مثال خان کو انصاف کیسے ملے گا؟
جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
جس سوچ نے اس وحشت اور درندگی کو جنم دیا ہے اسکی بنیادوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسے قبائل جن میں نسلوں سے دشمنیاں بھی چل رہی تھیں ایک دوسرے کی قتل وغارت کی تاریخ پائی جاتی ہیں ان کی نئی نسل کو نقیب اللہ کے اس بہیمانہ قتل نے ایک یکجہتی میں پرو دیا ہے۔
جس آگ میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری، برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اور مالیاتی مفادات کی تکمیل اسطرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
انسان کی لاکھوں سالوں کی محنت اور کاوش سے معرض وجود میں آنے والے یہ پیداواری ذرائع سرمائے کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
افغانستان کو سب عالمی اور علاقائی سامراجی گدھ نوچ رہے ہیں۔ کوئی ’تعمیر نو‘ کے نام پر یہ کھلواڑ کر رہا ہے تو کوئی منشیات کے کالے دھن پر پلنے والی جہادی پراکسیوں کی براہِ راست پشت پناہی کر رہا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ بالخصوص ضیاالحق کے دور سے جمعیت کو ریاست اور انتظامیہ کے کچھ حصوں کی پشت پناہی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔
بھارت کے قانون، عدل اور انصاف کے سب سے اعلیٰ بھگوان پر اس کے اپنے ججوں کے یہ الزامات پورے ریاستی نظام کی حقیقت کو عیاں اور عدلیہ کی اصلیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔
ایک متروک نظام کے نمائندے کبھی بھی ترقی پسند اور سائنسی فکر کے مالک نہیں ہو سکتے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
سعودی عرب کی یاترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نوا ز شریف کو مقتدر اداروں سے مصالحت کی ضرورت پڑ گئی ہے۔
رجعت سے آلودہ سوچ یہ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ طلبا و طالبات آپس میں فن، ادب، سائنس، تعلیم، نصاب، فلسفہ، سیاست، ثقافت، تاریخ، فلم، عالمی حالات اور معاشرے کے بحران جیسے موضوعات پربات چیت یا بحث ومباحثہ کر سکتے ہیں۔
ایسی وارداتوں کی تفتیش کا فیصلہ کن نتیجہ نہ پیش کرسکنا اور کسی ٹھوس عدالتی فیصلے کا نہ ہو پانا بہت سے شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔
نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے جمہوری نظام، سویلین بالادستی اور آئینی شقوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا تھا۔
استحصال اور جبر کرنے والوں کی رنگت اور قومیت بدلنے سے اس نظام کی اذیتیں کم نہیں ہوتیں۔
نیپال کی کمزور اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اس طرح کی اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں ہے جس سے محنت کشوں اور محکوم عوام کی زندگی میں بہتری آئے۔