تعلیمی اداروں میں بڑھتے جبر سے کیسے لڑا جائے؟
اتنی پولیس اب تھانوں میں نہیں ہوتی جتنی تعلیمی اداروں میں گھسا دی گئی ہے۔
اتنی پولیس اب تھانوں میں نہیں ہوتی جتنی تعلیمی اداروں میں گھسا دی گئی ہے۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد ریڈیکل نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے جنہیں انقلابی سوشلزم کے پروگرام پر جیتا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ اپنی ظاہریت میں جتنا سادہ نظر آتا ہے اپنی گہرائی میں کہیں زیادہ پیچیدہ معلوم پڑتا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جانے کے جو خواب حکمران دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ سراب اور دھوکہ ہیں۔ یہ منصوبے حکمرانوں کی لوٹ مار اور استحصال کے منصوبے ہیں۔
منافع کی ہوس اور تعلیم کے کاروبار کے باعث طلبہ کو گھٹن زدہ کیفیت میں رکھا جا رہا ہے، جہاں سیاست تو دور سانس لینے کی آزادی بھی محال ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں پرولتاریہ بحیثیت مجموعی ایک پسماندہ سماج میں جدید ترین فرائض کے حامل انقلاب کا امین اور علمبردار ہے۔
پاکستان کا شاید ہی کوئی دانشور، تجزیہ نگار، کالم نگار، بزنس مین، جرنیل یا سیاست دان ایسا ہوگا جس کوکبھی اس بلا نوشی کا اتفاق نہ ہوا ہو۔
سرمایہ داری اور سامراج کے خلاف فیڈل کاستروکی طویل ناقابل مصالحت جدوجہد نے اسے امر کر دیا۔
مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں، تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے، طلبہ سیاست پر پابندی ہے، پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیا کے نشانے پر ہیں۔