[تحریر : جان پیٹر سن، ترجمہ : حسن جان]
ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت عالمی سطح پر ایک بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ نظام اپنی موت آپ مر رہا ہے اور یہ صورتحال ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ملک پر ناگزیر طور پر گہرے سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ فرانسس فوکویاما، جس نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد مشہور زمانہ ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کا اعلان کیا تھا، اب کہتا ہے کہ ’’امریکہ دیگر جمہوری سیاسی نظاموں کی نسبت زیادہ سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔‘‘ سادہ لفظوں میں سرمایہ داری اور اس کے ادارے سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
موجودہ سیاست سے بیزاری کی وجہ سے امریکہ کے 2014ء کے وسط مدتی انتخابات میں64.3 فیصد لوگوں نے رائے دہی میں حصہ ہی نہیں لیا جس کا نتیجہ ریپبلکن پارٹی کی جیت کی صورت میں برآمد ہوا۔ ’’مشتعل رائے دہندگان کے لیے واشنگٹن سب سے زیادہ شکست خوردہ ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں رائے دہندگان کی باتوں سے کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اینگریج کے ایک ہوٹل میں ملازمت کرنے والی37 سالہ ایٹرولیا بائرڈ کہتی ہے کہ ’’میں ایسا محسوس کر رہی ہوں جیسے میں اس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو ان حالات سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ میں اس طبقے سے ہوں جو سخت کام کرنے کے باوجود مشکل سے گزارہ کرتا ہے۔ جیسے کوئی سزا مل رہی ہو۔‘‘ ریڈ اوک فائر ڈیپارٹمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے لئے آنے والا ڈالنیجان ملر کہتا ہے کہ ’’ یہ سب آپس میں لڑنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ ہمیں کچھ نیا کر نے کی ضرورت ہے۔ سب کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ 49 سالہ شاری پزارو، جو فلوریڈا میں ایک ہوٹل ملازمہ ہے، نے بتایا کہ ’’میں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیا ہے لیکن حال یا مستقبل میں حکومت سے کوئی امید نہیں۔ مجھے کچھ پتا نہیں کہ واشنگٹن میں کیا ہورہا ہے۔ لیکن مجھے ایک بات کا پتہ ہے کہ آپ کسی پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے۔ حالات بہت خراب ہیں، قطع نظر اس کے کہ وائٹ ہاؤس میں کون ہے۔‘‘
سیاسی بنیادوں پر ہونے والی حلقہ بندیوں کی وجہ سے ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں میں سے صرف 5 فیصد پر ہر کوئی الیکشن لڑ سکتا تھا۔ 69 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے۔ اس کا مطلب ہے ان امیداواروں کی جیت کا فیصلہ کہ ضلع کے پارٹی الیکشن میں ہی ہوگیا جس میں 20 فیصد سے بھی کم ووٹر حصہ لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں لوگ ووٹ نہیں ڈالتے جبکہ حکومت ایسے سیاست دانوں پر مشتمل ہے جو اربوں ڈالر خرچ کر کے 10 فیصد سے بھی کم ووٹوں سے منتخب ہوجاتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ کروڑ پتیوں سے بھری نگریس کی عوامی حمایت اتنی ہی محدود ہے۔ اس مسخ شدہ جمہوریت سے نفرت کا ہی نتیجہ ہے کہ تیس سال سے کم عمر کے صرف 13 فیصد رائے دہندگان نے ووٹ دیئے۔
نام نہاد ’’کم تر برائی ‘‘ کی حکمت عملی بکھر کر ایک کھوکھلا افسانہ بن چکی ہے۔ ’’عظیم تر برائی‘‘ (ریپبلکن پارٹی) اب اقتدار میں ہے اور امریکی محنت کشوں پر حملے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اپنی شکست کے بعد صدر اوباما نے فوری طور پر نئے سیاسی سیٹ اپ میں مصالحت اور تعاون کے ساتھ کام کر نے کا اعادہ کیا۔ اس کا پہلا کام عراق جنگ کے لیے 5.6 ارب ڈالر کی نئی درخواست تھی، ایک ایسی جنگ جسے ختم کرنے کے نعرے پر اوباما نے 2008ء میں ووٹ لئے تھے۔ اس سال کے شروع میں صدر نے دو جماعتوں کی اس قانون سازی پر دستخط کر دیئے جس کی رو سے غریب ترین خاندانوں کو ملنے والی غذائی امداد میں 8.7 ارب ڈالر کی کٹوتی کی گئی۔ امیگریشن سے متعلق اس کا منصوبہ جارج بش کے مزدور دشمن اور مہاجر دشمن قانون سے زیادہ مختلف نہیں۔ تو سوال یہ ہے ریپبلکن پارٹی کی ’’زیادہ برائی‘‘ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ’’کم تر برائی‘‘ میں فرق آخر کیا ہے؟ دونوں صورتوں میں امیر جیتیں گے اور غریب ہاریں گے۔
تجزیہ نگاروں کے دعوؤں کے بر عکس وسط مدتی انتخابات کے نتائج ہرگز امریکی عوام کے دائیں بازو کی طرف رجحان کی غمازی نہیں کرتے۔ کم سے کم تنخواہ میں اضافے، جنیاتی غذاؤں کی لیبلنگ، منشیات پر قانونی پابندی کے خاتمے، امیروں پر ٹیکس میں اضافے، سرکاری سکولوں کی امداد میں اضافے، ہم جنسوں کی شادی کو قانونی حیثیت دینا، رائے دہندگان کے لئے شناختی کارڈ کی ضرورت جیسے بہت سے مسائل پر ہونے والے عوامی ریفرنڈم کے نتائج ثابت کرتے ہیں امریکی عوام کا جھکاؤ بائیں طرف بڑھا ہے۔ بائیں بازو کے آزاد امید وار وں نے بھی محدود وسائل کے باوجود اچھی کارکردگی دکھائی لیکن واضح عوامی متبادل کی عدم موجودگی میں سیاسی تذبذب کا عمل جاری ہے۔ اس کی تمام تر ذمہ داری موجودہ مزدور قیات پر عائد ہوتی ہے۔ صرف نیشنل ایجوکیشن ایسو سی ایشن نے 2014ء کے وسط مدتی انتخابات کی مہم میں 60 ملین ڈالر اڑادیئے اور دونوں پارٹیوں سے بدلے میں اسے مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ وسیع وسائل قومی سطح پر محنت کشوں کی اپنی سیاسی پارٹی کی بنیاد ڈالنے کے لیے استعمال کئے جاتے۔
دونوں بڑی پارٹیا ں سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کر تی ہیں لیکن آج کل ریپبلکن پارٹی امریکی حکمرانوں کا چشم و چراغ ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی سرمایہ داروں کے ’’بائیں پاؤں کا سیاسی جوتا‘‘ ہے جس کا مقصدمحنت کش طبقے اور نوجوانوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ سیاسی افق پر ’’بائیں بازو‘‘ کا نعم البدل بھی ہے۔ اگر 2014ء میں وال سٹریٹ کی جانب سے سیاست پر خرچ کی گئی رقم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے اپنی مالیاتی وفاداری ریپبلکن پارٹی کی طرف منتقل کی ہے، اگرچہ طاقت ور ڈیموکریٹس کی جیبوں میں موٹی رقم ڈالنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔
دو سال پہلے ’’ٹی پارٹی‘‘ والوں نے ریپبلکن پارٹی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا (’’ٹی پارٹی‘‘ ایک انتہائی دائیں بازو کا قدامت پرست رجحان ہے جو ریپبلکن پارٹی میں بھی موجود ہے)۔ ریپبلکن پارٹی اس حد تک دائیں طرف چلی گئی کہ اس کے اپنے حمایتی متنفر ہونے لگے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ریپبلکن پارٹی مستقل طور پر دوسری پوزیشن پر رہے گی لیکن اُس وقت سے اب تک انہوں نے بہت سے انتہائی دائیں بازو کے لوگوں کو لگا م دی ہے اور ’’معتدل‘‘ امیدواروں کو سامنے لائے ہیں جو ماحولیات، امیگریشن اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے زبانی جمع خرچ کرنا جانتے ہیں۔ یہ 2014ء میں ان کی فتح کا ’’راز‘‘ ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی مزدور دوست ہونے کی جذباتی نعرہ بازی پچھلے چھ سال میں ہوا ہو چکی ہیں اور ان کی حمایت مسلسل سکڑ رہی ہے۔ سرمایہ داروں کو بھی اپنے نظام کے لیے جارح اور وفادار محافظین کی ضرورت ہے جو کہ ریپبلکن پارٹی ہی فراہم کر سکتی ہے۔ اس کے باوجود جب تک ایک محنت کشوں کی متبادل سیاسی قوت تعمیر نہیں ہو تی ہم ان دو جماعتوں کی مستقبل کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ مختلف امکانات ابھر سکتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ 2002ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کو مردہ تصور کیا گیا تھا اور بہت سے لوگوں نے 2006ء، 2008ء حتیٰ کہ 2012ء میں ریپبلکن پارٹی کے بارے میں بھی یہی کہا تھا۔
ریپبلکن پارٹی کی حالیہ جیت سے جو تجربہ عوام کو ہوگا اس کے رد عمل میں ممکن ہے کہ 2016ء کے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن جیت جائے۔ لیکن اگر وہ اپنے مصنوعی پاپولزم کو چھوڑ کر حالیہ وسط مدتی انتخابات سے غلط نتیجہ اخذ کرتے ہوئے مزید دائیں جانب جھک جاتی ہے تو ممکن ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی جیت کا سلسلہ جاری رہے۔ جو بھی ہو، موجودہ دو جماعتی نظام کی تاریخی میعاد بہت محدود ہے۔ ان دونوں کے بیچ یہ تماشا زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ عوامی غلط فہمیوں اور جوش و ولولے کے دن گزر چکے ہیں جس کے نتیجے میں 2006ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کو کانگریس میں اکثریت اور باراک اوباما کو 2008ء میں صدارت ملی تھی۔
ایک بیمار اور مرتے ہوئے نظام کے نمائندے دور اندیش رہنما پیدا نہیں کر سکتے۔ ہم امریکی سماج کی بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کے ایک نئے مرحلے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ پولرازیشن ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے درمیان نہیں، جو میڈیا ہمیں دکھانے کی کوشش کرتا ہے، بلکہ طبقات کے درمیان ہے۔ مستقبل میں محنت کشوں کو ایک جامد اور زوال پزیر معیشت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ٹریڈ یونینوں کی بنیاد پر مزدوروں کی ایک لیبر پارٹی کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ منظم مزدوروں کی حمایت کے بغیر ڈیموکریٹک پارٹی زندہ نہیں رہ سکتی، اسے آخری دھکا دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس طرح کا قدم ایک سیاسی زلزلہ ہوگا۔ ٹریڈ یونینوں کے ایک بڑے حصے کی بنیاد پر قائم ہونے والی عوامی سیاسی پارٹی محنت کشوں کو آزاد کرے گی اور وہ اس قابل ہوں گے کہ مالکان کے ساتھ خود نمٹ سکیں۔ محنت کش طبقہ صرف اپنی تنظیم، طاقت اور وسائل پر انحصار کر سکتا ہے۔
ریپبلکن پارٹی کے پاس زیادہ سخت کٹوتیوں کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے اور ان کی رعونت کو بڑھتی ہوئی مزاحمت کا سامنا کر نا پڑے گا۔ پہلے ہی طلبہ نے دائیں بازو کے سکول بورڈز اور کٹوتیوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاج منظم کئے ہیں۔ مزدوروں کی ہڑتالوں کی تعداد تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے لیکن ہمیں سطحی اور ظاہری کیفیت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ سطح کے نیچے طبقاتی کشمکش پک رہی ہے اور دھماکہ خیز انداز میں تب پھٹے گی جب ہمیں اس کی بہت کم توقع ہوگی۔
سٹاک مارکیٹ کی بڑھوتری کے باوجود زیادہ تر لوگ یہی محسوس کر تے ہیں کہ معیشت کبھی بحران سے نکلی ہی نہیں۔ متوسط آمدنی والے خاندانوں کا معیار زندگی اب 1995ء کی سطح پر کھڑاہے اور غریبوں کے لئے حالات اس سے بھی بد تر ہیں۔ اگرچہ سرکاری بے روزگاری قبل از بحران کی سطح پر ہے لیکن لاکھوں اب بھی بے روزگار اور نیم بے روزگار ہیں اور اجرتوں میں اضافہ مشکل سے ہی افراط زر سے ہم آہنگ ہے۔ IHS کے چیف اکانومسٹ ڈوہیندلز کے مطابق ’’اصل مسئلہ ملازمت نہیں بلکہ اچھی ملازمت ہے اور پہلے سے موجود ملازموں کے لیے اچھی تنخواہیں ہیں۔‘‘ جلد یا بدیر ایک اور زوال آئے گا جو سرمایہ داری کے اندر ناگزیر عمل ہے۔
آنے والے سالوں میں امریکی سیاست میں مزید عدم استحکام کے امکانات ہیں جس سے مارکسسٹوں کے لیے مزدوروں اور نوجوانوں کو اپنے تناظر کی طرف جیتنے کے لامحدود امکانات پیدا ہوں گے۔ اقتدار کے ایوانوں میں معاملات میں جتنا بگاڑ پیدا ہوگا اتنی ہی امریکی مزدوروں اور نوجوانوں میں نئے راستے کی تڑپ بڑھے گی۔ وہ اپنی سیاسی اور معاشی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی طرف بڑھیں گے اور تاریخ کے میدان میں اس جوش اور جرات سے اتریں گے جو 1930ء کے بعد کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس عمل میں شاید کئی مہینے یا کئی سال لگیں لیکن جب امریکی محنت کش طبقہ طبقاتی جد وجہد اور انقلاب کے راستے پر چلے گا تو پورے سیارے کو جھنجھوڑ دے گا۔
متعلقہ: