس ہمالیائی ریاست میں بھی خطے کے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں ہیں۔
عدم استحکام پر مبنی پاکستان کی آدھی سے زیادہ سیاسی تاریخ فوجی آمریتوں سے عبارت ہے۔ونٹی لیٹر پر پڑی ریاستی معیشت کو قرض کا ٹیکہ لگا کر چلایا جارہا ہے جبکہ اس سے دو گنا بڑی ’’متوازی معیشت‘‘ کالے دھن پر مشتمل ہے۔نواز لیگ کی ’’جمہوری حکومت‘‘ سیاسی اور ریاستی ہنگامہ آرائی سے لرز رہی ہے۔دائیں بازو کی اس حکومت کی تباہ کن ’’ٹریکل ڈاؤن‘‘ پالیسیاں عوام کی رگوں میں رہا سہا خون بھی نچوڑ رہی ہیں۔ دہشت گردی اور خونریزی معمول ہے۔ محکوم طبقات، مظلوم قومیتوں، مذہبی اقلیتوں اور خواتین کی زندگی عذاب مسلسل بن چکی ہے۔ ازل سے بدعنوان حکمران طبقہ محنت کش عوام کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی دیمک کی طرح چاٹتا جا رہا ہے۔
سری لنکا کے حالات بھی وقت کے ساتھ خراب ہی ہوئے ہیں۔ 1950ء اور 60ء میں بائیں بازو کی حکومتوں کی جانب سے صحت، تعلیم اور دوسرے سماجی شعبوں میں متعارف کروائی جانے والی اصلاحات قصہ ماضی ہوچکی ہیں۔ تامل آبادی کے ریاستی قتل عام سے فی الوقت قبرستان جیسا امن تو قائم ہو گیا ہے لیکن مسئلہ دبا ہے، ختم نہیں ہوا۔ ماہندا راجاپاسکا کے متعلق العنان اقتدار اور جارحانہ سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف بغاوت کے جذبات سماج میں پنپ رہے ہیں۔
کانفرنس میں بیٹھے جنوب ایشیا ئی رہنماؤں کو دیکھیں تو ان کو تخلیق کرنے والے سامراجی آقاؤں کا تناظر ذہن کے دریچوں میں گھومنے لگتا ہے ۔برطانوی راج نے سامراجی ڈاکہ زنی اور سرمایہ دارانہ، جاگیردارانہ استحصال کے ڈھانچے کو قائم رکھنے کے لئے اس مقامی حکمران طبقے کی تربیت بڑی محنت اور باریک بینی سے کی تھی۔ تاہم سامراج کے عیار ترین پالیسی سازوں میں سے ایک، ونسٹن چرچل اس مخلوق کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں تھا۔ اس نے بڑی سرد مہری سے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان کو آزادی دی گئی تو یہ بدذات چور اور ٹھگ اقتدار میں آجائیں گے۔ یہاں کے حکمران گھٹیا اور ناقابل اعتبار ہوں گے۔ ان کی زبانیں میٹھی اور دل مکار ہوں گے۔ یہ آپس میں لڑتے رہیں گے اور ہندوستان(برصغیر) اس سیاسی تکرار میں غرق ہو جائے گا۔ ایک دن آئے گا جب اس خطے میں پانی اور ہوا پر بھی ٹیکس لگ جائے گا۔‘‘ یہاں کے ٹھگ حکمرانوں نے اس سامراجی ٹھگ کی بات کو بالکل سچ ثابت کیاہے۔
لینن نے اقوام متحدہ کی بانی تنظیم ’’اقوام کی انجمن‘‘ کو چوروں کا باورچی خانہ قرار دیا تھا۔ حکمران طبقے کے ہر علاقائی یا عالمی اتحاد کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ سرمایہ داری کا بحران ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک کے اتحاد ’’یورپی یونین‘‘ کو بھی ڈگمگا رہا ہے۔جنوب ایشیا کی ریاستوں کا پرامن اتحاد اور خوشحالی تو دور کی بات، سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی لاغر سرمایہ داری مستحکم قومی ریاست ہی تشکیل نہیں دے پائی ہے۔یہ حکمران اور ان کا نظام اندر باہر سے گل سڑ چکا ہے۔ خطے کے محنت کش اور نوجوان اس نظام کو انقلاب کے ذریعے اکھاڑ کر ہی جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ مزدور ریاستوں کا یہ رضاکارانہ اتحاد خطے میں امن، ترقی اور خوشحالی کی بنیادی شرط ہے۔

متعلقہ:

غربت میں امن؟

سلسلے یہ ملاقاتوں کے!

برصغیر پاک و ہند کے بحران اور تنازعات

ہندوستان: تبدیلی، کیسی تبدیلی؟

ہندوستان: فریب جلد ٹوٹے گا!

بنگلہ دیش کا خلفشار