اداریہ جدوجہد:-
8 نومبر کو ہونے والے امریکی صدارت کے انتخابات کی مہم جتنی خلفشارسے بھرپورہے اتنی ہی امریکہ کے عام باسیوں کیلئے بے معنی ہے اور ان کے یاس میں تڑپنے کی عکاسی کرتی ہے۔ امریکہ کی مروجہ سیاست اور خصوصاً صدارتی امیدواروں کے درمیان چناؤ شاید کبھی اتنا مشکل نہیں تھا۔ امریکی حکمرانی کی یہ سیاست آج امریکہ کے محنت کش عوام کو ایک ایسی بند گلی میں لے آئی ہے جس کو مسمار کیے بغیر اب انکے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں رہا۔ مفکر اور بائیں بازو کے مصنف وڈال گور کا امریکہ سیاست کا کئی دہائیوں پیشتر کیا گیا تجزیہ آج کتنا سچ دکھائی دیتا ہے کہ ’’امریکہ کی سیاست پر صرف ایک پارٹی حاوی ہے۔ یہ جائیداد اور دولت کی پارٹی ہے۔ اس پارٹی کے دو دائیں بازو ہیں… ریپبلکن اور ڈیموکریٹس‘‘۔
یہ چناؤ اس لحاظ سے مشکل ہے کہ موجودہ امیدواروں، ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ، میں سے اس بات کا اندازہ لگانا بہت دشوار ہوگیا ہے کہ ان میں سے زیادہ دائیں بازو کی نمائندگی کون کررہا ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ ایک پراپرٹی ٹائیکون ہے جس نے کاروباری سٹے بازی کے ذریعے اربوں ڈالر کمائے ہیں اور اس ہیرا پھیری میں اسے کمال حاصل ہے۔ لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ امریکہ کے اس انتہائی امیر سیاستدان سے سرمایہ داری کے حکمران طبقات خوفزدہ ہیں۔ درحقیقت وہ دولت کی دوڑ میں اتنا آگے بڑھ جانا چاہتا ہے کہ ریاستی پابندیوں اور قوانین کی جکڑ توڑ کر دولت کا حصول ہر ضابطے سے آزاد ہو جائے۔ لیکن سرمایہ داری کے سنجیدہ پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں پہلے سے لڑکھڑاتا یہ پورانظام ہی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ موجودہ سیاسی اور ریاستی نظام کو اگرچہ اس نے بائیں کی بجائے دائیں طرف سے چیلنج کیا ہے لیکن امریکہ کے اس نظام سے تنگ عام محنت کشوں اور عوام کے کچھ پسماندہ حصوں میں اس کو حیران کن حمایت حاصل ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس کے بیانات پر سامراجی میڈیا کا ایک منافقانہ واویلا جاری ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور حکمران طبقے کی جانب سے ٹرمپ پر عدم اعتماد اور اس کے انتخاب کی صورت ان کے نظام کے درہم برہم ہونے کے خوف کا واضح اظہار اس وقت ہوتا ہے کہ جب ٹرمپ سے متعلق رائے عامہ کے تجزیوں میں زیادہ پوائنٹ سامنے آتے ہیں تو امریکہ کی مالیاتی منڈیاں گرنے لگتی ہیں۔ اس کی جنسی ہوس کے سرعام مظاہروں اور ہسپانوی اور سیاہ فاموں کے بارے میں برملا اظہارِ نفرت کی مخالفت امریکی حکمران طبقے کے نمائندے محض اپنی اس منافقانہ اخلاقیات کا بھرم بچانے کے لئے کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے اپنے کردار اور افکار اندر سے ٹرمپ سے مختلف نہیں ہیں۔
دوسری جانب ہیلری کلنٹن امریکہ اور عالمی بورژوازی کی صدارتی امیدوار ہے۔ وہ اس نظام کو چلانے اور بچانے کی پالیسی پرساری مہم چلا رہی ہے۔ لیکن امریکی اجارہ داریوں کے اربوں ڈالر کی حمایت کے عوض اگر وہ جیتتی ہے تو جن سرمایہ دار دھڑوں کی نمائندگی وہ کررہی ہے ان کے مفادات کو جاری رکھنے کے لیے اس کی پالیسیاں معاشی، مالیاتی اور عسکری حوالوں سے کہیں زیادہ جارحانہ، جنگجو اور عوام کے لئے مزید مشکلات کا باعث ہوں گی۔ اگر سنجیدہ معیشت دانوں کے تجزیوں کا غور سے جائزہ لیا جائے تو ان پالیسیوں سے امریکی سامراجی سلطنت کے معاشی اور عسکری زوال کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔
کوئی جیتے یا ہارے، امریکی انتخابات میں جیت وال سٹریٹ کی ہی ہوتی ہے۔ امریکہ کے بدعنوان او ر کرپٹ سیاسی اور انتخابی نظام میں’جمہوریت‘ کا سب سے بڑا فریب چھپا ہوا ہے۔ جو بھی صدر کا چناؤ جیتے گا وہ درحقیقت امریکہ کے عام لوگوں کے ووٹوں کی گنتی سے صدر نہیں بنے گا بلکہ اس کی کامیابی کا فیصلہ تقریباً 538 افراد پر مبنی الیکٹرل کالج کر ے گا جس میں 270 کی حمایت والا یا والی صدارت کا تاج پہنے گی یا پہنے گا۔ یہ سسٹم امریکی نظام سیاست کے دولت مند بانیوں نے ایک تحفظ کے طریقہ کار کے طور پر استوار کیا تھاتاکہ ’جمہوریت‘ اور انتخابات سے کم از کم ان کے اقتدار اور دولت کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
اگرٹرمپ الیکشن جیتتا ہے تو امریکہ میں بربادیاں ہی ہونگی حالانکہ اس نے امریکہ میں عام لوگوں کی صحت اور بیروزگاری کے مسئلے پر ہیلری کی نسبت زیادہ ریاستی اخراجات کرنے کا پروگرام دیا ہے۔ تاہم اتنی سکت نظام میں موجود نہیں ہے جتنے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ اگر ہیلری کامیاب ہوتی ہے تو ٹرمپ سے بھی زیادہ نہ صرف امریکہ کے اندر سرمائے کی معاشی جارحیت بڑھے گی بلکہ افغانستان، عراق، شام اور دوسرے خطوں میں سامراجی جارحیت زیادہ وحشت ناک ہوجائے گی۔
برنی سینڈرز نے سوشلزم کا نام لے کر امریکی معاشرے میں اس لفظ کو دوبارہ مقبولیت دلوائی ہے جہاں چند برس پیشتر سوشلزم کا تذکرہ بھی انتہائی تضحیک آمیز سمجھا جاتا تھا۔ لیکن برنی سینڈرز کوئی مارکسسٹ نہیں تھا۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دھنوانوں کی افسر شاہی سے ٹکرا نہیں سکا اور سبکدوش ہو کر ہیلری کلنٹن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ لیکن جس سرمائے اور لیٹروں کی گلی (وال سٹریٹ) کے خلاف امریکہ کی حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی تحریک ’آکو پائی وال سٹریٹ‘ چلی تھی، اسی وال سٹریٹ نے اب ہیلری کے ذریعے ان محنت کش عوام اور نوجوانوں سے ان کی جرات اور بغاوت کا انتقام لینا ہے۔ اس لیے ہیلری کے جیتنے کے زیادہ امکانات ہیں۔ لیکن جنہوں نے سوشلزم کے نام پر سینڈرز کی حمایت کی، آکو پائی وال سٹریٹ (وال سٹریٹ پر قبضہ کرو) کی تحریک چلائی، ان کے سامنے آج اس جمہوریت کا فریب اور دھوکہ جس قدر آشکار ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ اب جب وہ تحریکیں چلائیں گے تو پھر وہ سارے بندھن توڑ کر آئیں گے، ہر جھوٹے آسرے اور فریب کو مسترد کریں گے۔ امریکہ کا سوشلسٹ انقلاب سارے سیارے کے درخشاں مستقبل کا یقینی ضامن ہوگا۔