پشاور:’روس؛ انقلاب سے رد انقلاب تک‘ کی تقریب رونمائی

[رپورٹ: کامریڈ نعمان خان]
2 نومبر کو عطاء لیبر ہال پشاور میں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے زیر اہتمام ’’روس: انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ کے دوسرے اردو ایڈیشن کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی کامریڈ لال خان تھے جبکہ ڈاکٹر سرفراز خان، اعجاز خان، مشہور شاعرمرحوم اجمل خٹک کے صاحبزادے ایمل خٹک، عوامی ورکرز پارٹی کے شہابُ الدین خٹک، پختون اوئیرنیس موومنٹ کے شکیل وحیداللہ ایڈوکیٹ اور دیگر ترقی پسند ساتھیوں نے بھی شرکت کی۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز خان نے کتاب کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ ایمل خٹک نے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہورہا کہ آج بھی پشاور میں سوشلسٹ انقلاب کی بات کرنے والے لوگ اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں، آج مجھے اپنے آپ پر فخر محسوس ہورہاہے۔ کامریڈ غفران اور شہابُ الدین خٹک نے بھی کتا ب کے حوالے سے اپنی بات رکھی۔ آخر میں تقریب کے مہمان خصوصی کامریڈ ڈاکٹر لال خان نے انقلاب روس کی تاریخ اور سوویت یونین کے انہدام کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہاکہ ہم ٹیڈ گرانٹ کی اس کتا ب کی رونمائی کی تقریبات ملک کے 43 شہروں میں منعقد کرنے جارہے ہیں اور سلسلے کا آغاز پشاور سے کیا جارہا ہے کیونکہ پشاور کے پڑوس افغانستان میں نور محمد خان ترکئی کی رہنمائی میں انقلاب ثوربرپا ہوا تھا اور اس انقلاب نے پورے جنوبی ایشیا سمیت امریکی سامراج کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ انھوں نے کہاکہ کئی دانشوروں کے مطابق سوشلزم روس میں ناکام ہوچکا ہے لیکن اب 22 سالوں میں ایک نئی نسل نوجوان ہوچکی ہے جسے اس بات کا جواب چاہیے کہ سوویت یونین کیا تھا اور وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے انقلاب روس زوال پزیر ہوا۔
1848ء میں مارکس اور اینگلز نے پہلی مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم بنائی۔ جس کا نام کمیونسٹ لیگ رکھاگیا تھا۔ اور پھر انھوں نے مزید محنت کر کے 16 سال کے بعدایک پارٹی بنائی۔ جسے پہلی انٹرنیشنل کہا جاتا ہے اور 1871 میں دنیا کا پہلا محنت کش طبقے کا انقلاب ہوا جسے پیرس کمیون کہتے ہیں۔ اور اس انقلاب سے یہ ثابت ہو ا کہ محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر سکتا ہے اور حکمرانی کر سکتاہے۔ اور 70 دن بعد ہی اس انقلاب کو خون میں ڈبو دیا۔ مارکس جس نے 34سال کے عرصہ میں جو محنت کش طبقے کی پارٹی بنائی تھی وہ بکھر کر ٹوٹ گئی۔ اس دور میں مارکس اور اینگلز کی بات سننے والا کوئی نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی انھوں نے ہار نہیں مانی اور وہ لکھتے رہے، لکھتے رہے اور نظریے کو فروغ دیتے رہے۔ 1883ء میں مارکس کا انتقا ل ہو گیا۔ 1889ء میں فریڈرک اینگلز نے مزدوروں کی دوسری انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی، مزدوروں کی ملکی یا قومی تنظیمیں نہیں ہوتی۔ کیونکہ مزدور اپنی محنت بیچنے کے لیے لندن بھی جاتا ہے امریکہ بھی جاتا ہے۔ مزدورکو کام کرنے کے لیے دنیا کے کسی خطے میں بھی جانا پڑتا ہے اور اس کی محنت کو بازار میں سر نیلام ہوناپڑتا ہے۔ اس لیے مزدور وں کی انٹرنیشنل تنظیمیں ہوتی ہیں۔ دوسری بین الاقوامی تنظیم جب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور اس میں اپوزیشن کی ایک لیفٹ کی قیادت میں ایک تنظیم ابھری۔ جس میں لینن، ٹراٹسکی اور کچھ دوسرے عظیم رہنما شامل تھے۔ اور انکی قیادت میں 1905ء کی دہائی میں پہلا انقلاب روس ہوا۔ لیکن اس انقلاب کوبھی جلد ہی خون میں ڈبو دیا گیا۔ لیکن لینن کو یقین تھا توسوشلزم کے درست نظریات پر اور اس کی بنیاد پر ہی انھوں نے اس نے اپنی جدوجہد کو متذلزل نہیں ہونے دیا۔
لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں فروری 1917ء میں دوسرا انقلاب کیا۔ اور پھر تیسراعظیم انقلاب اکتوبر 1917ء میں کیا۔ وہ انقلاب جس نے تاریخ کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور دنیا کے حکمران طبقات اس سے لرز کر رہ گئے۔ اورروس میں محنت کشوں نے ذرائع پیداور حکومت پر قبضہ کر لیا۔ اور صر ف 50 سال کے عرصہ میں روس نے بے پنا ہ ترقی کی۔ اور روس ایک پسماندہ ملک سے دنیا کی دوسرے بڑی طاقت گیا۔ اس کیوجہ یہ تھی کہ جب معاشرے میں انسان غربت، تعلیم، روزگار، صحت اور دوسرے بنیادی مسائل سے آزاد ہو، تو انسان آگے کی طرف بڑھتا ہے۔ لینن اس خطے کو USSR کانام دیا۔ اس نے اس میں کہیں پر روس کا نام نہیں ہے۔ کیونکہ لینن کا خیال تھا کہ اگر جرمنی جو کہ یورپ کا دل ہے اس میں انقلاب آجائے تو یہ بھی سویت یونین کا حصہ ہوگا۔ دنیا کے کسی خطے میں بھی انقلاب آتا ہے تو وہ سویت یونین کا حصہ ہو گا۔ اور اگر جرمنی میں انقلاب نہیں آتا تو یہ انقلاب بھی ضائع ہو جائیگا۔
لینن نے انٹرنیشنلزم کی بنیاد پر سوویت یونین میں انقلاب کی تعمیر کی تھی مگر بعد کے وقتوں میں خانہ جنگی اور 21سامراجی ممالک کے ساتھ جنگ میں پارٹی کے تربیت یافتہ کیڈرز کے نقصان نے پارٹی اور ریاستی امور میں پرانے مفاد پرست ٹولے کے گھسنے کی گنجائش پیدا کی۔ 21 جنوری 1924ء کو لینن کی بھی وفا ت ہوئی۔ 1923-24ء کے عرصہ سویت یونین میں ایک افسر شاہی طبقے نے جنم لیا۔ اس عرصہ میں ٹراٹسکی اور دوسرے بالشویک رہنماؤں کو ملک سے جلا وطن کر دیا گیااور انقلاب کی زوال پذیر ی شروع ہوئی۔ اور سٹالنزم کا نظریہ مارکس کے نظریے کے خلاف ایک ملک میں سوشلز م کا نظریہ وجود میں آیا۔ جو کہ مارکس کے نظریے اورلینن کی سوچ کے خلاف تھا۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ابھرنے والء انقلابات اسی سٹالنسٹ نظریے کے تحت ناکام ہوئے، روس میں انقلاب تنہا رہ گیااور اس لیے ہی 1991ء کو سوویت یونین کا انہدام ہوا۔ لیکن اس کی پیش گوئی لینن، ٹراٹسکی اور ٹیڈ گرانٹ نے پہلے ہی کر دی تھی۔
لیکن آج پھر ایک نسل انسانی کی تاریخ پکار رہی ہے۔ بقول کامریڈ ٹیڈگرانٹ کچھ صدیاں یوں ہی گزر جاتی ہیں کہ کوئی خاص واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ لیکن پھر ایک وقت ایساآتا ہے، ایک بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ پورے کرہ ارض کو ہلاکر رکھ دیتاہے۔ دنیا میں اانقلابات پھر انگڑائیاں لے رہے ہیں۔ اس بار اگر کوئی بڑی تحریک 68ء کی طرح ابھرتی ہے تو ہم اس تحریک کو ناکام نہیں ہونے دیں گے اور اس خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھیں گے۔