| تحریر: لال خان، تلخیض و ترجمہ: عمران کامیانہ |
14 اور 15 اگست پاکستان اور ہندوستان میں براہ راست برطانوی اقتدار سے آزادی کے ایام کے طور پر منائے جاتے ہیں۔ دونوں طرف ریاستیں اور کارپوریٹ میڈیا جشن مناتے ہیں اور سرکاری تاریخ دان اپنے آقاؤں کے مفادات کے تحت برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کی تشریح کرتے ہیں۔ اگست 1947ء میں ملنے والی یہ آزادی برصغیر کی خونریز تقسیم اور وسیع پیمانے کے مذہبی فسادات میں سے برآمد ہوئی تھی۔ ساڑھے سات لاکھ سے زائد افراد کا قتل عام ہوا اور ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو لاشوں اور خون سے بھرے راستوں پر ہجرت کرنا پڑی۔ لٹنے والی عزتوں کا کوئی حساب نہیں۔
برصغیر کے بٹوارے کا پیش خیمہ اگست 1945ء سے شروع ہونے والی عوامی تحریک تھی جس نے فروری 1946ء میں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں کی بغاوت کو جنم دیا۔سرکاری تاریخ میں ان واقعات کا ذکر شاید ہی کہیں ملتا ہو۔ بڑے صنعتی شہروں کا محنت کش طبقہ اس انقلابی تحریک کا حصہ بن گیاجس کے شعلے پورے برصغیر میں پھیلتے چلے گئے۔ اس تحریک کو انقلابی پروگرام پر منظم کرنے میں کمیونسٹ پارٹی کی ناکامی تاریخ کے بڑے المیوں میں سے ایک ہے۔
خطے کی صورتحال 1942ء سے ہی برطانوی راج کے کنٹرول سے باہر ہو رہی تھی۔ اس سال 31 اگست کو متحدہ ہندوستان کے وائس رائے لارڈ لنلتھگو نے ونسٹن چرچل کے نام خفیہ پیغام بھیجا کہ ’’مجھے یہاں 1857ء کے بعد کی سب سے سنجیدہ بغاوت کا سامنا ہے جس کی شدت ہمیں دنیا سے پوشیدہ رکھنا ہو گی۔‘‘ہندوستان کی برطانوی سامراج کے لئے حیثیت کا اندازہ فروری 1931ء میں ونسٹن چرچل کے برطانوی پارلیمنٹ میں اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ہندوستان کا ہاتھ سے نکل جانا ہمارے لئے جان لیوا اور حتمی دھچکا ہو گا…ہم ایک چھوٹی سی قوت بن کے رہ جائیں گے۔‘‘
1946ء کی بغاوت کی خبر انفرادی طور پر ایک سے دوسرے شخص تک منتقل ہو کر پورے ہندوستان میں پھیلتی گئی۔ بعد ازاں رائل انڈین نیوی کے جہازیوں نے کچھ سرکاری ریڈیوسٹیشنوں پر قبضہ کر لیا اور ریڈیو پر عوام سے یکجہتی کی اپیل اور انقلابی نغمے اور شاعری براڈ کاسٹ کی جانے لگی۔ رائل نیوی کی بغاوت بمبئی، کلکتہ، کراچی، مدراس، کوچن اور ویشاپپٹم کے ساحلوں پر لنگر انداز 74جہازوں، 20 بحری بیڑوں اور 22 یونٹس میں سرایت کر گئی۔ 20 فروری 1946ء تک صرف دس جہاز اور دو نیول سٹیشن ایسے تھے جہاں بغاوت نہیں ہوئی تھی۔
جہازیوں کی بغاوت اچانک اور پرانتشار نہیں تھی۔ 19 فروری کو باقاعدہڑتالی کمیٹی قائم کی گئی جس میں سگنل مین ایم ایس خان اور پیٹی آفیسر مدن سنگھ بطور صدر اور نائب صدر منتخب ہوئے تھے۔ دونوں کی عمریں 25 سال سے کم تھیں، ایک مسلمان اور دوسرا سکھ تھا۔ ایسا دانستہ طور پر برطانوی سامراج اور ان کے گماشتہ مقامی حکمرانوں کی جانب سے ابھاری جانے والی مذہبی منافرت کو مسترد کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔
مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں نے بغاوت کی بھرپور مخالفت کی اور اسے سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔کمیونسٹ پارٹی کی قیادت بھی جہازیوں کی بغاوت کو ملک بھر میں پھیلی ریلوے، ٹیکسٹائل اور دوسرے صنعتی شعبوں کی ہڑتالوں سے جوڑنے میں ناکام رہی۔ کانگریس اور مسلم لیگ کو خوف تھا کہ اس بغاوت کے ذریعے انقلاب اور طبقاتی جدوجہد کے نظریات آزادی کی تحریک میں سرایت کر جائیں گے جسے مذہبی تعصب کے ذریعے تقسیم کر کے یہ عناصر ’قابو‘ میں رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔’’پرامن‘‘ رہنے کے مطالبات سے لے کر کھلی مخالفت تک، مقامی حکمرانوں نے ہر ہتھکنڈہ استعمال کیا لیکن تحریک ملک گیر انقلاب میں بدلتی گئی اور ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کے نعرے سڑکوں پر گونجنے لگے۔
21 فروری کو برطانوی شاک ٹروپس نے ہڑتال کرنے والے جہازیوں پر اس وقت فائرنگ کر دی جب وہ بمبئی کے قلعے میں اپنی بیرکوں سے باہر آ رہے تھے۔ یہ سلسلہ 22 اور 23 فروری کو بھی جاری رہا جس میں 250 جہازی اور محنت کش ہلاک ہوئے۔ چشم دید گواہان کے بقول یوں معلوم ہوتا تھا کہ 21فروری کو پورے ہندوستان کے محکوم عوام برطانوی راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایڈمرل گوڈفرے نے باغی جہازیوں کو ’’ہتھیار ڈالنے یا مٹ جانے‘‘ کی دھمکی تھی۔ سیاسی قیادت کی کھلی غداری کے پیش نظر 24 فروری تک ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی آپشن نہیں بچی تھی۔ صبح 6بجے بحری جہازوں اور زیر قبضہ عمارتوں پر سیاہ جھنڈے لہرا کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا گیا۔اپنے آخری اجلاس میں ہڑتالی کمیٹی نے ایک قراردار پاس کی جو کچھ یوں تھی:
’’یہ انقلابی شورش ہمارے عوام کی زندگیوں میں اہم تاریخی واقعہ تھا۔پہلی بار باوردی اور بے وردی محنت کشوں کے خون نے ایک دھارے میں ایک اشتراکی مقصد کے لئے گردش کی ہے۔ ہم باوردی محنت کش اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپ، ہمارے محنت کش بھائی بہن بھی اسے کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں ان واقعات سے اسباق سیکھیں گی اور ہماری ادھوری جدوجہد کو مکمل کریں گی۔ محنت کش عوام زندہ باد، انقلاب زندہ باد!‘‘
1946ء کی انقلابی شورش برطانوی راج کے خلاف جدجہد کے عظیم ترین ابواب میں سے ایک ہے۔ اگرچہ بغاوت ناکام ہوئی اور کچل دی گئی لیکن برطانوی حکمرانوں کو اندازہ ہو گیا کہ مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے۔وقت ان کے ہاتھوں سے ریت کی طرح سرک رہا تھا۔ اس شورش کے براہ راست رد عمل میں برطانوی حکمرانوں کو جون 1948ء سے قبل ہندوستان چھوڑ دینے کا اعلان کرنا پڑا۔ برطانوی حکمران تحریک کی نوعیت، شدت اور حجم سے اس قدر خوفزہ تھے کہ اپنی وقتی فتح کے باوجود بھی پسپائی اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ لیکن ان واقعات کے بعد وہ برصغیر کو متحد نہیں چھوڑ کے جا سکتے تھے۔ چرچل نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ ’’ہندو مسلم تعصب برطانوی سامراج کا سب سے اہم ہتھیارہے…اگر یہ ختم ہو گیا تو عوام متحد ہو کر ہمیں نکال باہر کریں گے۔‘‘
سرکاری تاریخ دان برطانوی سامراج کے گماشتہ، مقامی حکمران سیاستدانوں کو ’تحریک آزادی‘ کے قائدین بنانے کی پوری کوشش کرتے ہیں جو تاریخ سے بدترین مذاق ہے۔ 1945-46ء کی انقلابی تحریک کے فیصلہ کن کردار کا اعتراف خود اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم کلینمٹ ایٹلی نے تقریباً ایک دہائی بعد مغربی بنگال کے گورنر چکرابورتی کے سامنے کیا تھا۔چکرابورتی 30 مارچ 1976ء کے ایک خط میں ایٹلی سے اس مذاکرے کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’میں نے ایٹلی سے بلا جھجک سوال کیا کہ گاندھی کی ’کویٹ انڈیا موومنٹ‘ تو 1947ء سے بہت پہلے ہی دم توڑ گئی تھی، اس وقت ہندوستان میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو برطانوی راج کو اتنی جلدی میں نکلنے پر مجبور کرتی، پھر ایسا کیوں ہوا؟جواب میں ا یٹلی نے کئی وجوہات گنوائیں جن میں سب سے اہم رائل انڈین نیوی کی بغاوت تھی جس سے برطانوی حکمرانوں کو احساس ہوا کہ مقامی مسلح افواج پر اب انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ جب ایٹلی سے پوچھا گیا کہ ہندوستان چھوڑنے کے فیصلے میں مہاتما گاندھی کی تحریک کا کتنا ہاتھ تھا تو اس نے حقارت سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’کچھ خاص نہیں‘۔‘‘
مسلمان سیاسی اشرافیہ کا کردار بھی اس سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ آخری تجزئیے میں یہ آزادی کسی لڑائی یا جدوجہد کی بجائے برطانوی سامراج اور مقامی حکمران طبقے کے درمیان مفاہمت اور معاہدے کے نتیجے میں حاصل ہوئی تھی۔ 1946ء کی انقلابی شورش کی پسپائی کے بعد مذہبی تعصبات ایک بار پھر اور زیادہ شدت سے سیاست پر حاوی ہوگئے۔ کچھ دہائیاں قبل جناح صاحب نے سیاست میں مذہب کی آمیزش پر گاندھی کی سرزنش کی تھی۔ اب وہ ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ تھے جس کے امیدوار الیکشن ہی مذہبی کارڈ پر لڑتے تھے۔
جناح صاحب، جو بعد میں پاکستان کے’’بابائے قوم‘‘ کہلائے، کے سامنے مسلمانوں کے ایک الگ ملک کا خیال 1933ء میں لندن کے والڈورف ہوٹل کی پرتعیش ضیافت کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ان کے میزبان کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم رحمت علی تھے جنہوں نے اپنا یہ نظریہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے پمفلٹ میں تحریر کیا تھا۔جناح صاحب کا رد عمل خاصا سرد مہر اور حقارت آمیز تھا۔ وہ اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے سخت گیر علمبردار تھے۔ رحمت علی کو جواب میں انہوں نے کہا تھا ’’پاکستان؟ یہ ایک ناممکن خواب ہے۔‘‘
مسلمان سرمایہ داروں کو ہندو سرمایہ داروں کے مقابلے سے پاک منڈی کی تلاش تھی، جاگیر داروں کو زمینداری نظام کا تسلسل درکار تھا، قدامت پسندتھیوکریٹک ریاست کے متلاشی تھے اور ریاستی عہدیدار تیز ترقی کے شارٹ کٹ چاہتے تھے۔ تاہم اس سب کے باوجود بھی بٹوارے کے گھاؤ سے بچا جاسکتا تھا اگر کانگریس کی قیادت کا کردار اتنا غلیظ نہ ہوتا۔
بیسویں صدی کی پہلی دو دہائیوں تک کانگریس بڑی حد تک سیکولر سیاسی جماعت تھی۔برصغیر کی سیاست میں مذہبی شاونزم کا ابھار گاندھی کے ساتھ ہی ہوا۔ گاندھی سے قبل مین سٹریم سیاست میں ہندو بنیاد پرست رجحانات کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ گاندھی کی مذہبی ’’روحانیت‘‘، قدامت پرست شعبدے بازیاں اور ’’مذہبی یگانگت‘‘ کی گردان وہ عناصر تھے جن کے تحت مذہب غیر محسوس طریقے سے سیاست میں سرایت کرتا چلا گیا۔ اسی عہد میں ہندو مہاسبا اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ نے ’’ہندو قوم‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ گاندھی کی حرکات مذہبی تقسیم کو ہوا دیتی رہیں جبکہ وہ خود ہندو مسلم اتحاد کے راگ الاپتا رہا۔ دوسرے مذاہب کی اشرافیہ کے لئے ان حالات میں مذہب کے سیاسی استعمال کی راہ ہموار ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم کے اواخر میں، 1945ء کے انتخابات میں چرچل کے زیر قیادت کنزرویٹو پارٹی کی شکست اور لیبر پارٹی کی لینڈ سلائیڈ کامیابی سیاسی حلقوں کے لئے خاصی غیر متوقع تھی۔ بائیں بازو کی اصلاح پسند لیبر پارٹی قیادت برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی وسیع قتل و غارت گری کے امکانات سے خاصی خوفزدہ تھی۔ 22 مارچ 1946ء کو نئے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اپنے تین وزرا (لارڈ پیتھک لارنس، سر سٹیفورڈ کرپس، البرٹ وکٹر الیکزنڈر) پر مشتمل کیبنٹ کمیشن دہلی بھیجا تاکہ اقتدار کی منتقلی پر اختلافات سے پاک لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔ متحارب مقامی سیاسی رہنماکسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ کیبنٹ کمیشن نے بالآخر خود ساختہ ’آئینی ایوارڈ‘ کا اعلان 12مئی کو کیا جس کے تحت متحدہ ہندوستان کا منصوبہ پیش کیا گیا جہاں دفاع، خارجہ امور، مواصلات، کرنسی وغیرہ کے امور فیڈرل حکومت کے پاس ہوں گے جبکہ صوبائی حکومتیں وسیع اختیارات کی حامل ہوں گی۔ (A)ہندو اکثریتی علاقوں، (B)مسلمان اکثریتی علاقوں اور (C)بنگال و آسام کی ذیلی فیڈریشنز پر مشتمل ایک فیڈرل، خودمختیار اور متحدہ ہندوستان کیبنٹ کمیشن کی تجویز تھی جسے 6جون 1946ء کو جناح صاحب اورمسلم لیگ نے قبول کر لیا۔ یہ درحقیقت 23مارچ 1940ء کی قراردار کی منسوخی کے مترادف تھا۔
اسی دوران مئی 1946ء میں کانگریس کی صدارت مولاناابو الکلام آزاد سے جواہر لال نہرو کو منتقل ہو چکی تھی۔وائس رائے لارڈ ویول کو اس موقع کی مناسبت سے جناح صاحب کا مطالبہ ماننا پڑا کہ عبوری کیبنٹ میں مسلمان نمائندوں کی نامزدگی صرف مسلم لیگ کے اختیار میں ہو گی۔
کانگریس کی قیادت کیبنٹ کمیشن کی تجاویز کو ماننے یا مسترد کرنے کا کوئی متفقہ فیصلہ نہیں کر پائی۔ مختلف اطراف سے پڑنے والے دباؤ کے تحت کانگریس نے کیبنٹ پلان مشروط طور پر قبول کر لیا لیکن وائس رائے کی جانب سے عبوری حکومت میں شامل ہونے کی دعوت مسترد کر دی۔ انہیں اندازہ تھا کہ کانگریس کی شرکت کے بغیر جناح صاحب کی قیادت میں عبوری کیبنٹ کی تشکیل لارڈ ویویل کے لئے کم و بیش ناممکن ہو گی۔ ایسا ہی ہوا۔ 16 جون کو ویول نے اپنی پیشکش واپس لے لی۔ جناح صاحب کے لئے یہ بڑا دھچکا تھا۔متحدہ ہندوستان کے ریاستی سربراہ بننے کا ان کا عمر بھر کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ نہرو اپنے حریف کی اس ناکامی پر بہت خوش تھا۔
7 جولائی کو پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں نہرو کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی نے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا رکھ دیا۔ نہرو نے بیان دیا کہ کانگریس نے صرف آئین ساز اسمبلی میں شمولیت پر رضا مندی ظاہر کی تھی،مزید یہ کہ مذکورہ اسمبلی کیبنٹ مشن کے’ آئینی ایوارڈ‘ میں رد و بدل کرنے کی مجاز ہے اور کیبنٹ مشن کی مجوزہ تین ذیلی فیڈریشنز کو یکسر منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے۔دلیپ ہیرو اپنی کتاب ’’طویل ترین اگست‘‘ میں برصغیر کا بٹوارہ کروانے میں نہرو کا فیصلہ کن کردار کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ’’نہرو کی جارحانہ بیان بازی نے متحدہ آزادہندوستان کے ممکنات کا قتل کر دیا۔ اس کے جواب میں جناح نے آئینی ایوارڈ کی حمایت واپس لے لی۔ یہ واقعہ بڑے واقعات کے سلسلے میں آخری تھا۔کانگریس پارٹی کے سخت گیر موقف نے برصغیر کی تقسیم کی راہ ہموار کی۔‘‘
مولانا آزاد ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب India Wins Freedom میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ اس پیش رفت (تقسیم) کی زیادہ ذمہ داری جواہر لال پر عائد ہوتی ہے۔ نہرو کے اس بدبخت بیان نے کہ کانگریس کیبنٹ مشن پلان کو تبدیل کر سکتی ہے، مذہبی تعصب کو پھر سے ہوا دے ڈالی۔ مسٹر جناح نے نہرو کی غلطی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پلان کے لئے لیگ کی حمایت ختم کر دی۔‘‘
مذکورہ بالا کتاب میں ہی برصغیر کی تقسیم میں گاندھی کا کردار بیان کرتے ہوئے آزاد لکھتے ہیں کہ ’’جب میں گاندھی سے دوبارہ ملا تو مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ وہ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اگرچہ اب بھی کھلے عام تقسیم کے حق میں نہیں تھا لیکن اب اس کی مخالفت پر بھی زیادہ زور نہیں دے رہا تھا۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ سردار پٹیل کے دلائل ہی دہرا رہا تھا۔ میں نے دو گھنٹے تک اس کی منت سماجت کی لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔‘‘
برصغیر کی سیاست میں مذہب کا زہر گھول کر حالات کو اس نہج تک لے جانے والے گاندھی صاحب تقسیم کے خونریز ایام میں ایک عالیشان محل ’بِرلا ہاؤس‘ میں آرام فرما رہے تھے۔ یہ محل ٹیکسٹائل سے وابستہ ارب پتی سرمایہ دار گنشیام داس برلا کی ملکیت تھا جو گاندھی صاحب کا پرانا مالی سرپرست تھا۔ مذہبی فسادات نے پنجاب اور بنگال کو خون میں ڈبو دیا۔ نہرو ان حالات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ہندوستان سمندر کے بیچوں بیچ کھڑا بارود سے بھرا بحری جہاز ہے جسے آگ لگ چکی ہے۔‘‘ریڈکلف لائن کے اس طرف گورنر جنرل جناح صاحب لاہور کے دورے پر تھے۔ مہاجرین کی بحالی کے وزیر میاں افتخارالدین اور پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان کے ہمراہ فضائی جائزہ لیتے ہوئے نیچے کے مناظر دیکھ کر جناح صاحب نے برجستہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ’’یہ میں نے کیا کر ڈالا؟‘‘
1946ء کی انقلابی تحریک کی شکست کے بعد تقسیم نا گزیر ہو چکی تھی۔ برطانوی سامراج ایک متحدہ ہندوستان کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ آزادی کی جدوجہد قومی حریت کے مرحلے سے آگے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی ڈاکہ زنی سے آزادی کی طرف بڑھ سکتی تھی۔ مقامی حکمران طبقات کے اپنے مفادات تھے۔برصغیر کے حکمران 68سال بعد بھی قومی و مذہبی نفرت اور تعصب کی وہی سیاست کر رہے ہیں جو 1947ء میں خونریز تقسیم پر منتج ہوئی تھی۔ یہ کیسی آزادی ہے؟ یونیسف کے رپورٹوں کے مطابق خطے میں صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کے حالات برطانوی راج کے عہد سے بھی بدتر ہیں۔برصغیر میں دنیا کی 20 فیصد آبادی اور 40 فیصد بھوک پلتی ہے۔ دونوں ایٹمی طاقتوں کے نصف بچے نامکمل ذہنی و جسمانی نشونما (Stunted Growth) کا شکار ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمران چھ دہائیوں بعد بھی جدید صنعتی قومی ریاست کی تعمیر اور قومی جمہوری انقلاب کے تاریخی فرائض ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں آج دنیا کے سب سے قدم مذہب کی بنیاد پرستی برسر اقتدار ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکمران طبقات، محنت کش عوام کو مسلسل مجروح اور مطیع رکھنے کے لئے اسلامی بنیاد پرستی کی دہشت اور رجعت پورے سماج پر مسلط کئے ہوئے ہیں۔
تقسیم کے بعد بھی خطے کے عوام نے سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی استحصالی ڈھانچے کے خلاف کئی بغاوتیں کی ہیں۔ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے محنت کش اور نوجوان مذہبی اور نسلی تعصبات کو مسترد کر کے طبقاتی یکجہتی کے تحت جبر و استحصال کے خلاف تاریخ کے میدان عمل میں اترے ہیں۔ ایک مارکسی قیادت کی عدم موجودگی ان تحریکوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ رہی ہے۔ روایتی قیادتوں نے محنت کش عوام کے ساتھ ہر بار غداری کی ہے۔ لیکن جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی کشمکش بھلا کیسے مٹ سکتی ہے؟ طبقاتی جدوجہد کی لہریں آج پسپا ہیں لیکن طوفان بن کر ایک بار پھر ابھریں گی۔ کسی ایک ملک میں کامیاب انقلاب پورے خطے میں ناگریز طور پر سرایت کر جائے گا۔ انقلابات کسی سرحد اور تقسیم کو نہیں مانتے۔ 1577ء میں کابل سے رنگون تک، برصغیر ایک یکجا ریاست تھا۔ آج انقلابی سوشلزم ہی اس خطے کو جنوب ایشیا کی سوشلسٹ فیڈریشن میں متحد کر سکتا ہے۔ سامراج اور اس کے مقامی گماشتوں کے تاریخی جرائم، ظلم اور نسل در نسل کے استحصال کا انتقام اسی راستے پر چل کے لیا جاسکتا ہے۔
فیض صاحب نے 15اگست 1947ء کو جو نظم تحریر کی تھی اس کے آخری اشعار آج بھی ’’یوم آزادی‘‘ کا پیغام ہیں:
ابھی گرانی ء شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی!