امریکی فوجوں کا انخلا: زوال پذیر سامراج کی عسکری پسپائی
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
ہنستے بستے سماجوں کا بیڑا غرق کرنے کے بعد یہ سامراجی خود دم دبا کے بھاگ رہے ہیں۔
ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کچھ لوگوں نے کسی حکومتی ایما یا اشارے کے بغیر اپنے طور پر ہی خاشقجی کو قتل کر دیا ہے!
جدلیاتی طور پر چیزیں اپنی الٹ میں تبدیل ہوچکی ہے اور سستی لیبر والا یہی چین آج مغرب کے سامنے ایک معاشی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔
شمالی کوریا کی ریاست کو فی الوقت اگر کسی طرح سے بیان کیا جا سکتا ہے تو وہ پھر ’’مسخ شدہ مزدور ریاست‘‘ ہی ہے۔
پروٹیکشنسٹ تجارتی پالیسیاں امریکہ کی معاشی شرح نمو میں عارضی اضافہ تو شاید کریں لیکن ان سے مستقبل کے تضادات اور مسائل بڑھیں گے۔
چند ہفتے پیشتر ہی ٹرمپ نے کِم کو ’راکٹ مین‘ اور ’تاریک جوکر‘ کے خطابات سے نوازا تھا جبکہ کِم نے ٹرمپ کو ذہنی مریض اور ’ہلڑ باز‘ قرار دیا تھا۔
داخلی خلفشار کو دبانے کے لئے بھی ایسی خارجہ محاذ آرائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے اور ٹرمپ کے خلاف نفرت سارے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
یہ کھوکھلی بڑھک بازیاں اور پالیسیوں میں تزلزل تاریخ کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت امریکی سامراج کے زوال کا اظہار ہے۔
یہ بے دھڑک اقدام محض ٹرمپ کی ڈانواڈول بڑھکوں کا تسلسل نہیں ہے بلکہ امریکی ریاست اور سماج میں گہرے تضادات کی غمازی کرتا ہے۔
اگر امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو مکمل مطیع نہیں کر سکتا تو پاکستان کی بحران زدہ سرمایہ دارانہ ریاست کے ادارے بھی چین کی تمام تر سرمایہ کاری اور سرپرستی کے باوجود امریکی امداد کے بغیر نہیں چل سکتے۔
ان دوروں میں واضح طور پر مذہبی منافرت کی پالیسی کے احیا کا عنصر شامل تھا اگرچہ یہ سب کچھ مذہبی ہم آہنگی اور امن کے نام پر ہوا۔
روس اور امریکہ سمیت اس تنازعے میں شامل تمام حصہ دار بخوبی آگاہ ہیں کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔
دباؤ پہلے ہی سامراجی ریاست کے ایوانوں میں شدید دباؤ اور تناؤ پیدا کررہا ہے۔ یہ ممکن ہے ٹرمپ کو برطرف کردیا جائے۔ لیکن چہروں کے بدلنے سے نظام تو نہیں بدلتے!
ڈونلڈ ٹرمپ جو اندھا دھند جارحانہ پالیسیوں اور فیصلوں کے اعلانات کرتا جارہا ہے وہ امریکی ریاست کے اپنے خارجی اور سفارتی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ضروری نہیں کہ ٹرمپ ان کو مسلسل جاری رکھ سکے۔