[تحریر: لال خان]
سیاسی اشرافیہ کے حالیہ تصادم اور بیہودہ تکرار نے ہمیشہ کی طرح عوام کے سلگتے ہوئے مسائل اور حقیقی ایشوز کو منظر عام سے غائب کر رکھا ہے۔ ’’آزاد‘‘ کارپوریٹ میڈیا پر بلوچستان کا ذکر ویسے بھی ریاست کے طاقتور اور فیصلہ کن اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی بلوچستان انتشار اور سرکشی کا محور و مرکز رہا ہے۔ مسلح بغاوت اور فوجی آپریشن آج بھی جاری ہیں۔ یہ سنگلاخ خطہ درحقیقت پاکستان، ایران اور افغانستان سمیت پورے خطے کے سیاسی وجود پر رستا ہوا زخم بن چکا ہے۔
حال ہی میں توتک میں دریافت ہونے والی ایک اور اجتماعی قبر، کراچی اور بلوچستان میں ملنے والی بلوچ نوجوانوں کی آٹھ سو سے زائد مسخ شدہ لاشیں اور اٹھارہ ہزار لاپتہ افراد کا معاملہ اس نظام اور ریاست کے ساتھ ساتھ چھ سو این جی اوز کی میاں صاحب سے سفارش کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’’ترقی پسند‘‘ صوبائی حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ مفلوج اقتدار پر ڈاکٹر مالک کے براجمان ہونے کے بعد بحران شدید ہو گیا ہے اور حالیہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اسلم رئیسانی کی سابقہ حکومت سے بھی گئی گزری ہے۔ ماضی میں کشمیر اور افغانستان کی طرح اب بلوچستان کو بھی ٹھیکے پر جہادیوں پر سپرد کر دیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ منافرت کے اس منافع بخش کاروبار نے ہزارہ اور شیعہ آبادی سمیت تمام بلوچوں اور پشتونوں کی زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے۔ ایرانی ملا اشرافیہ اور سعودی بادشاہت کے علاوہ بھی کئی علاقائی اور عالمی قوتوں کی بالواسطہ چپقلش اور پراکسی جنگیں جلتی ہوئی آگ میں تیل انڈیل رہی ہیں۔ تاہم بلوچستان کے تجزئیے اور تناظر کو صرف پراکسی جنگ اور فرقہ وارانہ تضادات تک محدود رکھنا درست نہیں ہے۔ بلوچ نوجوان قومی اور طبقاتی استحصال کے خلاف نسل در نسل کی جانے والی انقلابی جدوجہد کی سنہری روایات کے امین ہیں۔ امریکہ، چین، روس اور بھارت جیسے سامراجی گدھ بلوچستان کی لوٹ مار کے لئے ریاست اور قوم پرست قیادت میں شراکت دار ڈھونڈ رہے ہیں۔ طبقاتی جدوجہد اور بین الاقوامیت کے سوالات پر نوجوانوں اور تنگ نظر قوم پرست قیادت میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
گوادر پورٹ، میرانی ڈیم، مکران کوسٹل ہائی وے جیسے منصوبے اور بلوچستان میں موجود ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کی معدنیات نے ان سامراجی طاقتوں کی آپسی ’’گریٹ گیم‘‘ کو پیچیدہ اور شدید تر کر دیا ہے۔ بلوچ عوام میں محرومی اور رنجش کے جذبات کی بڑی وجہ ماضی میں ملکی توانائی کی ضروریات کا ایک تہائی فراہم کرنے والی سوئی گیس کا معاملہ رہا ہے۔ لیکن علاقے میں معدنیات کے حوالے سے لگائے جانے والے نئے تخمینوں نے سامراجی قوتوں کی ہوس اور نتیجے میں ہونے والی خون ریزی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ سینڈک پر قابض چینی کارپوریشن پندرہ ہزار ٹن روزانہ کے حساب سے کچ دھات نکالتی رہی ہے۔ منصوبے کے ریونیو میں صوبائی حکومت کا شیئر صرف دو فیصد تھا۔ کرپٹ معیشت، سیاست اور ریاست میں اس دو فیصد کا کتنا حصہ بلوچ عوام تک پہنچا ہو گا؟ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ معدنیات کی کانکنی کے دوسرے منصوبوں کی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ افغانستان اور ایران کے بارڈر کے نزدیک ریکوڈک فیلڈ میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن خالص تانبے اور دو کروڑ دس لاکھ اونس سونے کی موجودگی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہاں اگر بڑے پیمانے پر کانکنی کا آغاز ہوتا ہے تو پاکستان کا شمار تانبا اور سونا نکالنے والے بڑے ممالک میں ہونے لگے گا۔ معاشی حوالے سے پاکستان اور بلوچستان کے لئے انتہائی فائدہ مند ریکوڈک منصوبہ دو طرفہ کشیدگی اور بلوچ اشرافیہ کے داخلی تضادات کو مزید بھڑکانے کا موجب بھی بنے گا، جیسا کہ سوئی گیس اور گوادر پورٹ کے معاملے میں پہلے ہو چکا ہے۔
بلوچ قوم پرست 1666ء میں قائم ہونے والی ریاست قلات کو تاریخی بلوچ قومی ریاست کا درجہ دیتے ہیں۔ 1830ء کی دہائی میں انگریز اس علاقے میں آئے اور 1839ء سے 1847ء تک انگریز افواج اور بلوچ قبائل کے درمیان کئی خونریز معرکے لڑے گئے۔ 1876ء میں برطانوی عہدہ دار سر رابرٹ سینڈمین اور خان آف قلات نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے قلات کو برطانوی راج کے تحت نیم خود مختیار ریاست کا درجہ حاصل ہوا۔ ریاست پاکستان کی نظر میں ریاست قلات ان درجنوں شاہی ریاستوں (Pricely States)میں سے ایک تھی جو 1947ء کے بعد رضا کارانہ یا غیر رضا کارانہ طور پر پاکستان یا ہندوستان میں ضم ہو گئیں۔ تاہم بلوچ قوم پرست دعویٰ کرتے ہیں قلات کا برطانوی راج سے تعلق نیپال کی طرح تھا جو 1947ء میں ایک آزاد ریاست بن گیا۔
بلوچ عوام گزشتہ چھیاسٹھ سالوں میں چھٹی بارریاست، اسٹیبلشمنٹ نواز سرداروں، بنیاد پرست گروہوں اور بلوچستان کی معدنیات پر منڈلانے والے گدھوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ماضی کی تمام بغاوتیں ایک قبیلے یا قبیلے کے کسی ایک حصے تک محدود رہی ہیں۔ 1940ء اور 50ء کی دہائیوں میں مینگل اور 1970ء کی دہائی میں مری مسلح جدوجہد میں سرگرم تھے۔ اس صورتحال میں ریاست روایتی قبائلی رقابتوں کو استعمال کرتے ہوئے جبر اور رعایات کے آمیزے کے ذریعے ان بغاوتوں کو کچلتی رہی ہے۔
ریاست کی حکمت عملی اس حقیقت سے عیاں ہوتی ہے کہ 2009ء میں بلوچستان صوبائی اسمبلی کے کل 65 ممبران میں سے 62 یا تو صوبائی وزیر تھے یا وزرا کے ہم منصب مشیر۔ اسمبلی کے ہر ممبر کے لئے بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں سے پچاس کروڑ مختص کئے گئے تھے۔ قبائلی قیادت کو شریک اقتدار کرنے کی اس پالیسی کے تحت کل 80 قبائلی سرداروں یا با اثر افراد میں سے سوائے تین کے، باقی سب حکومت کے ساتھ مسلح جدوجہد کے خلاف صف آرا تھے۔ یہ حکمت عملی برطانوی راج سے زیادہ سلطنت روم سے مماثلت رکھتی ہے جہاں چھوٹے قبائی سرداروں کو مقامی عہدہ دار اور طاقتور سرداروں کو رومن سینیٹ کا رکن بنا دیا جاتا تھا۔ یہ سردار اپنے علاقوں سے ٹیکس اکٹھا کر کے ریاست کو دیتے تھے اور ریاستی ریونیو میں سے انہیں حصہ دیا جاتا تھا۔ لیکن دیوہیکل عسکری قوت رکھنے والی سلطنت روم کی ریاستی مشینری انتہائی منظم، قابل اور مستعد تھی۔ اس کے برعکس پاکستانی بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ بدعنوانی اور نااہلی میں اپنی مثال آپ ہے تو دوسری طرف ریاست معاشی طور پر مسلسل زوال پزیر ہے۔
2009ء میں ایک برطانوی صحافی سے بات کرتے ہوئے فوج کا ایک سینئر جرنیل ریاستی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ ’’یہاں کچھ بھی سیدھا اور واضح نہیں ہے۔ آپ کو ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا کے اس حصے کو سمجھنے کے لئے آپ کو ذرا دغا باز ہونا پڑتا ہے۔ آپ کو اپنے دشمنوں سے بات چیت کے لئے بھی ہمیشہ تیار رہنا پڑتا ہے، کیا پتا کل وہ اپنی وفاداری بدل کر آپ کے دوست ہو جائیں۔ امریکی ابھی تک افغانستان میں یہ بات نہیں سمجھے ہیں۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ میں آپ کو بہت سے قوم پرست سیاست دان ملیں گے جنہوں نے ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے لیکن ہم دانستہ طور پر انہیں ہاتھ نہیں لگاتے ہیں۔‘‘
بلوچستان کے عوام اتھاہ محرومی، غربت اور بیروزگاری کی ذلتوں سے دوچار ہیں۔ سب سے زیادہ معدنی زخائر رکھنے والے اس صوبے کے سماجی اعشارئیے سب سے پست ہیں۔ یہاں زندگی ایک سزا سے کم نہیں ہے۔ اصلاحاتی پیکج ہوں یا آئینی ترامیم، بلوچ عوام ان پر فریب اقدامات کو بہت پہلے رد کر چکے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام متروکیت اور بحران کی جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں معمولی اور سطحی اصلاحات کی گنجائش بھی موجود نہیں ہے۔ بلوچستان لسانی طور پر یک جنس خطہ نہیں ہے۔ یہاں بلوچ، پشتون، ہزارہ، پنجابی اور مہاجر تاریخی طور پر ہم آہنگی اور یگانگت سے بستے رہے ہیں لیکن آج سامراجی قوتیں لسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ تعصب اور نفرت کے بیج بو رہی ہیں۔ قومی اور لسانی بنیادوں پر کوئی نجات ممکن نہیں ہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر بلوچستان، پاکستان، جنوب ایشیا اور پوری دنیا کے محنت کش عوام کے ساتھ جوڑ کر ہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے پھوٹنے والے سامراجی استحصال و ریاستی جبر کی زنجیریں توڑی جا سکتی ہیں۔
متعلقہ:
بلوچستان: معافیوں سے بات نہیں بنے گی
فریاد کر کے بھی دیکھ لو
بلوچستان کے گھاؤکب بھریں گے؟
بلوچستان: ظلمتوں میں انقلاب بھی سلگ رہا ہے۔ ۔ ۔
پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟