ٹیڈ گرانٹ: ان ٹوٹ دھارا

[تحریر: راب سیول، تلخیص و ترجمہ: عمران کامیانہ]
9 جولائی، عالمی مارکسی رجحان کے بانی ٹیڈ گرانٹ کی سوویں سالگرہ کا دن ہے۔ ٹیڈ بلا شبہ ٹراٹسکی کی وفات کے بعد سب سے اہم مارکسی نظریہ دان تھا جس نے اپنی پوری عمر مارکسزم کے نظریات کے دفاع اور ترویج کے لئے وقف کی۔ 70 سال کی سیاسی جدوجہد کے دوران لکھی گئی اس کی ان گنت تحریریں اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جن میں زیادہ تر tedgrant.org پر مل سکتی ہیں۔


1964ء میں ٹیڈ گرانٹ نے کسی دفتر اور فل ٹائمر سٹاف کے بغیرچار صفحات کے ایک ماہانہ رسالے Militant کی بنیاد ڈالی۔ 1972ء تک یہ رسالہ ہفت روزہ بن چکا تھا اور1980ء کی دہائی کے وسط تک Militant Tendency کا نام محنت کشوں کی زبان پر عام تھا۔ اپنے عروج پر Militant کے ہزاروں حامی، 200 فل ٹائمراورپارلیمنٹ میں تین ممبران موجود تھے۔ لیبر پارٹی کا یوتھ ونگ Young Socialists اس کے کنٹرول میں تھا جبکہ ٹریڈ یونین اور مزدور تحریک میں گہرا اثرورسوخ موجود تھا۔ ٹیڈ گرانٹ کی انتھک محنت اور رہنمائی نے اسے ٹراٹسکی کی Left Opposition کے بعد سب سے کامیاب ٹراٹسکائی اسٹ گروپ بنا دیا تھا۔
چوتھی انٹرنیشنل
ٹیڈ گرانٹ کا تعلق جنوبی افریقہ سے تھا لیکن اس نے اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ برطانیہ میں گزارا۔ ٹراٹسکی کے مشورے پر اس نے پہلے ILP اور بعد میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے دوران لیبر پارٹی کے سیاسی دیوالیہ پن کی وجہ سے ٹیڈ نے پہلے ’ورکرز انٹرنیشنل لیگ‘ اور بعد میں ’انقلابی کیمونسٹ پارٹی‘ کی بنیاد ڈالی۔ ٹراٹسکی کی وفات کے بعد چوتھی انٹرنیشنل کے رہنما مثلاً جیمز کینن، پیری فرانک اور ارنسٹ مینڈل نئی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ایک کے بعد دوسری غلطی کر رہے تھے۔ وہ جنگ کے بعد کے معاشی ابھار کو تسلیم کرنے کے بجائے فوری بحران اور انقلاب کا تناظر دے رہے تھے۔

لیون ٹراٹسکی کے نواسے ایسٹبن والکوو کے ساتھ ایک ملاقات۔ تصویر میں ایلن ووڈز بھی نمایاں ہیں

یہ ٹیڈ ہی تھا جس نے وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری عارضی طور پر نہ صرف مستحکم ہوچکی ہے بلکہ یہ معاشی عروج کا عہد ہے۔ اس عروج کی وجوہات کی نشاندہی ٹراٹسکی نے اپنے مضمون ’’کیا اب زوال آئے گا؟‘‘ میں کی تھی جبکہ چوتھی انٹرنیشنل کے نام نہاد رہنما کینشین ازم کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے۔
اسی طرح مشرقی یورپ اور چین میں سٹالن ازم کی فتح کی نشاندہی بھی سب سے پہلے ٹیڈ نے کی تھی جہاں سرمایہ داری کو اکھاڑ کر سٹالنسٹوں نے افسر شاہانہ انداز میں منصوبہ بند معیشت نافذ کی تھی۔ ٹیڈ نے ان ریاستوں کو درست طور پر ’مسخ شدہ مزدور ریاستیں‘ قرار دیا تھا اور پرولتاری بوناپارٹ ازم کے نظریے سے اس کی وضاحت کی تھی جبکہ چوتھی انٹرنیشنل کے رہنما سرمایہ داری اور ریاستی سرمایہ داری کے سوا کسی تیسری چیز سے ناواقف تھے اور مسلسل ایک انتہا سے دوسری انتہا تک جھول رہے تھے۔ تاریخ نے اس عرصے میں ٹیڈ گرانٹ کے تناظر کو سچ ثابت کیا۔
1950ء کی دہائی کے اوائل تک انقلابی کیمونسٹ پارٹی کے انہدام کے بعد ٹیڈ چند ساتھیوں کے ساتھ تنہا رہ چکا تھا۔ معروضی طور پر سرمایہ داری اور سٹالن ازم، دونوں ترقی کر رہے تھے اور یہ ایک مشکل عہد تھا جس میں حقیقی مارکسزم کی مٹھی بھر قوتوں کو دھارے کے مخالف تیرنا پڑ رہا تھا۔ اس عہد میں شاید مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی بھی کوئی بنیادی تبدیلی رونما کرنے سے قاصر ہوتے۔ تاہم ٹیڈ نے ایک ایک کر کے کامریڈوں کو جیتنے کا سست رفتار عمل جاری رکھا اور مارکسزم کے بنیادی نظریات میں ان کی تربیت کی۔

Militant کا ابھار
1970ء میں برطانیہ میں قدامت پرست ٹوری حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد حالات تبدیل ہوئے۔ اس وقت تک ہم اپنی حمایت میں اضافہ کر چکے تھے اور پرنٹنگ پریس خریدنے اور فل ٹائمرز لے کر Militant کو پندرہ روزہ بنانے کے کے قابل تھے۔ قلیل عرصے میں ہی صورتحال بالکل تبدیل ہو گئی اور حکومت کے خلاف ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ٹریڈ نین قیادت دائیں سے بائیں طرف مڑنے پر مجبور ہو چکی تھی۔ ہم صحیح وقت میں صحیح جگہ (لیبر پارٹی) پر موجود تھے۔

جون 1985: ٹائون ہال لیور پول کے سامنے ملیٹنٹ کی ایک ریلی

ٹیڈ ہمیشہ روایتی پارٹیوں اور مزدور تنظیموں کی اہمیت پر زور دیتا تھا۔ مزدور سیاسی طور پر متحرک ہونے کے بعد اپنی روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ہمارا کام عوامی تنظیموں میں مارکسی رجحان قائم کرکے محنت کش طبقے کی تحریک سے مسلسل رابطے میں رہنا تھا۔ اس کے لئے کیڈرز کی تربیت اور مارکسی نظرئے کی اہمیت کلیدی کردار کی حامل تھی۔ ٹیڈ مارکسی نظریات پر غیر متزلزل یقین رکھتا تھا اور ہمیں مارکس ازم کے بنیادی نظریات پر عبور حاصل کرنے کی بار بار تلقین کرتا تھا۔ وہ ہمیں بار بار مارکسی استادوں یعنی مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تحریروں کا مطالعہ کرنے کو کہتا تھا۔ ’’ہمیں کامریڈز کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے‘‘ وہ کہا کرتا تھا ’’نظریے کو مسلسل تراشنا، پھیلانا اور بڑھانا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’جس کے پاس نوجوان ہیں، مستقبل اسی کا ہے‘‘
ٹیڈ نوجوانوں میں کام پر ہمیشہ زور دیتا تھا۔ جن نوجوانوں کی ہم نے مارکسزم کے نظریات میں تربیت کی تھی ان کے ذریعے ہم مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین میں زیادہ عمر کے محنت کشوں کو جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ ٹیڈ کہا کرتا تھا ’’مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات کے لحاظ سے ہمارا رجحان پرانا ہے لیکن اپنی ترکیب میں ہماری تنظیم جوان ہے۔‘‘ اس طریقہ کار کے ذریعے ہم مزدور تحریک میں اپنی حمایت اور بنیادیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ہماراکام بالکل سادہ تھا: ’’مارکسزم کے نظریات کے لئے محنت کش طبقے کی غیرشعور خواہشات اور جذبات کو شعوری شکل دی جائے۔

ٹیڈ گرانٹ اور کامریڈ لال خان

سٹالن ازم کا انہدام
ہماری تحریک کے بنیادی نظریہ دان کی حیثیت سے ٹیڈ نے تناظر پر کئی دستاویز ات تحریر کیں جو ملکی اور عالمی کانفرنسوں میں زیر بحث آئیں۔ سرمایہ دارانہ رد انقلاب کے ذریعے سے سٹالنزم کا انہدام ایک بڑا دھچکا تھاجس پر سوویت یونین کو ’’ریاستی سرمایہ داری‘‘ قرار دینے والے کسی وضاحت سے قاصر تھے۔
’’نجی ملکیت کی بحالی نے ان خواتین و حضرات کو بالکل حیرت زدہ کردیا ہے‘‘ ٹیڈ نے لکھا ’’ان کے پاس صنعت کی نجکاری کا کیا متبادل ہے؟ یہ محض نظریاتی سوال نہیں بلکہ روسی محنت کش طبقے کے مفادات کا سوال ہے۔ فرقہ پرستوں کے لئے ’’نجکاری ایک ثانوی سوال تھا۔‘‘ انہی نظریاتی کمزوریوں کی وجہ سے انہوں نے افغانستان میں امریکی سامراج کی پیداوار بنیاد پرستی اور ہنگری میں سرمایہ داری کی بحالی کی حمایت کی۔ جس چیز کا فیشن ہوتا ہے وہ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ حال ہی میں وہ مصر میں رجعتی اسلامی بنیاد پرستوں کو ’’سامراج مخالف‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ ٹیڈٹراٹسکی کا ایک قول دہرایا کرتا تھا’’ جو اپنے ماضی کے نقطہ نظر کا دفاع نہیں کر سکتے وہ مستقبل میں بھی غلطیاں کریں گے۔ ‘‘

اعتدال پسندی اور حس مزاح
ٹیڈ گرانٹ کہا کرتا تھا کہ روز مرہ کے کام میں ہمیں اعتدال پسندی اور حس مزاح کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اعصابی تناؤ اور غصے کی بجائے مزدور تحریک میں اپنے مخالفین کی طرف بھی ہمارا رویہ دوستانہ ہونا چاہئے۔
لیبر پارٹی کے اندر مستقل مزاجی سے کام کی وجہ سے ہمیں پورے ملک خاص طور پر لیور پول میں کامیابیاں ملیں۔ یہاں عوام کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے ہم لیبر گروپ کو کٹوتیوں اور مہنگائی کے خلاف اور زیادہ نوکریاں، سماجی خدمات اور کم قیمت گھروں کی پالیسی اپنانے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 1983ء میں لیور پول میں لیبر پارٹی کی فتح کا مطلب تھیچر کی حکومت سے براہ راست تصادم تھا۔ اس جدوجہد میں ہم تقریباً 30لیبر کاؤنسلوں کے ساتھ متحدہ فرنٹ میں شامل ہوئے لیکن ایک ایک کر کے وہ سب جھک گئے اور لیور پول تنہا رہ گیا۔
لیور پول اور دوسری جگہوں پر ہماری کامیابی نے دائیں بازو کو Militant کو نشانہ بنانے پر اکسایا۔ ٹیڈ گرانٹ سمیت ادارتی بورڈ کے تمام ارکان کو 1982ء میں لیبر پارٹی سے نکال دیا گیاتھا۔ اب ان حملوں میں اور بھی شدت آگئی۔ جواب میں Militant نے ملک بھر میں ہزاروں لوگوں پر مشتمل عوامی جلسے منعقد کئے۔
بہت تیزی سے پھیلتے ہوئے ایک چھوٹے سے بائیں بازو کے گروہ سے Militant بائیں بازو کی بڑی قوت بن گئی۔ 1987ء میں تھیچر کا دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونا فیصلہ کن موڑ تھا۔ کینوک کی سربراہی میں لیبر پارٹی شکست سے دوچار ہوئی لیکن پیٹ وال، ٹیری فیلڈز اور ڈیو نیلسٹ پہلے کی نسبت زیادہ بڑی اکثریت سے منتخب ہوئے۔ 1989ء میں تھیچر حکومت نے پول ٹیکس لگانے کا اعلان کیاجس کے خلاف ٹیڈ پہلے ہی عوامی مہم کی تجویز دے چکا تھا۔ ہم نے یہ مہم چلائی اور ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیاجس کے باعث تھیچر کو مستعفی ہونا پڑا اور ٹیکس کینسل کر دیا گیا۔

شارٹ کٹ کی تباہی
1980ء کی پوری دہائی کے دوران لیبر پارٹی اور ٹریڈ یونین کا جھکاؤ دائیں جانب رہا جس کی وجہ سے ہمیں مشکلات اٹھانی پڑیں۔ لیکن ٹیڈ کہا کرتا تھا کہ ’’اچھے سپاہ سالار وہ ہوتے ہیں جنہیں بوقت ضرورت پسپائی کا فن آتا ہے، برے سپاہ سالار پسپائی کو ہنگامہ اور ہلچل بنا دیتے ہیں۔‘‘ ٹیڈ کی مخالفت کے باوجود والٹن (لیور پول) میں لیبر پارٹی کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تباہی کا آغاز تھا۔ سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی سے الگ ہوکر اپنی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

لیبر پارٹی سے نکالے جانے کے بعد پارٹی کانفرنس کے دوران اپنے دفاع میں تقریر کرتے ہوئے

الٹرا لیفٹ ازم کے خلاف ہماری جدوجہد کے جواب میں ہمیں Militant سے نکال دیا گیا اور بعد میں اس کا نام سوشلسٹ پارٹی آف انگلینڈ رکھ دیا گیا۔ انہوں نے لیبر پارٹی کو ’’بورژوا پارٹی‘‘ قرار دے دیا اور ٹریڈ یونینز کو اس سے الگ ہوجانے کی اپیل کی۔ ٹیڈ گرانٹ نے جو کچھ سکھایا تھا، کامیابی کے شارٹ کٹ کے چکر میں اسے مسترد کردیا گیا۔ لیکن کامیابی کے ایسے شارٹ کٹ اپناوجود نہیں رکھتے۔ موقع پرستوں نے نظریے کو مسترد کر کے اپنے آپ کو ایکٹوسٹوں کی ایک تنظیم بنا لیا اور ایک کے بعد دوسری مہم جوئی میں مصروف ہوگئے۔نتیجتاً Militant تباہ ہوگئی جس کی پیش گوئی ٹیڈ نے پہلے سے کی تھی۔

ان ٹوٹ دھارا
غیر متزلزل ٹیڈ گرانٹ رکا نہیں بلکہ اس نے سوشلسٹ اپیل اور عالمی مارکسی رجحان (IMT) کی بنیاد ڈالی جس نے ماضی کی شاندار روایات، پروگرام اور حکمت عملی کو محفوظ رکھا۔ ٹیڈ نے ہمیں آنے والے انقلابی واقعات کے لئے تیار کیا لیکن اس نے یہ تنبیہہ بھی کی کہ قیادت کے بحران کے پیش نظر راستہ طویل اور کٹھن ہوگا۔ ’’ہم ایک لمبی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ناگزیر طور پر فتوحات اورناکامیاں دونوں ملیں گی۔‘‘
آج سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران ٹیڈ گرانٹ اور مارکسزم کے نظریات کی سچائی کی گواہی دے رہا ہے۔ آنے والا عہد انقلابات اور رد انقلابات سے بھرپور ہوگا جس کے لئے ہمیں تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر طرف انقلابی حالات پک کر تیار ہورہے ہیں تاہم قیادت کا سوال فیصلہ کن ہے۔ ٹیڈ نے وضاحت کی تھی کہ ’’موضوعی عنصر تاریخ کا سب سے اہم عنصر ہے۔‘‘ ہمارا فریضہ آنے والے واقعات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لئے مارکسزم کی قوتیں تیار کرنا ہے۔
اس مہینے ٹیڈ گرانٹ کی سوویں سالگرہ ہے۔ ہم اسے ٹیڈ کی خواہشات کے مطابق منائیں گے: دنیا بھر میں مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر کا اعادہ کر کے! عالمی مارکسی رجحان کی صفوں میں بہت سے تجربہ کار کیڈر ز موجود ہیں جنہوں نے ٹیڈ گرانٹ کے نظریات اور حکمت عملی کو سیکھا ہے اور انہیں عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔ انہی بنیادوں پر ہم اپنی قوتوں کو مجتمع کریں گے اور عوامی پیمانے پر مارکسی رجحان تعمیر کریں گے جو اقتدار اور طاقت کے حصول کی جانب محنت کش طبقے کی رہنمائی کرتے ہوئے دنیا بھر میں سوشلزم کی تعمیر کرے گا۔