رپورٹ: قمرالزمان خاں:-
12.06.2012 سہ پہر
درزی یونین کا دھرنا تین بجے سپہر پرامن طور پر کل (13/06/2012) تک موقوف ہوا اور سارے درزی اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے۔تقریباََ ساڑھے تین بجے اطلاع موصول ہوئی کہ ’’کرتہ کارنر ‘‘ کے مالکان محمد انور اوراسکے بیٹے یوسف نے گھر جاتے ہوئے درزی شرون داس کوراستے سے زبردستی موٹر سائیکل پر بٹھاکر اغوا کرلیا ہے ،شرون داس کی سلائی مشین جو کہ کسی اور دوکان پر پڑی تھی وہ بھی ساتھ لے لی ہے اور زبردستی اس سے سلائی کرارہے ہیںیہ خبرملتے ہیں درزی یونین نے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی راہنما قمرالزماں خاں کو اطلاع کی ۔قمرالزماں خان کے ہمراہ جاکرفوری ایکشن کیا گیا اور شرون داس کو بازیاب کرایا گیا۔کرتہ کارنر کے مالک محمد انور کو تنبیہ کی گئی کہ وہ آئندہ اشتعال انگیزی سے باز رہے ورنہ نتائج سنگین نکلیں گے۔
12.06.2012 رات گئے
درزی یونین کی دھمکی کہ’’ اگر دو دن میں ہمارے مطالبات پورے نہ ہوئے تو شہر کے چار سودرزی مشترکہ درزی خانہ کھول لیں گے‘وہ گاہکوں سے بھی کم سلائی لیں گے اور مل کر کام کریں گے اور شام کو صلہ محنت آپس میں بانٹ لیں گے‘‘۔
اس حکمت عملی کے اعلان نے شہر بھر کے سلائی سنٹروں اور مالکان کی طبیعت ٹھیک کردی ،وہ جو کہہ رہے تھے کہ اجرتیں نہیں بڑھائیں گے اور کاریگر فاقوں مرتے خود واپس آئیں گے،انہوں نے ہی مذاکرات کار بھیجنے شروع کردئیے ۔وہ مذاکرات بظاہر ’’ غیر جانبدار‘‘ بن کر کاریگروں اور ٹیلرنگ شاپس مالکان کے درمیان مصالحت کرانے کے لئے ’’رضا کارانہ ‘‘ طور پر آئے تھے مگر دراصل درزیوں کے دباؤ نے مالکان کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اپنے تھوکے کو خود چاٹنے سے پہلے تھوڑی سی فضا بنا لیں۔رات 9بجے سے 2بجے تک مذاکرت ہوئے ۔کاریگروں کے نمائندگان کے لئے یہ بالکل نیا تجربہ تھا ،دوکان دارگھاگ اور شاطر تھے ۔کبھی دھمکی دیتے اور کبھی جھوٹی اخلاقیات کے تقاضوں کا مطالبہ کرتے۔بیچ بچاؤ کرانے والے اور درمیانہ کردار ادا کرنے والوں نے درزیوں کو مانگوں سے کچھ کم پر راضی کرہی لیا۔رات کو درزی یونین اور ٹیلرنگ شاپس کے مابین پہلا ’’معاہدہ‘‘لکھا گیا۔یہ معاہدہ ماضی کی اجرتوں سے تو کافی بہتر تھا مگر درزیوں کی مانگوں کے مطابق نہیں تھا۔مگر پھر بھی یہ ایک نیا تجربہ اور نیا راستہ تھا جس پر درزی یونین چلی تھی۔لڑائی کرکے جیت کا تجربہ۔
13.06.2012
صبح کو مقررہ ٹائم اور مقررہ جگہ پر جب پورے صادق آباد کے درزی پہنچے تو قیادت کی طرف سے ’’چارٹر آف ڈیمانڈ‘‘کی نوید ان کے لئے خوشی کی بجائے برہمی کا باعث بن گئی۔درزی کسی طورپر بھی طے شدہ ریٹس سے کم پر کام کرنے پر تیار نہ تھے،انہوں نے اپنی قیادت کی بات ماننے سے انکار کردیا اور ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کردیا۔یہ ایک بہت ہی پریشان کن صورتحال تھی۔مزاکراتی ٹیم اور انکے حمائتی اور باقی درزی محنت کش دو حصوں میں تقسیم ہوچکے تھے۔یونین کو بنے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا ،ایسی تقسیم اور پھر انتہا پسندی قابل قبول نہ تھی۔اعتماد کی فضا ختم ہوچکی تھی ۔بدگمانی کی وجہ سے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔دونوں اطراف کے لوگوں کی بحث کے بعد پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے راہنما قمرالزماں خاں کو بلایا گیا ۔انہوں نے اس صورتحال کو فوری طور پر سنبھالا اور جملہ فریقین کو پھر سے یونین کی وحدت میں لانے کے لئے ایک فارمولہ دیا۔جس کے تحت گزشتہ رات کئے گئے ایگریمنٹ کوایک ماہ کا عبوری معاہدہ قراردیا گیا۔معاہدے کو نہ ماننے والے گرم جوش کارکنوں کو یقین دلایا گیا کہ یہ پہلا معاہدہ رمضان سے پہلے ختم کرکے نیا چارٹرآف ڈیمانڈ دیا جائے گا،اگر یہ معاہدہ جو کہ کسی طور بھی آئیڈیل نہیں ہے کو نہ مان کر ہڑتال کو چوتھے روز بھی جاری رکھا جاتا ہے تو یونین کے دو حصے ہوجانے کا احتمال ہے اور اس صورتحال کو نئی بننے والی یونین کسی طور بھی برداشت نہیں کرسکتی۔انہوں نے کہا کہ فوری طور پر یونین کو باقاعدہ رجسٹرڈ کرایا جائے گا اور آپکے تمام مطالبات کو نئے سرے سے تشکیل دے کر مالکان سے منوایا جائے گا۔درزی اگرچہ بہت غصے اور جوش میں تھے مگر وہ پی ٹی یو ڈی سی کے اپنے ساتھی کے فیصلے سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔فیصلہ تسلیم کر لیا گیا مگر اس شرط پر کہ مالکان خود چل کر آئیں گے تو کاریگر کام پر جائیں گے۔مالکان جو کہ پیسے کے نشے میں چور تھے انہوں نے پہلے تو آنے سے انکار کردیا مگر جب ان کو معاہدے سے انکار کی دھمکی دی گئی تو آگئے۔مالکان نے سرعام اپنے رویے کی معافی مانگی۔یوں درزی یونین کی پہلی مہم تمام کافی حد تک اپنی ڈیمانڈز منظور کراکے کامیابی کی طرف بڑھی۔اس دوران پی ٹی یو ڈی سی پر محنت کشوں کا اعتماد پہلے سے بھی زیادہ بڑھا ہے۔
متعلقہ:
صادق آباد میں درزی یونین کی تحریک