[رپورٹ: جنت حسین]
کراچی میں بالشویک انقلاب کی 96 ویں سالگرہ کے موقع پر کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی اہم اور مشہور کتاب ’’روس: انقلاب سے رد انقلاب تک‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہو ئی جسکی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ پروگرام کا آغاز کامریڈ ندیم سبطین نے انقلابی کلام سے کیا۔ اس کے بعد پہلے مقرر PTUDC سندھ کے جنرل سیکرٹری زبیر رحمن نے کتاب کا تعارف اور بالشویک انقلاب پربات کی۔ اس کے بعد PTUDC کے مرکزی چیئر مین ریاض بلوچ نے انقلاب کے دیگر خطوں پر ہونے والے اثرات پر بات کی۔ روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور ماہر معاشیات کا مریڈ نجم الحسن عطا ء نے بھی سرمایہ داری کے بحران اور انقلابی کیفیات کا جائزہ پیش کیا۔ اس کے بعد روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر نذیرلغاری نے کتاب کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔ اور موجودہ بحران کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ پاکستان ٹریڈیونین فیڈریشن کی مرکزی صدر کنیز فاطمہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ٹیڈ گرانٹ کی اس تحریر سے مکمل اتفاق ہے۔ ریاستیں ختم ہونے سے نظریات ختم نہیں ہوتے۔ آج بھی سوشلزم کے بغیر کو ئی حل نہیں اس لئے محنت کشوں کو یکجا ہو کر جدوجہد کرنی پڑی گی۔ پاکستان کے محنت کشوں نے ماضی میں 68-69ء میں یہ ثابت کر کے دکھایا تھا۔ اس کے بعد پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے کتاب کے حوالے سے بات رکھی اور بتایا کہ سوشلزم ایک ملک میں آکر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہمیں جنوبی ایشیا کے اندر مشترکہ جدوجہد کرنی چاہئے جو عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اس کے بعد تقریب کے مہمان خصوصی کامریڈ لال خان نے بالشویک انقلاب کی سالگرہ کی آج کے عہد میں کیا اہمیت ہے اور آج کے عہد میں سرمایہ دارانہ بحران کے تناظر پر بات کی۔ کامریڈ نے بتایا کہ USSR کا انقلاب، روس کا انقلاب نہیں تھا بلکہ یہ طے ہوا تھا کہ جس ملک میں انقلاب آئے گا وہ اس یونین کا حصہ بنتا جائے گا۔ مگر بعد آنے والے حالات نے انقلاب کی روح کو مسخ کر دیا۔ لیکن USSR کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کسی دائیں بازو کے دانشور نے نہیں بلکہ پہلے خود لینن نے پھر ٹراٹسکی نے اور ٹیڈ گرانٹ نے کی تھی۔ مگر آج کا بحران جو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ آج مارکس ازم پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ اس لئے ہمیں محنت کشوں کو انقلابی حالات سے پہلے تیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام ہم مسلسل 32 سالوں سے کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس سچے نظریات ہیں اس لئے ہم کہیں ڈگمگائے نہیں۔ بلکہ صبر کے ساتھ آگے کی طرف سفر جاری رکھے ہو ئے ہیں۔ کامریڈ نے پاکستان کے حالات پر بھی بات کی کہ یہاں پر آمریت، جمہوریت اور مذہبی بنیاد پرستی سب بے نقاب ہو گئے ہیں۔ اب سوشلزم کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ حکمران اس نظام کو سہارا دینے کی ناکام سعی کر رہے ہیں۔ جت تک یہ نظام رہے گا قتل و غارت گری، مہنگائی اور نا انصافی مزید بڑھتی جائے گی۔ اس لئے جتنا جلد ہو سکے اس نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ نسل انسانی کی بقا اسی میں مضمر ہے۔ آخر میں پروگرام کے صدر سحر انصاری نے کتاب کو ایک خوبصورت اضافہ قرار دیا اور کہا کہ نظریات اگر سچے اور درست ہوں تو ریاستوں کے خاتمے سے ان پر کو ئی اثر نہیں پڑتا۔ آج سرمایہ داری کے پاس کو ئی حل نہیں ہے۔ اس لئے سب سر جوڑ کر بیٹھے ہیں مگر اس دائرے کے اندر رہ کر سوچ رہے ہیں جس میں مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس پروگرام کے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض کامریڈ بابر پنہور نے سر انجام دیئے۔ طبقاتی جدوجہد پبلکیشنز کا ایک بک اسٹال بھی لگایا تھا جس میں تقریباً دس ہزار روپے کی سیل بھی ہوئی۔ پروگرام میں شہر بھر کے ٹریڈ یونین رہنماؤں، نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی۔ پروگرام میں اسٹیٹ بینک CBA یونین کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی ساہی، پیپلز ورکر زیونین کے ای ایس سی کے رہنما اور پی پی پی کراچی کے سیکرٹری اطلاعات لطیف مغل، پیپلز ورکرز یونین کے ایم سی کے رہنما منظور بدایونی، پی آئی اے سے شیخ مجید، لیاری سے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر عبدالعزیز میمن اور دیگر شہریوں نے بھرپور شرکت کی۔