[تحریر: راہول]
انسانی سماج کے ارتقا سے لیکر اب تک سرمایہ دارانہ نظام کو انسانی سماج کے سب سے ترقی یافتہ دور کا کہا جاتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالاجی سے لیکر Genetics تک تمام تر تحقیقیں اور ان کی حاصلات سرمایہ داری کے اہم کارناموں میں شامل ہیں۔ لیکن یہ بھی اس نظام کا عجیب تضاد ہے کہ آج ایک ایسے جدید دور میں جہاں انسان دوسرے سیاروں کا رخ کرنے کی تیاری میں ہے وہاں وسیع تر انسانیت کی زندگیاں سہل بننے کے بجائے ایسے بنیادی مسائل میں گھری ہوئی ہیں جنہیں پلک جھپکتے حل کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ نظام نے جہاں چند ایک افراد کو دنیا کی آدھی سے زیادہ دولت کا مالک بنا دیا ہے وہاں پوری دنیا کے اربوں لوگوں میں بھوک پل رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مالتھیس کا دو صدیاں قبل پیش کیا گیا نظریہ کہ’’غریبوں کی مدد کرنا ایک غلطی ہے اور اگر فطرت ان کی مدد نہیں کرتی تو انہیں بھوک مرنے دیا جائے ‘‘ آج کے حکمران طبقے نے ایک بار پھر اپنا لیا ہے۔ غربت، بھوک، ننگ، بیروزگاری اور بیماری جیسے بنیادی مسائل سرمایہ داری کے کینسر کی علامات ہیں۔ چونکہ سرمایہ داری آج کرہ عرض پر موجود اکثریتی آبادی کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں رہی ہے اسی لئے مختلف ادوار میں مختلف علامتوں کے شدت اختیار کرنے سے سماج میں کچھ دیر کے لئے ہلچل مچ جاتی ہے۔ پاکستان کا صحرائی علاقہ تھر بھی آج کل اسی قسم کی ہلچل کی وجہ سے پاکستانی اور عالمی میڈیاکی سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے، جہاں 21 ویں صدی کے اس جدید دور میں بھی اس علاقے کے بچے، بوڑھے اور خواتین بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے سرمائے کی دیوی کی بلی چڑھ رہے ہیں۔
تھر سندھ کے جنوب اور مشرق میں ہندوستانی سرحد پر واقع ایک صحرائی علاقہ ہے۔ کچھ سال قبل یہ ضلع پاکستان کے سب سے بڑے اضلاع میں سے ایک تھا لیکن بعد میں اسے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا جس سے میرپور خاص، عمرکوٹ اور تھر پارکر وجود میں آئے۔ میرپور خاص کی ایک علیحدہ تاریخ ہے اور اپنی زرعی خصوصیات کی بنا پر ابھی تک یہ ضلع تھر کے دیگر مسائل سے کچھ بچا ہوا ہے۔ لیکن تھرپارکر اور عمرکوٹ کی کچھ تحصیلوں سے بڑے پیمانے پر بچوں اور مویشیوں کی اموات کی خبریں آجکل اخبارات میں گردش کررہی ہیں۔ مختلف اعدادوشمار پیش کئے جارہے ہیں لیکن محتاط اندازوں کے مطابق 1 تا 5 سال کے 165 سے زائد بچے اب تک بھوک سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ 8 لاکھ سے زیادہ قیمتی مویشی، جن پر اس علاقے کے غریب باسیوں کی زندگیاں منحصر ہیں، ہلاک ہوئے ہیں۔ اس وقت تک 3 لاکھ سے زائد افراد بلواسطہ طور پر موجودہ بحران سے متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی کرچکے ہیں اور ہجرت کا یہ سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔
تھر پارکر کا رقبہ 19 ہزار کلومیٹر ہے جہاں تین ہزار سے زائد دیہاتوں میں 16 لاکھ لوگ تھر کی قدیم روایات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس ضلع کے قرب و جوار میں مٹھی، اسلام کوٹ، ننگر پارکر، چھاچھرو اور ڈیپلوجیسے علاقوں میں ریتلے میدان اور کنوؤں سے پانی نکال کر سروں پر مٹکے اٹھائے ریتیلی زمین پر چلتی عورتیں پسماندہ ترین طرز زندگی کا منظر پیش کرتی ہیں۔ آج بھی سندھ کے مختلف ترقی یافتہ شہروں میں تھر اپنی بھوک اور پیاس کے لئے مشہور ہے۔ لوگ اس بات سے حیران ہونے کے ساتھ ساتھ بہت پریشان بھی ہوتے ہیں کہ آخر یہاں کے لوگ کس طرح اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ انسان اپنے حالات کے مطابق ڈھلنا سیکھ لیتا ہے اور شاید اسی لئے وہاں کے لوگ کسی متبادل کی عدم موجودگی میں ہزاروں سال پرانی روایات میں زندہ رہنے کو ہی زندگی سمجھتے ہیں۔ قدیم ثقافت اور کوئلے کے وسیع زخائر کی وجہ سے جانے جانا والا یہ تھر آج بھوک، غربت اور موت کی نشانی بنا ہوا ہے۔
تھر کا انفراسٹرکچر پاکستان کے باقی علاقوں کے خستہ حال انفراسٹرکچر سے بھی بدتر ہے۔ یہاں سڑکیں، ہسپتال، بجلی، ٹرانسپورٹ، اسکولوں وغیرہ کی تعمیر کا آغاز 1985ء میں سندھ ایرڈ زون اتھارٹی نے کیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے کاغذی تھے جن کا مقصد پسماندگی کے نام پر عالمی طور پر ملنے والی امداد اور قومی خزانے کی لوٹ مار تھا۔ کاغذی منصوبوں اور ’’ترقی‘‘ کے نام پر ہزاروں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور کیا گیا اور تھر میں جانوروں کے لئے موجود چراگاہوں (جہاں مویشیوں کو پالا جاتا ہے) کو تیزی سے ختم کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ جنگلات کو بے دردی سے کاٹا گیا۔ اس نام نہاد ترقی سے یہاں کے لوگوں کو آسودگی تو کیا ملتی الٹا ان کے عذابوں میں اضافہ ہوگیا۔
ویسے تو تھرپارکر یا پاکستان میں موجود تمام تر ایرڈ زون میں سارا سال ہی قحط کا سماں ہوتا ہے لیکن تھر میں موجودہ قحط کے متعلق اس وقت تک کچھ یوں کہا جارہا ہے کہ چونکہ تھرمیں لوگوں کی زندگیوں کا انحصار بارشوں پر ہے اور اسی لئے اگر بارشیں نہ برسیں تو نہ فصل ہوتی ہے، نہ چراہگاہیں ہری ہوتی ہیں اور یوں قحط پڑ جاتا ہے۔ موجودہ خشک سالی کی وجوہات کو بھی اسی قسم کے مسئلوں سے جوڑا جارہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ’’گڈ گورننس‘‘ کے نہ ہونے کی بدولت اس ’’قدرتی آفت‘‘ کا سامنا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خشک سالی کی ’’قدرتی آفت‘‘ میں جتنی بھی اموات واقع ہوئی ہیں وہ تھر کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ہی ہیں۔ کسی ارباب، ملانی، راجپوت، لوہانا اور دوسرے امیر یا سرمایہ دار خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کو کسی قسم کے قحط کا کوئی سامنا کیوں نہیں ہے؟ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دوسرے تمام تر مسائل سمیت آخری تجزیے میں یہ قحط بھی ’’طبقاتی قحط‘‘ ہے۔ مرنے والا غریب ہی ہے۔ تھر میں موجودہ قحط میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ سرمائے کو آنکھ دکھا سکے، سرمایہ دار کے بچوں کا کچھ بگاڑ سکے۔ بارشوں کی کمی سے لیکر پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی تک تھر کے تمام مسائل وہاں بسنے والی غریب عوام کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔
پچھلے چند ایک سالوں کی میڈیا رپورٹوں کو ہی دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ہر دوسرے سال تھرکے لوگوں کو شدید قحط کا سامنا پڑتا رہا ہے لیکن جس چیز کو بڑی ڈھٹائی سے نظرانداز کیا جارہا ہے وہ تھر کے لوگوں کا معاشی استحصال ہے۔ غربت سے بدحال اور مجبور مقامی آبادی کو قرض کی بیہودہ اسکیموں سے معاشی غلام بنایا جارہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تھر کے 90 فیصد سرکاری ملازمین اپنے چیک گروی رکھ کر قرض لے چکے ہیں جبکہ قرض دینے کے اس کاروبار میں این جی اوز اور مختلف چھوٹے بڑے کاروباری حضرات بھی آگے آگے ہیں۔ دوسری طرف جب تھر کے لوگ شہروں کی جانب کمانے نکلتے ہیں تو ان سے انتہائی کم اجرت پر بھاری اور محنت طلب کام لیا جاتا ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں تھر میں ایک ایسا اقلیتی طبقہ پیدا کیا گیا ہے جو مختلف این جی اوز، نام نہاد سول سوسائٹی، بیوروکریسی، سیاسی رہنماؤں اور حکمران طبقے کی دیگر پرتوں کا گماشتہ ہے۔ یہ لوگ سندھ کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر تھر کی پسماندگی کو فروخت کرکے اپنی عیاشی کا سامان کررہے ہیں۔ اس قسم کے بالادست طبقے کے لئے تھر کی موجودہ کیفیت جیسے واقعات بڑی غنیمت ثابت ہوتے ہیں اور وہ لوگ عالمی اداروں سمیت سرکاری امدادوں کے ذزریعے بڑا مال کمانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
آج پاکستان کا تمام تر میڈیا، این جی اوز اور ملک ریاض جیسے ’’سخی لوگ‘‘ تھر کے ریگستان میں ٹھنڈے منرل واٹر، جوس، برگر، چپس اور دیگر چیزوں کے ساتھ مسائل کو ’’حل‘‘ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اپنے کاروبار کو چمکانے اور بڑھانے کے لئے یہ تمام تر حضرات غریب طبقے کی پسماندگی کا نہ صرف مذاق اڑا رہے ہیں بلکہ غریب لوگوں کی غربت پر سیاست کے نئے ریکارڈز قائم کر رہے ہیں۔ امین فہیم اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجودہ تنازعہ بھی اسی تماشے کی ایک کڑی ہے۔ اس وقت تھر میں موجود چار ایم پی اے اور دو ایم این اے کا تعلق پاکستان پیپلزپارٹی سے ہے اور ہر حلقے کی طرح اس حلقے میں بھی نہ صرف چند ایک خاندانوں کا سیاسی غلبہ ہے بلکہ وہ لوگ عوام کا صدیوں سے استحصال کرتے آرہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے اندر حالیہ تنازعہ بدعنوانی کے مال پر جھگڑے اور آنے والے دنوں میں پارٹی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی نشاندہی کررہا ہے۔ خوراک کے وزیروں سمیت کئی وزراء کے استعفوں کا سلسلہ شروع کرکے حکمران طبقہ لوگوں کو مسائل کی بنیادی اور حقیقی وجوہات سے دور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نواز تھر کو ارباب خاندان کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں وفاق کی جانب سے تھر کے مسائل میں اچانک دلچسپی دال میں کچھ کالے کی نشاندہی کررہی ہے۔ اس پس منظر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میاں محمد نواز شریف صاحب کو تھر کے لوگوں کا اچانک خیال کیسے آگیا ہے؟ میڈیا تصویر کا ایک رخ دکھا رہا ہے اورہر تجزیہ کار اپنے مفادات کے مطابق صورتحال کو پیش کررہا ہے۔ حقیقت میں تھر پچھلے کچھ عرصے سے میڈیا کی اہم رپورٹوں کا مرکز رہا ہے اور 31 جنوری 2014ء کو ہونے والے تھر کول پروجیکٹ کے افتتاح کے بعد سے ہی معاشی طور پر دیوالیہ ہمارے حکمران اور ان کے حواری تھر کے کوئلے پر گدھ کی طرح نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ تھر کے موجودہ بحران کو حل کرنے کے لئے نواز شریف کی جانب سے دئے گئے 1 ارب روپے کی رقم وہاں کے مسائل کا ایک فیصد بھی حل نہیں کرسکے گی۔ تھر کی طرف حکمرانوں کا یہ رویہ دراصل یہاں پر موجود قیمتی کوئلے پرمستقبل میں ہونے والی لوٹ مار کی تیاری ہے۔ حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اپنے دانت تیز کررہے ہیں۔ بلوچستان کی معدنیات پر سامراجی پراکسیوں اور مختلف ریاستی دھڑوں کی لڑائی کی طرح تھر میں آنے والے دنوں میں اسی قسم کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ مختلف سامراجی گدھوں نے ابھی سے تھر پر منڈلانا شروع کردیا ہے۔ 170 ارب ٹن کوئلے کے علاوہ تھر کی اس ریگستانی زمین میں گرینائیٹ، چائنا کلی، سنگ مرمر اوردیگر معدنیات بھی موجود ہیں۔ اس وقت تھر میں موجود کوئلے کو نکالنے کاپروجیکٹ سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) کو دے دیا ہے جو کہ چائنا کے اشتراک سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تھر میں کوئلے کے زخائر رقبے کے نصب سے زیادہ حصے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کی حالیہ ’’درد مندی‘‘ دراصل 2000 سے زائد دیہاتوں کے لوگوں کو یہاں سے ’’بھگانے‘‘ کی پہلی چال ہے۔ لیکن یہ لٹے پھٹے لوگ آخر کہاں جائیں گے؟ پاکستانی ریاست میں بھلا ان کے لئے رہائش کا کوئی بہتر متبادل فراہم کرنے کی سکت موجود ہے؟ تھر کے نزدیکی تمام تر بڑے شہر غیر مناسب انفراسٹرکچر اور پسماندگی کا نمونہ ہیں اور بڑھتی ہوئی آبادی سے ان شہروں میں زندگی مزید اجیرن ہوجائے گی۔
ہر آنے والا دن تھر کے باسیوں کے لئے نئے مسائل ساتھ لیکر آتا ہے۔ 1999ء میں کئے گئے آغاخان فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق تھر میں وٹامن اے کی کمی کی وجہ سے بتیس فیصد بچوں کی بینائی متاثر ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ کم و بیش ہر بچہ آئیوڈین، کاربوہائیڈریٹ اور دوسرے غذائی اجراء کی قلت کا شکار ہے۔ ہسپتال، ڈسپنسری کا نام و نشان نہیں ہے۔ شہر کے ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے ہی یہاں کے باسی دم توڑ دیتے ہیں۔ ہر سال ہزاروں مائیں اور نومولود بچے پیدائش کے دوران اپنی جان گنواتے ہیں۔ 6 لاکھ مویشیوں کے لئے صرف 9 وٹنری ڈاکٹر موجود ہیں۔ اس تمام تر محرومی کے باوجود بھی تھر کے عوام صدیوں پرانی انقلابی روایات کے امین ہیں۔ 1835ء میں انگریز سامراج کے خلاف یہاں کے باسیوں کی بغاوت کی عظیم میراث موجود ہے۔
تھر کے مسائل کا حل آج پاکستان کے کروڑوں عوام کے مسائل سے الگ نہیں ہے۔ پاکستان میں ہر روز بھوک اور غذائی قلت 1184 بچوں کی جان لے لیتی ہے۔ ان معصوموں کا قاتل یہ نظام اور اس کو چلانے والے حکمران ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے تھر کے لوگ اپنے ماضی کے انقلابی کرداروں کی طرح جرات اور بہادری سے حکمرانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کریں تاکہ سرحد کے دونوں اطراف موجود غربت، پسماندگی، بیروزگاری، بھوک، ننگ اور اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے برصغیر کی ایک سوشلسٹ فیڈریشن کاقیام عمل میں لایا جائے۔ ایک ایسا سماج تعمیر کیا جائے جہاں بھوک، محرومی اور ذلت ماضی بعید کا قصہ بن جائیں اور انسان حقیقی معنوں میں انسان بن سکے!
متعلقہ:
قحط کے ماروں کا جرم؟