تحریر: عمر شاہد
مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں واضح کیا تھا کہ’تمام انسانی تاریخ ماسوائے قدیم کمیون کے ، طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے‘۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اولین طبقاتی معاشروں سے لے کر موجودہ عہد کے سرمایہ دارانہ نظام تک کی بنیاد ظلم و استحصال پر رکھی گئی ہے۔ غلام داری سماج میں سپارٹیکس کی تحریک سے لے کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اٹھنے والے انقلابات اس سچائی کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں کہ جب تک طبقات موجود رہیں گے ، طبقاتی جدوجہد جاری رہے گی۔ مارکسی استادوں کی تحریروں کی روشنی میں یہ عیاں ہے کہ ماضی کے نظاموں کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کو صرف ایک شعوری جدوجہد کے ذریعے ہی اکھاڑ پھینکا جا سکتا ہے۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ عوام کسی انقلابی قیادت کی تشکیل کا انتظار کئے بغیر ہی خودرو (Spontaneous) طریقوں سے تحریکوں کا آغاز کرتے ہیں اور ان میں سے کئی تحریکیں پورے نظا م کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیتی ہیں۔ ہیگل نے واضح کیا تھا کہ کوئی بھی حادثہ ایک لمبے عرصے سے موجود ضرورت کا ہی اظہار ہو تا ہے۔ تحریکیں ایک دم نہیں اُبھرتیں بلکہ ان کے پیچھے کئی محرومیاں، مظالم اور مجبوریاں ہوتی ہیں۔ خود رو تحریکیں سائنسی طور پر گھٹن زدہ ماحول سے آتش فشاں کے لاوے کی طرح نکلتی ہیں۔ اس لاوے کو پکتے ہوئے عشرے لگتے ہیں۔ لہٰذا تاریخ سکھاتی ہے کہ عوام اپنے حالات زندگی کو بدلنے کے لئے بغیر کسی خاص منصوبہ بندی کے تاریخ کے میدان میں نکل آتے ہیں اور اس دوران وہ نظام کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران وہ نظام کی تلخ حقیقتوں کا ادراک حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اس عوامی ابھار کو روزا لکسمبرگ نے ’ لا شعور کا شعور سے پہلے میدان میں آنا‘ سے تعبیر کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ یہ تحریکیں اس عمل کا موجب بنتی ہیں جس میں محنت کش عوام اپنے حالات زندگی کی وجوہات سے آگاہی، مخالف قوتوں کی اصلیت اور اپنی حقیقی قوت کا ادراک حاصل کرتے ہوئے ’اپنے لئے طبقہ‘ کے طور پر تاریخ کے میدان میں سامنے آتے ہیں۔ روس میں محنت کشوں کی اولین بغاوتوں میں انہوں نے مشینوں اور کارخانوں کو بلا ارادہ تباہ و برباد کردینے کے عمل کو بھی شعور کی خام حالت قرار دیا۔ لینن نے اپنی تصنیف ’کیا کیا جائے؟‘ میں ان بغاوتوں پر لکھا کہ ’’خو درو عنصر اصلیت میں شعور کی خام صورت سے زیادہ یا کم کسی اور چیز کو ظاہر نہیں کرتا۔ ابتدائی دور کی بغاوتیں بھی ایک حد تک شعور کی بیداری کا اظہار کیا کرتی تھیں۔ اس نظام کے مستقل ہونے پر محنت کشوں کا مدتوں پرانا اعتقاد ختم ہونے لگ گیا تھا۔ ‘‘ خودرو تحریکیں یا عوام کی ’غیر ارادیت‘ مارکسزم میں بنیادی سوال کی حیثیت رکھتی ہے۔ مارکسسٹوں نے ہمیشہ عوام بالخصوص محنت کش طبقے کی جانب سے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے عمل کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بیان کیا ہے آخری تجزئیے میں محنت کشوں کی نجات کا فریضہ پھر انہی کے کاندھوں پر ہی عائد ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں عوامی بغاوتیں مظلوموں کی جانب سے مزاحمت جبکہ محنت کشوں کی باقاعدہ ہڑتالیں طبقاتی جدوجہد کے ابھار کی ابتدائی صورتوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لینن نے ہڑتالوں کو ’طبقاتی جنگ کاسکول‘ قرار دیا تھا۔ ہڑتال کے آغاز میں محنت کش اکثریہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ وہ کن دور رس اہداف کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ اپنے اقدام کے محرکات کے شعوری ادراک سے نابلد، وہ مشینیں اور کارخانے تباہ کرنے جیسے اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔ وہ مِل مالکان کے روبرو محض اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس گہرے اِدراک کے بِنا کہ ان کے حالات مروجہ نظام کے تضادات کے تحت کیسے اور کیوں کسمپرسی کا شکار ہیں۔ لیکن وہ ناقابل برداشت حالات سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی مشترکہ طاقت کو آزماتے ہیں۔ لیکن ہڑتال کے عمل کے دوران ان کا شعور بلند ہوتا ہے اور ان پر مالک کے ظلم سے لیکر ریاست کے کردار اور نظام کے استحصال تک سب واضح ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح دوسری نوعیت کی بغاوتوں میں مظلوموں کی جانب سے مزاحمت بھی رفتہ رفتہ صورتحال کا ادراک حاصل کرتے ہوئے پورے نظام کو چیلنج کرنے لگ جاتی ہے۔ ان کے سامنے ریاستی اداروں کی پرفریب حرکات واضح ہوتی ہیں جس کے بعد وہ بخوبی اس جمہوری ڈھونگ کو سمجھ جاتے ہیں۔ مارکس نے لکھا تھا کہ ’’انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ انقلابات مظلوم اور استحصال زدہ عوام کے تہوار ہوتے ہیں۔ دیگر مواقع کے برعکس صرف انقلا ب کے وقت عوام نئے سماج کے تخلیق کار کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ ان اوقات میں عوام کئی طرح کے معجزے کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔‘‘
تاہم انارکسٹوں کے برعکس مارکسسٹ‘ عوام کی ’خود روی‘ کو سرمایہ داری کا تختہ الٹنے اور سوشلزم کو تعمیر کرنے کے واحد عامل کے طور پر نہیں دیکھتے۔ کوئی بھی خود ر و تحریک کئی طرح کے شعوری عناصر سے خالی نہیں ہوتی۔ درحقیقت ہر تحریک میں خودروی اور شعوری عناصر کا ایک امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان تحریکوں کے چلتے محنت کش طبقہ اپنی نئی قیادتیں تراش لاتا ہے۔ یہ قیادتیں عام طور پر ابتدائی مراحل میں کسی مارکسی لائحہ عمل سے لیس ہونے کی بجائے تحریکوں کے زیر اثر ہی حرکت کر رہی ہوتی ہیں۔ عوامی دباؤ ان کو کئی رکاوٹیں عبور کرنے پر مجبور کرتا ہے اور قیادت میں تیزی سے تبدیلیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ خود رو تحریکیں عوام کے ذہنوں کو کھولتی ہیں اور ان کے خوف کو زائل کرتے ہوئے انہیں تاریخ کے میدان میں آگے بڑھاتی چلی جاتی ہیں۔ عام لوگ ایسے کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو خود قیادتوں کے لئے بھی حیران کن ہوتے ہیں۔ عوام کو اپنی حقیقی طاقت کا احساس ہوتا ہو اور تما م تعصبات ، خوف، روایتوں کے بوجھ رفتہ رفتہ گرم لوہے پر پانی کے قطروں کی طرح غائب ہونے لگتے ہیں۔ ٹراٹسکی کے الفاظ میں ’’ایک انقلاب کی تاریخ ہمارے لئے سب سے پہلے عوام کی اپنے مقدر کو بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان میں زور دار داخلے کی تاریخ ہے۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام نے جاگیر داری کے برعکس استحصال کو پوشیدہ کر دیا لیکن خوف ناک حد تک بڑھا بھی دیا۔ اس نظام کے گورکن پھر اسی نظام کے پیداکردہ محنت کش ثابت ہوئے جنہوں نے روز اول سے ہی جبر و استحصال کے خلاف بغاوتوں کا آغاز کر دیا۔ جہاں اس نظام نے دولت کے انبار لگائے وہاں محنت کش طبقے نے اپنے حقوق کے لئے آواز بھی اٹھائی۔ صدیوں کی جدوجہد کے بعد محنت کشوں نے اپنے لئے مراعات حاصل کیں۔ انہی مراعات میں محنت کشوں کی اپنی تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، عوامی سیاسی پارٹیاں بھی وجود میں آئیں۔ لیکن انہی تنظیموں کی اصلاح پسند قیادتیں ایک وقت میں ’سرمائے کی پولیس‘ کا کردار ادا کرنے لگ گئیں۔ سرمایہ داروں کی جانب سے کئی پارٹیاں اور ٹریڈ یونینز بنوائی گئیں تاکہ محنت کشوں کو لگام ڈال کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ ایک وقت میں جو پارٹیاں او ر قیادتیں محنت کشوں کے دفاع کے لئے تھیں وہی پارٹیاں سرمایہ دارانہ ابھار میں عملی طور پر ان کی نجات کے راستے کی بیٹریاں بن گئیں۔ آج اکثر و بیشتر یہ عوامی پارٹیاں اصلاح پسند ی اور بیوروکریٹک ڈھانچوں کی وجہ سے محنت کشوں پر ظلم و استحصال میں اضافے کا سبب بن چکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ سے ان قیادتوں پر محنت کشوں کا اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اپنی قیادت کے اشاروں کا انتظار کئے بغیر ہی محنت کش عوام اپنے طور پر نجات کی تلاش میں سرگرم ہو جاتے ہیں۔ لیکن خود رو تحریکوں کی حدود و قیود ہوتی ہیں۔ اپنے آغاز میں ان تحریکوں کی سب سے بڑی طاقت یعنی عوام کی خود روی ہی ایک وقت میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اسی طرح عام طور پر ابتدائی مراحل میں اصلاح پسند یا پاپولسٹ نوعیت کے لوگ ان تحریکوں کی قیادت میں آ جاتے ہیں۔ ٹراٹسکی نے اپنی کتاب ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں اس مظہر پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور واضح کیا ہے کہ چونکہ شروع میں تحریک خود کئی طرح کے تذبذب اور خوش فہمیوں کا شکار ہوتی ہے لہٰذا اپنی کیفیت کے مطابق ہی قیادت کا انتخاب کرتی ہے۔ جیسا کہ انقلابِ روس کے ابتدائی مراحل میں کیرنسکی اور سریتیلی جیسے بائیں بازو کے پاپولسٹ اور منشویک رہنما نظر آتے ہیں جبکہ بالشویک سوویتوں میں اقلیت میں تھے۔ ایسی قیادتیں بھی تحریک کے راستے کی رکاوٹیں بن جاتی ہیں۔ اسی طرح کھلے دشمن اور مفاد پرست بھی تحریک کی غیر منظم کیفیت سے فائدہ اٹھا کر صفوں میں گھس آتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ تحریکیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں اور اصلاح پسندی کی محدودیت کو جانتی ہیں۔ قیادتیں اور رجحانات تحریک کی چھلنی میں سے گزر کر چھنتے چلے جاتے ہیں۔ اگر انقلابی تنظیمیں درست نعروں، منشور اور لائحہ عمل کیساتھ اپنی صبر آزما مداخلت اور وضاحت جاری رکھیں تو یہ عمل تیز ہو جاتا ہے اور تحریکوں کے زائل ہونے یا کچلے جانے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ لوگ جب اپنے تجربات سے تلخ اسباق سیکھتے ہیں تو ایک وقت میں انقلابیوں کو قیادت کا ملنا نا گزیر ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ موجود ہوں اور انتھک محنت اور تحمل کیساتھ عوام کا اعتماد حاصل کر چکے ہوں۔ لیکن یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا بلکہ تضادات سے بھرپور ہوتا ہے۔ اصلاح پسند قیادتیں کبھی بھی رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ساتھ ہی حکمران طبقات کے جبر کے خلاف بھی تحریک کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ یوں یہ کثیر جہتی لڑائی بن جاتی ہے۔ فروری سے اکتوبر 1917ء تک انقلابِ روس کی تاریخ اسی عمل کی غمازی کرتی ہے جس میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ اور نازک لمحات بھی آئے۔ اگر بالشویک موجود نہیں ہوتے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اگر لینن اور ٹراٹسکی موجود نہ ہوتے تو یہ انقلاب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے برعکس بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ مثلاً پاکستان میں 1968-69ء کا انقلاب، جو ایک انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں پاپولسٹ قیادت کے تحت اصلاح پسندی کا شکار ہو کر زائل ہوا جس کا خمیازہ یہاں کے محنت کش آج تک بھگت رہے ہیں۔
ان کیفیات میں انقلابیوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ جیسے ٹراٹسکی نے ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں لکھا تھا:’’عوام میں جاری سیاسی عوامل کے مطالعے کی بنیاد پر ہی ہم اُن پارٹیوں اور رہنماؤں کا کردار سمجھ سکتے ہیں جنہیں ہم بالکل نظرانداز نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اس عمل میں بہت اہم عنصر ہیں، تاہم آزاد نہیں ہیں۔ ایک انقلابی تنظیم کے بغیر عوام کی توانائی ایسے ہی زائل ہو جاتی ہے جیسے پِسٹن باکس کے بغیر بھاپ اڑ جاتی ہے۔ تاہم چیزوں کو حرکت پِسٹن یا باکس نہیں بلکہ بھاپ دیتی ہے۔ ‘‘ اسی وجہ سے لینن جیسے مارکسی اساتذہ نے ہمیشہ محنت کش طبقے کی روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں شامل ہونے پر زور دیا تھا۔ تحریک کی ابتدائی کمزوریوں کے باعث اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ محنت کش طبقے کی حقیقی نجات صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ سوشلسٹ انقلاب تاریخ کے دھارے کو موڑنے کا عمل ہے جس کا مقصد ایک غیر طبقاتی سماج کا قیام ہے۔ اس کے لئے صرف شعوری جدوجہد ہی بقا کا راستہ ہے۔ خود رو تحریکیں جب انقلابی قیادت کی عدم موجودگی میں کمزور پڑتی ہیں تو اس صورتحال میں ان کی صفوں میں مایوسی پھیلنا شروع ہو جاتی ہے۔ اسی وجہ سے تحریک کے کئی سرگرم افراد بھی اپنی پرانی عادات ، روٹین اور پرانے ’معمول‘ پر لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔
موجودہ عہد میں صرف دو ہی نظریات ہیں: ایک سرمایہ داری اور دوسرا سوشلزم۔ درمیانی راستہ وجود نہیں رکھتا اس لئے کسی قسم کا رنگ برنگا نظریہ محض سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ اور خیر خواہ ہی ہو سکتا ہے۔ خودرو تحریکوں کے فوری مطالبات کے دریاؤ ں کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے سمندر میں اتارنا ہی انقلابیوں کا فریضہ ہے اور یہ فریضہ ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ذریعے ہی ادا ہو سکتا ہے۔