[تحریر: قمرالزماں خاں]
عوامی نفرت، بے زاری اور کم ترین مقبولیت کے جس سنگ و میل پر پہنچنے میں آصف علی زرداری اور انکی پاکستان پیپلز پارٹی حکومت نے تین ساڑھے تین سال پاپڑ بیلے تھے اس سنگ میل کو نواز حکومت محض ایک ہفتے میں ہی کراس کرکے الیکشن میں اپنی توقع سے کہیں زیادہ کامیابیوں کے بعد ایک اور ریکارڈ قائم کرگئی ہے۔ حسب توقع ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ عوام پر بم کی طرح گر چکا ہے۔ بجٹ 2013-14ء میں بس سانس لینے پر ٹیکس نہیں لگایا گیا جس کوشائد اگلے بجٹ تک موخر کردیا گیا ہے۔ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’کڑوی گولی‘‘ نگلنے کا مشورے دینے والے حکمران خود میٹھی چیزیں ہی پسند کرتے رہیں گے۔ نواز شریف کے آباؤ اجداد کا سا رتبہ رکھنے والے سابق فوجی آمر ضیاالحق کے جمہوریت پسند صاحب زادے اعجاز الحق نے’’انکشاف‘‘ کیا ہے کہ ’’بجٹ تو آئی ایم ایف نے بنایا تھا اسحاق ڈار نے تو بجٹ کے لکھے ہوئے سکرپٹ کو قبل ازیں پڑھا تک بھی نہیں تھا۔‘‘ جب کہ اسحاق ڈار نے بجٹ تقریر سے قبل ایک ٹیلی وژن پروگرام میں فرمایا کہ ’’ پاکستان میں کوئی سوشلسٹ نظام نہیں ہے کہ ہم اعلان کریں گے اور عوام کو سہولیات مہیا ہوجائیں۔‘‘ یہ ایک تاریخی اعتراف ہے، سوشلزم کو اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے مارکیٹ اکانومی کے کسی چارٹر اکاؤنٹنٹ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت تونہیں ہے مگراس جملے کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ حکمرانوں کے موجودہ نظام معیشت میں عوامی سہولیات کی فراہمی ثانوی اور دشوارمعاملہ ہے۔ نام نہاد معاشی ماہرین کہلوانے والے اکاؤنٹنٹس اور کلرک صاحبان کی جمع تفریق سے بننے والا موجودہ بجٹ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے زندہ سماج کے لئے مردہ اعداد وشمار کا گورکھ دھندہ ہے جس میں بھول کر بھی عام لوگوں کی خوشیوں اور راحتوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ کی حکومت کے پہلے بجٹ میں بھاری بھرکم اور غیر ضروری ٹیکسیشن کے بعد حاصل ہونے والی کل رقم کا تخمینہ سولہ سو ارب روپے کے قریب ہے جبکہ یہ رقم سامراجی بنکوں کے سود اور اقساط کی ادائیگی اور پاک فوج کے لئے مختص رقم سے بھی دو سو ارب روپے کم ہے، اسی سے اس بجٹ کے توازن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کل آمدنی چوبیس سوارب روپے اور اخراجات کا ابتدائی تخمینہ چھتیس سوا رب روپے ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی تمام حکومتوں کے بجٹ ’’فارمولہ‘‘ ٹائپ ہوتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ بجٹ دستاویزات میں تجویز کردہ بارہ سو ارب روپے کے خسارے کی خطیر رقم کا حصول ناگزیر طور پر پھر قرضوں اور ناپسندیدہ ذرائع کی مرہون منت ہوگیا۔ مکمل بجٹ پرمفصل بات تو بعد کی بات ہے مگر دو انتہائی دلچسپ موضوعات توجہ طلب ہیں۔ ایک تو مختلف شعبوں میں 240 روپے کی خطیر سبسڈی دئیے جانے کا تذکرہ ہے جس میں بجلی، کھاد اور غربت میں تخفیف کا رسوائے زمانہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کھاد کی بوری کتنے کی بنتی ہے اور کسان کو کتنے روپے کی ملتی ہے؟قدرتی گیس اور پانی سے بننے والی یوریا کھاد کی پچاس کلوگرام کی ایک بوری مینجمنٹ اور بورڈ آف ڈائریکٹر ز کی تمام تر عیاشیوں کے بعد بھی سوروپے سے زیادہ لاگت میں نہیں بنتی مگر مارکیٹ میں اس کی قیمت اٹھارہ سور وپے ہے۔ کسان کو آخر کس جگہ پر سبسڈی فراہم کی جاتی ہے جو بجٹ میں ایک خطیر رقم اس مقصد کے لئے مختص کی جاتی ہے ؟اسی طرح آٹھ کے قریب ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد صارف کے پاس آنے والے بجلی کے بل پر سبسڈی فراہم کیے جانے کا دعوی کرنا بہت بڑا مذاق ہے۔ سبسڈی کا مطلب ’’رعایتی قیمت‘‘ ہے جو ایک مستحق کے لئے ہوتی ہے، اگر بجلی کی مد میں سبسڈ ی فراہم کی جاتی ہے توپھر’’مستحق‘‘ پر ٹیکسوں کا نفاذ کیوں؟ مسئلہ بجلی کی لاگت پیداوار کا ہے جس کی تفصیلات عوام آج تک ناواقف ہیں کہ ایک یونٹ پچیس پیسے سے لیکر ایک روپے میں بن کر آخر کن کن مراحل سے گزرتا ہے کہ اس کی قیمت یکایک صارف کے لئے 21 روپے ہوجاتی وہ بھی اس طرح کہ اس میں حکومت کی طرف سے 220 ارب روپے کی خطیر رقم سبسڈی کی شکل میں فراہم کی جاتی ہے ورنہ بجلی کا ہر یونٹ کم از کم 30 روپے کا ہوجائے اور عوام کی ایک بڑی تعداد خواہش کے باوجود بجلی استعمال کرنے سے قاصر رہے۔ حکومت کی عوام پر بہت مہربانی ہوگی اگر وہ آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدہ جات اور ان میں درج جملہ شرائط اور بجلی بنانے کے عمل میںآنے والی لاگت کو مشتہر کردے تاکہ عوام کو اس ’’احسان ‘‘ کی حقیقت کا پتا چلے جس کا نام ’’سبسڈی‘‘ رکھا گیا ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں سالانہ بجٹ کے لئے بارہ سو ارب روپے کے خطیر قرض لئے جاتے ہوں وہاں ایک یا دو ہزار روپے غریب خاندانوں کو فراہم کرنے کے نام پر سالانہ پچاس ارب روپے خرچ کرکے غربت میں تخفیف کی توقع کرنا ایسا ہی ہے جیسے سمندر کے کھارے پانی میں چینی کی دو تین بوریاں انڈیل کر پانی کے میٹھا ہونے کی امید کی جائے، چینی بھی ضائع اور پانی بھی کڑوے کا کڑوا۔
نواز حکومت سرمایہ داروں، آڑھتیوں، تاجروں اور اپر مڈل کلاس کے مفادات کی نگہبان ہے یا پھر کالے دھن کے حاملین کی ’خادم اعلیٰ‘، اس سے یہ توقع بھی گناہ ہے کہ ان کے اقتدارمیں اکثریتی محنت کش طبقے کے لئے کوئی پیکج ہوگا یا انکی تنخواہوں اور مراعات میں مہنگائی اور افراط زر کے حساب سے اضافہ ہوگا۔ بجٹ تقریر میں جان بوجھ کر تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنا اور بعد میں ملازمین کے احتجاج پر دس فی صد تنخواہوں میں اضافہ طے شدہ جعلی سازی اور ’’حفاظتی حربہ‘‘ ہے۔ ابھی تو آغاز ہے، آنے والے دنوں میں مہنگائی کے پے درپے وار ہونے پر غربت کی لکیر سے نیچے چونسٹھ فی صد آبادی اور اسکے اوپر والی پرتوں کو دن میں رات کے تارے نظر آجائیں گے۔ پھر نج کاری اور اس سے قبل ’’ری سٹرکچرنگ‘‘ کے کاری وار سے بے روزگاری کے ذریعے لاکھوں افراد کامعاشی قتل کیا جائے گا، تیز رفتارنج کاری کی کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے کہ یا نہیں، لیکن اس سے محنت کشوں کو یکجا ہونے کا موقع ضرور ملے گا جس سے نواز حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاسکتی ہے۔ نواز شریف کے قریبی عزیز اور معاشی دماغ اسحاق ڈار، جن کو چارٹر اکاؤنٹنٹ ہونے کے باوجود ماہر معیشت خیال کیا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ ہم سب کچھ آتے ہی ٹھیک کردیں۔ یہ تعجب خیز بیان ہے۔ کسی کو بھی توقع نہیں کہ دائیں بازو کی قدامت پرست اور اپنے طبقاتی مفادات سے آگے کچھ نہ دیکھنے والی حکومت کے پاس کوئی معجزہ یا طلسمی چھڑی ہے جس سے وہ سب کچھ ٹھیک کردیں گے مگر الیکشن کیمپین میں کئے گئے وعدوں اور دعووں کے ساتھ ساتھ اس بجٹ نے نواز لیگ کے بارے میں یہ تاثر بھی چکنا چور کر دیا ہے کہ تیسری بار یہ ’’گروہ‘‘ خود کو تبدیل کرکے یا تیاری کرکے آیا ہے اور انہوں نے ماضی سے کچھ سیکھا ہے۔ حبیب جالب کی نظموں کو بے ڈھنگے انداز میں پڑھنا اوربے موقع گیت گانے والوں نے بجٹ پر جو بے سرے راگ الاپے ہیں یہ پوری قوم کے سردرد کا باعث بنیں گے۔ ایک دفعہ پھر ثابت ہوگیا ہے کہ سرمایہ داری نظام کے اندررہتے ہوئے ہر بجٹ محنت کش طبقے کو غربت، بے روزگاری، افلاس اور پسماندگی کے علاوہ کچھ نہیں عطا کرسکتا۔ یہ نظام سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے بنا ہے اسی لئے اس کو سرمایہ داری نظام کہا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ دار ہمارے سماج کا محض آدھا فی صد یا اس سے بھی کم ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اکثریتی طبقے یعنی محنت کشوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والا نظام رائج کیا جائے جس کا ہر بجٹ، ہر قدم محنت کش طبقے کی مرضی اور منشا ء سے ہواور انکے طبقاتی مفادات کا مظہر ہو۔ اس کے لئے موجودہ غلیظ اور اجاڑ نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑنا ضروری ہے ورنہ نام نہاد دایاں بازو اور نام نہاد بایاں بازو کہلوانے والی سیاسی جماعتوں میں موجود مافیا ادلا بدلی کی حکومتوں سے لوگوں کی زندگیوں کو تاراج کرتارہے گا۔