تحریر :حارث قدیر:-
کارل مارکس نے اپنی زندگی کے نچوڑ ’’سرمایہ‘‘ میں یہ واضح کر دیا تھا کہ دنیا میں جتنی بھی دولت اور سرمایہ بینکوں میں پڑا ہے یہ سب انسانی محنت کی چوری ہے۔چوری اور لوٹ مار پر مبنی اس نظام کی موت بھی اسی کی تیار کردہ مشینوں اور جدید ٹیکنالوجی سے ہی پیدا ہوگی کہ جب تمام انسانوں کی پیدا کردہ اجناس اور ذرائع پیداوار کی بہتات ہونے کے باوجود کثیر تعداد میں انسانیت ان اجناس کو خریدنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گی اور سرمایہ داری شدید سے شدید بحرانوں کی زد میں گرتی چلی جائے گی۔ آج یہی کچھ ہمیں پوری دنیا میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پوری دنیا میں موجود انسانوں کی ایک بھاری اکثریت پر زندگی گزارنے کے آثار مخدوش ہوتے جارہے ہیں اور سامراجی اجارہ داریاں اپنی لوٹ مار کو پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ مختلف ممالک کی معیشتیں زبوں حالی کا شکار ہوتے ہوئے ممالک دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔ سامراجی اجارہ داریوں کے دباؤ میں اور ملکی قرضوں کو ادا کرنے کیلئے حکمران طبقات محنت کشوں کی اجرتوں اور پنشنوں پر کٹوتیوں اور انہیں دی گئی مختلف حاصلات پر کٹوتیوں کے ذریعے سے سرمایہ پیدا کرتے ہیں اور اپنی عیاشیوں کو جاری رکھتے ہوئے سامراجی اجارہ داریوں سے حاصل کئے گئے قرضوں کو واپس کرتے اور ان سے مزید قرضے بٹورتے ہوئے اس سلسلہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں بھی جہاں براہ راست پاکستانی حکمرانوں جو خود سامراجی دلالی پر مامور پاکستانی عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کا تصرف ہے اور کشمیر کونسل کے نام سے قائم ادارہ جس کے چیئرمین پاکستان کے حاکم اعلیٰ وزیراعظم صاحب خود ہیں کشمیر کے اس چھوٹے سے خطے میں بسنے والے محنت کشوں اور نوجوانوں کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایک ربڑ سٹمپ اسمبلی جس میں مختلف تنخواہ داروں اور لابسٹوں کو نام نہاد جمہوری دور سے گزار کر پہنچایا جاتا ہے بذات خود کوئی بھی فیصلہ اور قانون سازی کرنے سے قاصر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر کونسل کے دباؤ پر اسمبلی کے 48ممبران کے موجود ہونے کے باوجود صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حالیہ دنوں کشمیر کی نام نہاد تحریک آزادی کو جاری رکھنے اور منافع خوری کے ذرائع پیداکرنے کیلئے قائم ایک ادارے کشمیر لبریشن سیل کے نام پر ایک مالیاتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے جو آزاد جموں و کشمیر مالیاتی آرڈیننس 2012ء کہلائے گا۔ آزاد کشمیر کے عبوری ایکٹ 1974ء کی شق 41کے تحت مالیاتی ایکٹ1991ء جس کے تحت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے لبریشن سیل کی مد میں معمولی (دو، پانچ یا دس روپے)کٹوتی کی جاتی تھی میں ترمیم کرتے ہوئے جاری کیا گیا۔ 21مارچ 2012کو صدر آزادکشمیر کے دستخط سے جاری کئے گئے آرڈیننس نمبرLD/legis/83-93/2012کے تحت صدر ، وزیراعظم، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزراء اور مشیران سمیت ممبران اسمبلی اور تمام سرکاری و نیم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے اعشاریہ پانچ فیصد ماہانہ کٹوتی کی جائیگی، لکڑی کے کاروبار پر ایک روپیہ فی سکوائر فٹ، لوڈر گاڑیوں پر دو روپے روڈ ٹول، پراپرٹی کے تبادلے کی رجسٹریشن پر پراپرٹی کی قیمت کے اعشاریہ پچاس فیصد ، پرائیویٹ گاڑیوں پر سالانہ بیس روپے، ہلکی پبلک سروس گاڑیوں پر چالیس روپے سالانہ، لوڈر گاڑیوں پر 80روپے سالانہ، جبکہ موٹر سائیکل کی رجسٹریشن پر بیس روپے، کار اور جیب کی رجسٹریشن پر 100روپے، ہلکی پبلک سروس گاڑی پر 200روپے، لوڈر گاڑی کی رجسٹریشن پر 400روپے، اسلحہ لائسنس پر فی لائسنس پچاس روپے، پاسپورٹ کے اجرا اور تجدیدپر 50اور ارجنٹ اجرا پر 100روپے، رہائشی سات مرلے پلاٹ پر 100روپے فی مرلہ، سات مرلے سے زائد پر پانچ سو روپے اور چھ سو روپے فی مرلہ، انڈسٹریل اور کمرشل پلاٹ پر سات سو روپے فی مرلہ، ٹھیکیداران پر ٹینڈر فروخت کرنے پر 30روپے فی فارم، ان لسٹمنٹ اور تجدید پر 50روپے، کسی بھی سرکاری آسامی پر تعیناتی کیلئے درخواست پر فی درخواست ایک روپیہ، امتحانی داخلہ بھجوانے پر میٹرک کیلئے ایک روپیہ، ایف اے اور ایف ایس سی کیلئے دو روپے، بی اے اور بی ایس سی کیلئے تین روپے، ایم اے اور ایم ایس سی کیلئے پانچ روپے، ڈومیسائل اور پشتنی سرٹیفکیٹ کیلئے پانچ روپے، سوسائٹی کی رجسٹریشن پر پچاس روپے فی رجسٹریشن، کمپنیوں، فیکٹریوں کی رجسٹریشن اور تجدید پر سالانہ تین سو روپے، پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن پر سکول کی رجسٹریشن اور تجدید پر سو روپے جبکہ کالج اور ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کی رجسٹریشن اور تجدید کیلئے دو سو روپے، آزادکشمیر میں بینک کی برانچ کھولنے پر دس ہزار روپے، اور بینک ملازمین کی تنخواہوں پر ماہانہ اعشاریہ پچاس فیصد، ٹھیکیداران اور سپلائرز کے بلات کی ادائیگیوں پر بھی ایک سے ایک ہزار روپے تک لبریشن سیل کی مد میں کٹوتیاں کی جائیں گی۔ متذکرہ بالا ترمیمی آرڈیننس بیس مارچ 2012ء سے لاگو ہو گا جبکہ زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے کشمیر لبریشن سیل کی مد میں کٹوتیاں عمل میں لائی جائیں گی جبکہ سرکاری ملازمین کو یہ کٹوتیاں دہرے انداز میں ادا کرنی پڑیں گی۔ قابل ذکر فعل یہ ہے کہ بیس مارچ سے جاری کئے گئے اس آرڈیننس کو کسی بھی حوالہ سے میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی بجائے نوٹیفکیشن اور آرڈیننس کو سرکاری دفاتر اور متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا ہے، جبکہ تاحال ملازمین صرف اور صرف اس کو اپنے اوپر ہی لاگو تصور کر رہے ہیں ، پرائیویٹ شعبہ جات سے منسلک افراد اس بارے میں یکسر لاعلم ہیں کہ یہ کٹوتیاں کس کس سطح تک کی جائیں گی۔ کشمیر لبریشن سیل کے فنڈز کی مد میں جاری شدہ آرڈیننس کے بعد ہر شعبہ سے کٹوتیاں کی جائیں گی مگر ان کٹوتیوں سے حاصل ہونیوالی رقم کے استعمال کے بارے میں بھی نہ ہی آرڈیننس میں واضح کیا گیا ہے اور نہ ہی اس بارے میں کسی اور فورم پر کوئی وضاحت جاری کی گئی ہے۔ کشمیر سیس کی ان کٹوتیوں اور ٹیکسز سے صرف ملازمین کی تنخواہوں سے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا ہو گا جس کے استعمال کے حوالہ سے ہم زیر نظر میں کچھ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
80ء کی دہائی میں کشمیر میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی کوششوں اور ضیاء الحق کی آشیرباد سے مذہبی بنیادپرستی کی بنیاد پرمسلح جدوجہد کا آغاز کیا گیا ۔ پاکستانی زیر انتظام کشمیر سے نوجوانوں کو ورغلاکر آزادی کے نام پر ٹریننگ دی جاتی اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کروانے اور بھارتی فورسز کو نشانہ بنانے اور بھارتی کشمیر میں موجود نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کیلئے آمادہ کرنے کیلئے سیز فائر لائن کے اس پار بھیج دیا جاتا ۔ آزادی کے نام پر اس قتل و غارتگری میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری نوجوانوں، ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو شہید کیا گیا جبکہ اس سارے عمل کو ایک سیاسی رنگ دینے کیلئے اور پاکستانی حکومت کے ایجنڈے پر مسئلہ کشمیر کو بیرون دنیا ابھارنے اور بھارت کی طرف سے کشمیر میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا واویلا کرنے کیلئے ایک ادارے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا جو آزادکشمیر حکومت کو زیر انتظام رہتے ہوئے آزادی کے بیس کیمپ کی آڑ میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان کیلئے لابنگ اور تمام مسلح جدوجہد اور کشمیر کے نام پر ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایک سیاسی رنگ دے سکتا۔ اسی ضرورت کے پیش نظر7مئی1987ء کو کشمیر لبریشن سیل کے نام سے اس ادارے کو تشکیل کیا گیا اور مرکزی دفتر مظفرآباد میں قائم کیا گیا جبکہ کشمیر سنٹر راولپنڈی اور کشمیر سنٹر لاہور بھی اس کے سب دفاتر میں شامل تھے۔ گو کہ اس ادارے کی کمانڈ اینڈ کنٹرول وزیراعظم آزادکشمیر کے نام پر ہے لیکن ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس ادارے کا کیا گیا کوئی بھی فیصلہ یا بنایا گیا کوئی قانون آزادکشمیر یا پاکستان کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا جو اس ادارے کی حیثیت کا اندازہ لگانے کیلئے کافی ہوگا۔ اس ادارے کے بورڈ ممبران میں چیئرمین وزیراعظم آزادکشمیر، وائس چیئرمین قانون ساز اسمبلی کا کوئی ایک ممبر جسے چیئرمین نامزد کریگا، چیف سیکرٹری آزادکشمیر جو براہ راست پاکستانی بیوروکریٹ اور آزادکشمیر کا مکمل انتظامیہ کنٹرول بھی سنبھالتا ہے، سیکرٹری سروسز و جنرل ایڈمن ڈیپارٹمنٹ، سیکرٹری مالیات آزادکشمیر اور سیکرٹری سیل جو کہ بیسویں گریڈ کا کوئی بھی آفیسر جو سیکرٹری بننے کے اہل ہو شامل ہیں۔ اس ادارے کے مقاصد کے حوالہ سے آرڈیننس میں لکھا گیا ہے کہ یہ ادارہ جموں و کشمیر لبریشن سیل کے نام سے جانا جائے گا اور مسئلہ کشمیر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرے گا۔ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے حکمت عملی ترتیب دیگا، تحریک آزادی کی تاریخ کو شائع کریگا، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کریگا، بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے تھنک ٹینک کی حیثیت سے پالیسی بنائے گا اور مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے بھی پالیسی مرتب کرے گا، سیل اپنے مقاصد پر عملدرآمد کیلئے کسی بھی پراپرٹی کو حاصل کرنے میں خودمختار ہوگا، جبکہ سیل کا مرکزی دفتر مظفرآباد میں ہوگا جبکہ حکومتی منظور ی کے تحت آزادکشمیر سے باہر بھی جہاں ضرورت درپیش ہو دفاتر قائم کر سکتا ہے۔ کشمیر لبریشن سیل کے مالی معاملات کو چلانے کیلئے حکومت آزادکشمیر کی طرف سے بجٹ میں فنڈز مختص کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ مالیاتی ایکٹ 1991ء کے تحت کی جانیوالی ملازمین سے کشمیر لبریشن سیل کی کٹوتیاں جو اب ایک نئے متذکرہ بالا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہر شعبہ ہائے زندگی پر نافذ کر دی گئی ہیں سے حاصل شدہ رقم جو کروڑوں روپے ماہانہ بنتی ہے براہ راست کشمیر لبریشن سیل نامی اس ادارے میں جائے گی۔
کشمیر لبریشن سیل جس کے نام پر کشمیر کے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی کا ایک خطیر حصہ چھیننے کا عمل شروع کیا گیا ہے اس کے اپنے آئین میں لکھے کام کاج کے ذکر تو ہم نے کر لیا لیکن حقیقت اس سے زیادہ اور کچھ اور نوعیت کی ہے، ایک طرف آزادکشمیر پر براجمان حکومت پاکستان کے تنخواہ دار حکمران اپنی عیاشیوں کو جاری رکھنے اور اپنے لئے نعرے لگانے والے کارکنوں کو نوازنے کا عمل جاری رکھتے ہیں جبکہ دوسری وجہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح کشمیر پر مسلط کردہ جہاد کو سیاسی رنگ دینے کیلئے اس ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ۔ لیکن اب یہ صورتحال اور بھی پیچیدہ ہو چکی ہے ایک طرف تو آزاد حکومت نے جیالوں کو نوازنے کیلئے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کشمیر سنٹرز کھولنے کا اعلان کر رکھا ہے یہ آرڈیننس جاری کرنے کا ایک مقصد ان نئے کشمیر سنٹروں میں ایڈجسٹ ہونیوالے کارکنوں کے اخراجات کو پورا کرنے کا باعث بھی ہو سکتا ہے جس سے حکومت کو جن کارکنان کی جانب سے ایڈجسٹ نہ ہونے پانے کے باعث تھوڑی بہت مزاحمت کا سامنے تھا اس سے آزاد ہو کر لوٹ مار کو جاری رکھ سکیں گے۔ جبکہ عالمی سامراجی اجارہ داریوں اور تمام ترقی پذیر ممالک کے ان داتا امریکی سامراج کی ایماء پر جو فری ٹریڈ اور بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو روا رکھنے اور مسئلہ کشمیر کو سرد کرنے کے جو آدیش جاری کئے گئے ہیں ان کے پیش نظر اب سی آئی اے ، راء اور آئی ایس آئی کی طر ف سے شروع کئے گئے این جی اوز کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو ایک نئے رنگ سے ابھارنے کے نئے ہتھکنڈے کو بھی طوالت دینے کا باعث اور ان این جی اوز اور بیرون ملک قائم کردہ کشمیر سنٹرز کے زیر اثر اس سلسلے میں اقدامات کرنے کے پیش نظر بھی ان فنڈز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقات اور بیوروکریسی میں پھوٹ ، تضادات اور پھر انہی تضادات کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے الگ الگ حکمت عملی کے باعث یہ عمل اور بھی پیچیدہ ہو چلا ہے۔ ایک دھڑا مسئلہ کشمیر کو مسلح جدوجہد کے ذریعے ایک نئی جنگ کا سلسلہ شروع کر کے ابھارنے کے سلسلے کو آگے بڑھانے اور اس کے پس پردہ لوٹ مار اور منافعوں کو پید اکرنے کیلئے پر تول رہا ہے جبکہ دوسرا دھڑا جو کہ فی الوقت حکمران بھی ہے سامراجی ایما پر پیس پراسیس کے ذریعے مسئلہ کشمیر پر مختلف این جی اوز جو کسی نا کسی سامراجی ادارے کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہوتی ہیں کے ذریعے تجاویز پیش کر کے اور پاک بھارت ، آر پار کشمیر کی مشترکہ تجارت کے ذریعے منافعوں کو طوالت دینے کے عمل کو جاری رکھنا چاہتا ہے ۔ ان دونوں اعمال کا کشمیری عوام کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایک نئی جنگ مسلط کر کے بھی عوام کا خون بہانے کا سلسلہ ہی رائج کیا جائے گا جبکہ اس امن عمل کے ذریعے کی جانیوالی تجارت کے پس پردہ بھی عوام کا استحصال اور منافعوں کے حصول کا امر پوشیدہ ہے۔
گلگت بلتستان کو لیز پر چین کے حوالے کرنے کے حکومتی بیانات اور تجاویز کے بعد سی آئی اے اور دیگر سامراجی اداروں کی ایماء پر اس خطے میں مسلط کیا جانے والا فروقہ واریت کا عفریت سینکڑوں معصوموں کی زندگیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کے عوام کو گھروں میں مقید کرنے اور ایک دوسرے کیخلاف شدید نفرت کا باعث بن چکا ہے، فوجی کرفیو کے نفاذ سے وہاں بسنے والے انسان گھروں میں قید ہیں جبکہ اکثریتی گھروں میں نوبت فاقوں تک آپہنچی ہے۔ جبکہ اس نام نہاد آزادکشمیر میں بسنے والے چالیس لاکھ کے لگ بھگ عوام پہلے ہی انفراسٹریکچر، تعلیم، صحت، روزگارغرضیکہ ہر ایک بنیادی سہولت سے محروم چلے آرہے تھے کہ حکمرانوں نے ایک نئے ٹیکس اور اجرتی کٹوتیوں کے ذریعے ایک اور معاشی حملہ کیا ہے ۔حکمران طبقات اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ کسی بھی مسئلے پر ایک بیان دینے کے قابل بھی نہیں رہے ،عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے کی کیفیت سے بھی عاری ہو چکے ہیں ۔ صدارتی آرڈیننس جاری کرنے اور بھاری مقدار میں کٹوتیوں اور ٹیکسز کے نفاذ کے بعد بھی نہ تو کسی حکمران نے اس قدرجرأت کی کے میڈیا پر آکر عوام کو ان ٹیکسوں اور کٹوتیوں کے نفاذ کی وجہ بیان کر سکتا یا پھر ان کے استعمال بارے جھوٹی کہانی ہی گڑھ سکتا۔ جیسا کہ ہم بالائی سطروں میں زیر بحث لاچکے ہیں کہ عالمی طور پر سرمایہ داری نظام کی ناکامی اور دولت کے چند سے چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانے کے باعث جہاں ذرائع پیداوار کی بہتات ہے وہاں انسانوں کی ایک بھاری اکثریت ان ذرائع پیداوار سے مستفید ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے جس باعث سامراجی اجارہ داریاں اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف انسانیت کو بربریت ، اور معاشی پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے سے ذرا بھی نہیں چونک رہیں، ملکی معیشتوں کے دیوالیہ ہونے کے باعث حکمران طبقات اپنی عیاشیاں جاری رکھنے اور سامراجی قرضے ادا کرنے کیلئے محنت کشوں پر معاشی حملوں کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آزادکشمیر میں محنت کشوں نے موجودہ کٹوتیوں اورٹیکسوں کے نفاذ کو مسترد کرتے ہوئے اس کیخلاف ایک منظم تحریک کے آغاز کیلئے حکمت عملی ترتیب دینی شروع کر دی ہے، پورے آزادکشمیر میں تمام شعبہ جات سے منسلک محنت کشوں اور ملازمین میں اس موجودہ کٹوتیوں اورٹیکسوں کے نفاذ کیخلاف شدید غم و غصے کی لہر ہے اور اس کیخلاف ہر ادارے کے ملازمین سراپا احتجاج ہیں، راولاکوٹ میں گزشتہ دنوں تمام شعبہ جات کے ملازمین کا مشترکہ اجلاس اور اس میں شریک تمام جریدہ اور غیر جریدہ ملازمین ایسوسی ایشنوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے کشمیر لبریشن سیل کی مد میں نافذ کئے گئے ٹیکسوں اور کٹوتیوں کے خاتمے کے علاوہ تنخواہوں میں اضافے ، بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور مہنگائی کے خاتمے جیسے مطالبات کو لیکر پورے ضلع پونچھ میں تمام دفاتر کی تالا بندی کا اعلان کیا ہے اور یہ مطالبات کی منظوری تک اس سلسلہ کو جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے یہ حکمران طبقات نہ تو کسی محنت کش کا کوئی مسئلہ حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہیں گے، اس لئے ملازمین کو بھی اپنی اس تمام جدوجہد کو پورے آزادکشمیر میں پھیلانے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور نوجوانوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا ہو گااور انہی مشترکہ مسائل اور مفادات کے پیش نظر پاکستان کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت پیدا کرتے ہوئے اس نظام کو للکارنے کی طرف آگے بڑھنا ہوگا کوئی بھی تحریک کسی ایک مخصوصی خطے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی جب تک کہ اسے باقی تمام خطوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی حمایت اور تائید حاصل نہیں ہو گی اور وہ محنت کشوں کے بین الاقوامی اتحاد کے نظریے کی بنیاد پر نہیں لڑی جائے گی۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کی محنت کشوں کی موجودہ احتجاجی تحریک کی بھرپورحمایت اور اس میں شرکت اور اس تحریک کے مستقبل کیلئے پی ٹی یو ڈی سی کے کامریڈز کی بھرپور مداخلت اس خطے پر محنت کشوں کی مستقبل کی جدوجہد کیلئے گہرے اثرات مرتب کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ اور اگر اس خطے کے محنت کش اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے مشترکہ اور منظم جدوجہد اس نظام کے خاتمے اور حقیقی مزدور راج کے قیام کی طرف لے جانے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں تو پاکستان کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتی ہے۔ محنت کشوں ، نوجوانوں اور کسانوں کا اتحاد حکمران طبقات کے ایوانوں کو للکارنے کا باعث بھی بن سکتا ہے اور اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد ڈالنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر سمیت پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے انسانوں کے پاس اگر کوئی راستہ ہے تو وہ یہی ہے کہ وہ اس نظام کو چیلنج کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے برصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی طرف آگے بڑھیں اور سرمایہ داری کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسے غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لائیں جہاں انسان کو ضرورتوں سے حقیقی معنوں میں آزاد کیا جا سکے۔