لاہور: ’’روس: انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘‘ کی تقریبِ رونمائی

[رپورٹ: فرحان گوہر]
16 نومبر کو طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپیئن (PTUDC) کے زیرِ اہتمام مارکسی استاد اور نظریہ دان کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی تصنیف ’’روس: انقلاب سے ردِ انقلاب تک‘‘ کے دوسرے اردو ایڈیشن کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد الحمراء ہال میں کیا گیا۔ تقریب میں مختلف اداروں سے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس تقریب کی صدارت پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپیئن کے انٹرنیشنل سیکرٹری کامریڈ لال خان نے کی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید، سنیئر صحافی خاور نعیم ہاشمی، پیپلز پارٹی کے سابقہ ایم پی اے ذوالفقار گوندل، معروف گلوکار جواد احمد، پیپلز لائرز فورم کے سیکرٹری جنرل الیاس خان، ملاکنڈ سے پیپلز پارٹی کے رہنما کامریڈ غفران احد ایڈووکیٹ، جامپور سے پیپلز پارٹی کے رہنما کامریڈ رؤف لنڈ، کراچی سے PTUDC کے رہنما کامریڈ پارس جان شامل تھے۔ تقریب کا آغاز کامریڈ طاہر شبیر نے انقلابی نظم سنا کر کیاجس کے بعد کامریڈ آفتاب اشرف نے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی تصنیف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بحث کا آغاز کیا۔ مہمانان خصوصی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی یہ کتاب حقیقت میں سوویت یونین کے حوالے سے عام طور پر سماج میں پائے جانے والے خیالات سے بالکل مختلف ہے اور حقیقی معنوں میں ایک سائنسی تحقیق ہے، اس حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے۔ مقررین نے کہا کہ انقلاب کے بعد سوویت یونین میں جو ترقی ہوئی وہ منصوبہ بند معیشت کی آزاد منڈی کی معیشت پر برتری کا ثبوت ہے، لیکن انقلاب کے تنہا رہ جانے، سٹالنسٹ بیوروکریسی کے ابھار اور ایک ملک میں سوشلزم کے غلط نظریے کی وجہ سے سوویت یونین انہدام کا شکار ہوا۔ سوویت یونین کے انہدام سے قبل کوئی بھی سرمایہ دارانہ دانشور سوویت یونین کے انہدام کی پیش گوئی نہیں کر سکا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کی مشروط پیش گوئی خود انقلاب کے قائدین ولادیمیر لینن اور لیون ٹراٹسکی نے کی تھی۔ کامریڈ ٹیڈ گرانٹ بھی ٹراٹسکی کی طرح سٹالن ازم کے خلاف نظریاتی جدوجہد کرتے رہے اور بالشویزم کا پرچم انتہائی مشکل حالات میں بھی بلند رکھا۔ سوویت یونین کے انہدام سے سوشلزم کے خاتمے کا نتیجہ نکالنے والے بالکل ’’موت کسی کی اور ماتم کسی اور کا‘‘ کے مصداق مارکسزم کے نظریات سے مکمل لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔ آج بھی نسل انسانی کو اس کرۂ ارض پر سوشلزم کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اس وقت تھی جب مارکس اور اینگلز کمیونسٹ مینی فیسٹو کے یہ الفاظ تحریر کر رہے تھے کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!‘‘۔
تقریب کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔