| تحریر: لال خان |
تحریک انصاف کا واپس اسمبلیوں میں جانے کا فیصلہ اتنا حیران کن نہیں ہونا چاہئے۔ نواز شریف کو ہٹانے کی مہم کی ناکامی کے بعد یہ نوشتہ دیوار تھا۔ طاہرالقادری کا ’’انقلاب مارچ‘‘ اور عمران خان کا ’’آزادی مارچ‘‘ شدت اختیار کر جانے والے ریاست کے داخلی تضادات کی پیداوار تھے۔ معاشرے میں جمود کے باوجود بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی بحران کی شدت کی حکمران طبقے میں سرایت ناگزیر ہوتی ہے۔ اس کیس میں ان کی درپردہ لڑائیاں کھلے سیاسی محاذ میں بدل گئیں۔ادھر سے اُدھر بھٹکتے درمیانے طبقے کو بھی اپنا کیتھارسس کرنے کا کچھ موقع ملا جس میں کوئی مواد تھا نہ کوئی ٹھوس نظریہ یا پروگرام۔ حرکت تیز تر تھی لیکن قافلہ ایک قدم آگے بڑھنے سے عاری۔
اس نظام میں سطحی اور کاسمیٹک اصلاحات کے نعرے تھے جس میں ریڈیکل اصلاحات کی گنجائش بھی اب نہیں بچی ہے۔ بنیادی معاشی، اقتصادی و سماجی تبدیلی کی کوئی سوچ تھی، نہ نیت اور حکمت عملی۔ تحریک کم اور تماشا زیادہ تھا۔ تھرل اور سنسنی پر مبنی ’’بریکنگ نیوز‘‘ ہر دوسرے منٹ چلانے والے نیوز چینل بھی حکمرانوں کے اس کھلواڑ کی طرف عوام کی عدم توجہ اور بے نیازی کو نہیں توڑ پائے۔ ان دھرنوں میں محنت کشوں کی زندگی سہل ہونے کی کوئی امید تھی نہ اس جبر و استحصال کے نظام سے نجات کی کوئی راہ اجاگر ہوتی تھی۔
جوش بہت تھا لیکن جذبے سچائی سے محروم۔ارادے بڑے ظاہر کئے گئے، حقیقت بہت چھوٹی تھی۔آغاز بڑا دھواں دار بنایا گیا تھا لیکن انجام شرمناک ہوا۔ پیسہ بہت لگالیکن امیروں کا۔ منزلیں بہت تھیں لیکن بے مقصد۔سہانے خواب بڑے دکھائے گئے، تعبیر جن کی بھیانک تھی۔انتظامات بہت خریدے گئے لیکن ڈسپلن نہ تھا۔ معصومیت سے عاری حسن بھی بہت تھا۔ روغن زیادہ اور رعنائی کم تھی۔ پیٹی بورژوازی کی خواتین اپنے ناز نخرے بھی ساتھ لائی تھیں۔ پیسے کے بلبوتے پر ہونے والے یہ ’’لانگ مارچ‘‘ دھرنوں میں جکڑ کر مقید ہوگئے اور ’’تحریک‘‘ طوالت کا معمولی سا تھپیڑا بھی برداشت نہ پائی۔ ملک کو بند کرنے کے دعوے بہت کئے گئے لیکن محنت کشوں کے ہاتھ رکے نہ ملوں، ٹرینوں اور گاڑیوں کا پہیہ جام ہوا۔ ایک کرپٹ اور کھوکھلے دشمن کو گرانے کی طاقت بھی اس ’’انقلاب‘‘ میں نہیں تھی۔ بہادری اور دلیری کی باتیں بہت ہوئی لیکن کسی کی شہہ اور ’’یقین دہانی‘‘ پر۔ لڑنے مرنے کے نعرے بھی لگتے رہے اور مذاکرات بھی ساتھ ساتھ جاری رہے۔ ایک کے بعد دوسری ڈیڈ لائن دی گئی لیکن پوری ایک بھی نہیں ہوئی۔ بھٹو بننے کا ناٹک بھی رچانے کی کوشش ہوئی لیکن بھٹو کا نظریہ کس کے پاس تھا؟ جو تحریکیں کسی طبقے کی نمائندگی یا نمائندگی کا دعویٰ تک نہ کرتی ہوں ، اس کا کردار کیا ہوسکتا ہے؟ لبرل ازم اور ملائیت کا بھونڈا امتزاج تھا۔ حکمران طبقے کے خونخوار نمائندوں کے بیچ کھڑے ہو کر، ان کی زبان بول کر عوام کو بھلا کیسے دھوکہ دیا جاسکتا ہے؟ یہ لٹے پٹے لوگ اب اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں۔
مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ انقلاب کے نام پر انقلاب کو سبوتاژ کرنے کا کام جن ’’انقلابیوں‘‘ کو سونپا گیا وہ دھاندلی کی بیساکھی پر کھڑی کمزور ترین حکومت کو بھی نہ ہٹا سکے۔ یہ شور مچاتے رہے وہ اندر بیٹھ کر مسکراتے رہے۔ اتنے کائیاں تو اب وہ بھی ہوچکے کہ ریاست اور سیاست کا کھوکھلا پن جانچ سکیں۔ انہیں اگر اپنی کمزوری کا احساس تھا تو اپنے طبقے کے متحارب گروہوں کی کمزوری کا ادراک بھی تھا۔ نواز لیگ کا پرانا وطیرہ ہے کہ معاشرے میں بربادیوں کی انتہا ہی کیوں نہ ہو جائے وہ ’’ترقی ‘‘کے شادیانے بجاتے رہتے ہیں اور ’’جمہوریت‘‘ کی عظمت کے گن گاتے رہتے ہیں۔ اس جمہوریت سے بڑا کوئی اوزار حکمران طبقے کے پاس ہے؟ نہیں!
اس پارلیمنٹ کی جو ساکھ ہے اور عوام کی اس سیاسی اشرافیہ سے نفرت کا جو عالم ہے اس کے پیش نظر حکمران طبقے کے سارے دھڑے ڈر بھی رہے ہیں اور لڑ بھی رہے ہیں۔ لیکن اس لڑائی کو پھر عوام کی بغاوت کو اپنی نورا کشتوں میں الجھانے اور زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں نکال کر یہ عوام کے غصے کو ’’سیفٹی والو‘‘ بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔حکمرانوں کے اس آپسی گالی گلوچ میں بعض اوقات عوام کی بھڑاس نکل بھی جاتی ہے اور اس نظام کو درپیش خطرات وقتی طور پر ٹل جاتے ہیں۔ اس چکر میں اپنے ہی طبقے کے دوسرے دھڑوں کو برا بھلا کہنے اور بے نقاب کرنے والے عارضی مقبولیت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ جمود یا نیم رد انقلاب کے حالات میں چلتا رہتا ہے۔
انقلابات میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کا کردار ان کے معاشی اور سماجی کردار کی بنیاد پر متعین ہوتاہے۔ جو طبقہ اس نظام کا پہیہ گھماتا ہے صرف وہی طبقہ اسے جام کر سکتا ہے۔ محنت کش جب انقلابی تحریک میں ابھرتے ہیں تو بڑھک بازی کرتے ہیں نہ ’’ڈیڈ لائن‘‘ دیتے ہیں۔ ان انقلابی ادوار میں حکومتیں نہیں ریاستیں منہدم ہوتی ہیں، چہرے نہیں نظام بدلتے ہیں۔انقلابی پارٹی کی شکل میں موضوعی عنصر اگر موجود ہو تو ملکیت کے رشتے ہی بدل جاتے ہیں، تاریخ کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔
انقلاب تبھی برپا ہوتے ہیں جب فیکٹری کی مشین اور کمپیوٹر بند ہوتے ہیں، جہاز اڑتا ہے نہ ریل چلتی ہے،حکمرانوں کے ایوانوں کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے اور فون خاموش ہوجاتے ہیں، بندوقوں کے رخ بھی مڑ جاتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اپنی اس معاشی اور سماجی طاقت سے معاشرے کو روک سکتے ہیں تو اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کے لئے انقلابی نظریات، لائحہ عمل اور قیادت درکار ہوتی ہے جو ایک بالشویک پارٹی کے ذریعے ہی فراہم ہوسکتی ہے۔انقلابی پارٹیاں دہائیوں کی محنت اور مستقل مزاجی سے رجعت اور وحشت کی آگ میں تپ تپ کر فولاد بنتی ہیں۔ صبر اور برداشت سے ذلت اور حقارت کے سمندر پار کرنے پڑتے ہیں۔ انقلابی مارکسزم کے نظریات پر عبور اور غیر متزلزل یقین درکار ہوتا ہے۔ یہ صلاحیتیں خداداد نہیں ہوتیں بلکہ انقلابی پارٹی اپنے عمل، تنظیمی ڈھانچوں، طریقہ کار اور نظریات کے ذریعے کیڈرز میں پیدا کرتی ہے۔پرولتاریہ کی انقلابی سیاست کی فیکٹری میں ہی وہ جوہر تیار ہوتے ہیں کہ انقلاب جن کے دل و دماغ، رگ و پے میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔ بظاہر گوشت پوست کہ یہی انسان اس تربیت اور نظریاتی عبور سے وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو عام حالات میں سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔
تحریک انصاف اور ’’انقلاب‘‘؟ سرمائے کی طاقت کے بغیر اس کی سیاست ہی کیا ہے؟ اس گلے سڑے نظام میں کرپشن کے خاتمے کی بات کی جارہی ہے جوچل ہی کرپشن کے سہارے پر رہا ہے؟ کرپشن اس مفلوج سرمایہ داری کی زنگ آلود مشینری کا تیل ہے۔ صنعت سے لے کر زراعت اور سروسز تک، منافع کا حصول بھلا بدعنوانی کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ کلرک یا تھانیدار کے گھر کا چولہا بھلا رشوت کے بغیر چل سکتا ہے؟ سرکاری اعداد و شمار میں درج معیشت سے کہیں بڑی معیشت تو جرائم، منشیات اور کرپشن کے کالے دھن پر مشتمل ہے جو اس ملک کا 73 فیصد روزگار پیدا کرتی ہے اور سرکار ی معیشت اس کالی معیشت کے بغیر ایک دن نہیں چل سکتی ۔ اسی مافیا سرمایہ داری کی بنیاد پر یہاں کی سیاست اور ریاست کا ہر ادارہ کھڑا ہے، یہی کالا دھن عدالتوں سے لے کر الیکشن کمیشن اور ’’جمہوریت‘‘ میں چلتا ہے۔ امید ہے خان صاحب کو سمجھ آگئی ہو گی۔ ویسے اتنی سمجھ بوجھ تو انہیں پہلے بھی تھی بس اوپر والوں نے ان کی ’’ڈیوٹی‘‘ لگا دی گئی تھی لیکن غلط وقت پر غلط کام کا ذمہ لے بیٹھے اور اب بھگت رہے ہیں۔ عوام اتنے بھی بھولے نہیں ہیں۔ وہ ان انقلابوں اور مارچوں میں آئے ہی نہیں۔حکمرانوں کے تماشے میں مڈل کلاس کا ناچ دیکھتے رہے اور عبرت پکڑتے رہے۔ ان محنت کشوں نے بہت دھوکے کھائے ہیں ، ان کی سیاسی روایت اور روایتی قیادت نے ان کے جسم اور روح پر گھاؤ لگائے ہیں، انہوں نے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا ہے۔ وہ اس نظام اور اس کے سیاسی مداریوں کی حقیقت خوب جانتے ہیں۔
حکمرانوں کا یہ سیاسی تماشا بری طرح نامراد ہوا ہے۔ عمران خان واپس اسمبلی آن پہنچا ہے۔ مرزا جواں بخت کے بقول
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!
یہ حکمران سیاست کی بربادی ہے۔ میاں صاحب سے لے کر خان صاحب اور زرداری صاحب سے لے کر مولانا صاحب کو اب محنت کش عوام کی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ان کی باری آئے گی۔ اس مرتبہ یہ تماشا کر سکیں گے نہ تماشائی بن سکیں گے۔ کیونکہ یہ خوداس انقلابی تحریک کا ہدف ہوں گے!
متعلقہ: