[تحریر: موسیٰ لادقانی، ترجمہ : فرہاد کیانی]
جون کے آغاز میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بشار الاسد 88.7 فیصد ووٹ لے کر کامیاب قرار پایا۔ اس کی حکومت کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ اگرچہ یہ کسی طرح سے بھی ’’آزادانہ‘‘ انتخابات نہیں تھے اور کئی لوگ ملک سے باہر پناہ گزین کیمپوں میں ہونے کی وجہ سے ووٹ نہیں ڈال سکتے تھے۔ اس کے باوجود یہ بات سامنے آئی کہ آبادی کا قابلِ ذکر حصہ اسد کی حمایت کرتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
2012ء میں قانون میں ترمیم کے ذریعے چالیس برسوں میں پہلی مرتبہ، انتخابات میں ایک سے زیادہ صدارتی امیدواروں کی اجازت دی گئی۔ اس کا واضح مقصدیہ تاثر دینا تھا کہ حکومت اصلاحات کر رہی ہے اور کسی حد تک پارلیمانی جمہوریت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس کی واحد وجہ 2011ء، میں ملک میں شروع ہونے والا انقلاب تھا، جو عرب ممالک میں جاری ایک بڑی انقلابی لہر کا حصہ تھا۔ چناچہ اپنے لوگوں کے ایک بڑے حصے پر بمباری اور انہیں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کرتے ہوئے، اسد نے ’’جمہوری اصلاحات‘‘ کرنے کا ڈھونگ رچا رہا تھا۔ ان ’’جمہوری انتخابات‘‘ کا کھوکھلا پن اس حقیقت سے عیاں ہے کہ دوسرے دونوں امیدوار بالکل غیر معروف تھے اور ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ حکومت ایسے انتخابات کی اجازت نہیں دے سکتی تھی جن سے اسد کی پوزیشن کسی طرح بھی کمزور ہو۔
یہ سب درست ہے۔ تاہم، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے کی شمولیت واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔ شام میں لوگوں سے بھرے پولنگ سٹیشنوں سے رپورٹنگ کرنے والے حیران مغربی صحافیوں نے اس کی تصدیق کی۔ لبنان میں ایک لاکھ کے قریب لوگ شامی سفارت خانے میں ووٹ دینے آئے۔ یہ منظر حکومت اور مخالفین کے لیے یکساں طور پر حیران کن تھا۔
اسد ان انتخابات کے ذریعے اپنے مخالفین کے خلاف جاری سیاسی اور فوجی لڑائی کے لیے رسمی طور پر عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسے اس میں کامیابی ہوئی، اور شائد یہ اس کی توقعات سے بڑھ کر تھی۔
طاقتوں کا توازن
گزشتہ ایک برس کے دوران شام میں طاقت کا توازن بہت بڑی حد تک اسد کے حق میں جا چکا ہے۔ حکومت کی وفادار فوج نے لبنان کی سرحد کے ساتھ پہاڑی علاقے پر پھر سے مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، دمشق کے گرد علاقو ں میں موجود باغیوں کا مکمل محاصرہ کر لیا ہے، اور حال ہی میں باغیوں کو حمص میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہے اور حلب میں ایسا کرنے کے لیے پیش رفت کر رہی ہے۔ باغی فوجوں کے حوصلے پست ترین سطح پر ہیں۔
اس کی وجہ محض روس اور ایران کی جانب سے مدد، یا حکومتی فوج کے ساتھ حزب اللہ جیسی شیعہ ملیشیا کی لڑائی میں شمولیت نہیں ہے۔ اگرچہ یہ اہم عوامل ہیں، لیکن صورتحال کی مکمل وضاحت کے لیے ناکافی ہیں۔ جنگوں اور انقلابات میں عسکری معاملات سیاسی حالات کے تابع ہوتے ہیں نہ کہ اس کے بر عکس۔
اگر شام کے بڑے شہروں میں مخالفین کے لیے حمایت موجود ہوتی تو اسد کی پوزیشن بہت کمزور ہو جاتی۔ اس کے برعکس وہ صورتحال کا رخ موڑتے ہوئے باغیوں کے قبضے میں موجود کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ایسا کیسے ممکن ہوا، جبکہ صرف تین سال قبل سارے ملک میں ایک انقلابی لہر جاری تھی، جس سے حکومت کا وجود خطرے میں پڑ چکا تھا۔
در حقیقت شام کے انقلاب کو کچھ عرصے کے لیے عوام کی ایک قابلِ ذکر پرت کی حمایت حاصل تھی۔ شروع میں پر امن مظاہروں اور بعد میں حکومت کی جانب سے خون ریز جبر کے ردِ عمل میں مسلح ہونے پر انقلاب کی حمایت بڑھتی جا رہی تھی، جبکہ اسد حکومت کرنے کا جواز کھوتا جا رہا تھا۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ انقلاب میں بہترین نوجوان شامل تھے، جو حقیقی طور پر ایک بہتر دنیا اور ایک بہتر ملک کے لیے لڑنا چاہتے تھے۔
تاہم، جلد ہی یہ صورتحال بدلنا شروع ہو گئی۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انقلاب کو بہت مشکل اندرونی معروضی حالا ت درپیش تھے۔ یہ بنیادی طور پر نوجوانوں کی تحریک تھی، جسے شدید جبرکا سامنا تھا، اور یہ اتنی سماجی قوتوں کو متحرک نہیں کر سکی جو اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے درکار تھیں۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ جن میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ ماضی کی اصلاحات کی بنیاد پر حکومت کو اب بھی کچھ نہ کچھ سماجی حمایت حاصل تھی۔
اس میں کلیدی عنصر اسد مخالف قوتوں کی جانب سے مسلح جدوجہد کا آغاز تھا۔ جدوجہد کو صرف مسلح تصادم کی جانب مرکوز کر دینے سے، تحریک کے اندر رجعتی قوتوں کے پیر جمانے کے لیے حالات سازگار ہو گئے، کیونکہ اس میدان میں حکومت اور اس کی باقاعدہ فوج کے مقابلے میں تحریک کی کمزوری فطری بات تھی۔ تحریک کے کچھ حصوں نے سامراج سے مدد لی، اور د وسرے انتہا پسند جہادی عناصر کے زیرِ اثر آگئے جو خلیجی ریاستوں میں اپنے پشت پناہوں کی جانب سے دیے گئے بے پناہ پیسے اور ہتھیاروں کے ساتھ میدان میں آگئے۔
جب رجعتی عناصر کو قبول اور بعض اوقات انقلابی کارکنوں کی جانب سے تحریک میں مدعو کیاجانے لگا، تورجعتیوں نے جلد ہی اپنے پیسے اور ہتھیاروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انقلابیوں کو بتدریج ایک جانب دھکیلنا، انہیں تنہا کرنا اور حتیٰ کہ انہیں قتل کرنا شروع کر دیا۔ بنیادی طور پر انہوں نے تحریک کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ یہ انقلاب نہیں رہا بلکہ اس کے الٹ میں تبدیل ہو گیا۔
یہ وہ فیصلہ کن وقت تھا جب ساری صورتحال تبدیل ہو گئی، نہ کہ جیسا لوگ کہتے ہیں کہ حزب اللہ کی لڑائی میں شمولیت اس کا موجب بنی۔ در حقیقت، حکومت کی حمایت میں حزب اللہ کی اس لڑائی میں شمولیت اس لیے ممکن ہوئی اور اسے جواز ملا کیونکہ تحریک سامراج اور اسلامی بنیاد پرستی کے ہاتھ میں واضح طور پر ایک اوزار بن چکی تھی۔
گلیوں میں ’’ہم سب شامی ہیں‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو عوام سے پذیرائی اور ہمدردی ملی۔ لیکن، جب ’’انقلاب‘‘ کا چہرہ گلیوں میں نعرے لگاتے نوجوانوں کی بجائے مسلح گروپ بن گئے جو ناٹو سے ملک پر بمباری کرنے کی اپیل کرتے، یا پھر جنونی جہادی جو شریعت پر مبنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے، تو شہری آبادی کے بڑے حصے نے اسد حکومت کی چھتری تلے پناہ ڈھونڈنا شروع کر دی۔ انقلاب ردِ انقلاب میں بدل گیا، اور خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کی سمتیں کچھ اور ہی تھیں، اور اس میں نسل کشی کے عناصر بھی شامل تھے۔
چناچہ خانہ جنگی میں دونو ں ہی فریق ردِ انقلابی تھے۔ لیکن ان میں سے ایک کیمپ میں خطے کے انتہائی جنونی جہادی شامل تھے۔ شہری علاقوں میں رہنے والوں کی بڑی تعداد ان سے خطرہ محسوس کر رہی تھی۔ جب انقلاب کی حمایت میں کمی آنا شروع ہوئی، اور وہ ردِ انقلاب میں تبدیل ہونے لگا، تو حکومت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے۔ اچھی خاصی سماجی بنیادیں دوبارہ حاصل کرلینے کے بعد، حکومت دفاع کی بجائے حملہ آور ہو گئی۔
باغی قوتوں میں صورتحال خراب ہوتی چلی گئی اور اسد کے مخالفین میں انتہا پسند اسلامی بنیاد پرست سامنے آتے گئے۔ اپوزیشن کیمپ میں برملا سامراج نواز قوتوں مثلاً نام نہاد آزاد شامی فوج (FSA) اور جہادی گروپوں کے درمیان بھی تقسیم موجود تھی، یہاں تک کہ مختلف اسلامی ملیشیا آپس میں بھی لڑ رہی تھیں۔ چناچہ مارچ2011ء کے انقلاب میں سے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
لہٰذا اسد خود کو ’’مہذب شام‘‘ کا محافظ بنا کر پیش کرنے میں کامیاب رہا۔ وہ آبادی کی اکثریت کو اسلامی بنیاد پرستوں سے ڈرا رہا تھا۔ صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اب اسد، بربریت کے خلاف جدید شام کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر تا ہے۔ صدارتی انتخابات کی حقیقت یہی ہے۔
آنے والے دنوں میں کیا ہو گا؟
اسد کے مخالفین کے حالات خراب ہیں۔ ملک سے باہر بیٹھی سیاسی اپوزیشن کے آپس میں بہت اختلافات ہیں اور زمین پر ہونے والے واقعات پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ٖFSA ٹوٹ کر بکھر جانے کے نزدیک ہے۔ زمین پر تین بڑی باغی قوتیں اسلامک سٹیٹ (IS) النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ ہیں۔ IS اور النصرہ فرنٹ دونوں القاعدہ سے نکلے ہیں، اور مشرقی شام کے وسیع علاقے اور تیل کے کنوؤں پر کنٹرول کے لیے آپس میں خونریز لڑائی لڑتے رہے ہیں، جبکہ موجودہ وقت پر IS کو برتری حاصل ہے اور اس نے اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا ہے۔ ماضی میں جہاد کے یہ ساتھی اب ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں خود کش حملوں اور سرکاٹنے جیسے تمام طریقے استعمال کر رہے ہیں۔
اسلامک فرنٹ، کئی ہزار جنگجوؤں کا ایک بالائی ڈھانچہ ہے جو سعودی عرب کی سرپرستی میں لڑ رہا ہے۔ اسے حکومت کے خلاف لڑائی کی قیادت کرنے اور القاعدہ کے گروپوں کی جگہ ایک اعتدال پسند متبادل کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ لیکن اس میں کوئی خاطر خوا کامیابی نہیں مل سکی۔ ایک جانب اس فرنٹ میں شامل گروپ مختلف نوعیت کے ہیں، جن میں سے ہر کسی کا اپنا ایجنڈا ہے، اور ان میں آپسی اختلافات اکثر منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں جس سے ان کی مشترکہ کاروائیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری جانب، اس فرنٹ سے مختلف گروپ حکومت اور IS کے خلاف لڑنے کے لیے اکثر النصرہ فرنٹ ساتھ اتحاد میں شامل ہوتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں امریکی سامراج کی کمزوری ایک بہت اہم عنصر ہے۔ امریکی اوران کے ساتھ شامل فرانسیسی اور برطانوی اسد کے خلاف لڑنے والی قوتوں کی پشت پناہی کرتے چلے آ رہے ہیں اور ایک وقت شام پر بمباری کے لیے بھی تیار تھے۔ لیکن انہیں روس کی جانب سے مخالفت کی بنا پر پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ وہ اسد کے خلاف لڑنے والی قوتوں پر اعتماد نہیں کر سکتے کیونکہ ان میں سے اکثر وہی لوگ تھے جن کے خلاف وہ افغانستان جیسی جگہوں پر لڑتے رہے ہیں۔ عراق میں ہونے والے حالیہ واقعات نے سامراج کے خدشات بڑھا دیے ہیں۔ متحارب اسلامی بنیاد پرست گروپ کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہوئے ہیں اور انہوں نے عراق کو مکمل طور پر غیر مستحکم کر دیا ہے۔
شام اور عراق میں ہونے والی پیش رفت سے مغربی سامراجیوں، خاص طور پر امریکیوں کو بہت ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ جن لوگوں کی وہ پشت پناہی کر رہے تھے، وہ اب اسد حکومت سے بھی بڑا مسئلہ ثابت ہو رہے ہیں۔
اوباما، کیمرون، اور اولاندے ’’معتدل‘‘ اور ’’قابلِ اعتماد‘‘ باغیوں کو اینٹی ٹینک اور اینٹی ایئر کرافٹ ہتھیار فراہم کرنا چاہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہت زیادہ تلاش کرنے کے بعد بھی انہیں ایسے لوگ نہیں مل رہے!اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ عراق میں IS امریکی ساختہ ہتھیار استعمال کر رہی ہے جو انہوں نے شام میں حاصل کیے تھے۔
امریکی اور یورپی حکومتیں اب باغیوں کو مسلح کرنے کے خطرناک نتائج کو سمجھ رہی ہیں۔ مغربی حکومتیں اعتدال پسندوں کو انتہا پسندوں سے الگ کر کے انہیں اسلحہ دینے کا پروگرام جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ کیسے کیا جائے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ اولاندے نے شرط عائد کی ہے کہ باغی گروپوں کو ہتھیار دینے سے قبل النصرہ فرنٹ کو باہر نکالنا ہو گا۔ اس بات پر اسے سعودی عرب اور اردن جیسی عرب حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی بھی حمایت حاصل ہے۔ ان تمام حکومتوں کو جہادی گروپوں کی جانب سے ان کی قومی سلامتی اور حکومت کے استحکام کو لاحق خطرات پر تشویش ہونا شروع ہو گئی ہے۔ عراق میں ہونے والے واقعات ان خدشات کو درست کو ثابت کر رہے ہیں، جہاں ملک ٹوٹنے کا عمل جاری ہے۔
شام میں باغی اندرونی لڑائیوں کے ایک نئے سلسلے کی وجہ سے مسلسل کمزورہو رہے ہیں۔ جنوبی شام، دمشق کے دیہی علاقوں اور شمال میں ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں میں نئے تناعات سلگ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان تنازعات میں اکثر IS ملوث ہوتی ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اپنی مخالف IS کے ہاتھوں کمزور اور ذلیل ہونے کے بعد النصرہ فرنٹ چھوٹی ملیشیاؤں کو مطیع کر کے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں اپنی امارت کا اعلان کرنے جا رہا ہے۔
شام کا مستقبل
یہ واضح ہے کہ اس صورتحال کی وجہ ہے، اسد کی پوزیشن مضبوط ہورہی ہے اور وہ کچھ عرصے سے سیاسی اور فوجی پیش قدمی کر رہا ہے۔ اسد کی پیش قدمی اگرچہ سست ہے، لیکن اگر حالات اسی طرح رہے تو وہ اپنے لیے اہم علاقوں سے باغیوں کو باہر نکال دے گا اور ملک کے غیر اہم حصے باغیوں کے پاس رہنے دے گا۔
اس کے علاوہ مقامی سطح پر بھی حکومت کی تشکیلِ نو کی جا رہی ہے۔ اسد حکومت کو ڈوبتا دیکھ کرمصلحتاً باغیوں کے ساتھ جا ملنے والے بہت سے عناصرپھر سے حکومت کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ اس کا ثبوت گزشتہ کچھ عرصے میں سینکڑوں باغیوں کی جانب سے ہتھیار ڈالنا ہے، جن میں کچھ کو مقامی علاقوں کی سکیورٹی فورسز کی صورت میں ریاست میں شامل کیا گیا ہے۔
اس عمل میں کچھ مقامی ’’شخصیات‘‘ ثالثی کا کردار ادا کررہی ہیں، اور حالات کو بہتر بناتے ہوئے ایک نئی ریاستی افسر شاہی کی بنیاد ڈال رہی ہیں۔ صدارتی انتخاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگ جنگ سے تھک چکے ہیں اور عوام ماضی کے معمول کی جانب لوٹ جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حکومت اس مایوسی سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
صورتحال کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جنگ کب تک جاری رہتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی سیاسی پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حکومت پہلے ہی تعمیرِ نو کے منصوبوں کی بات کر رہی ہے جس کے لیے مختلف ذرائع چند شامی کاروباری افراد اور روسی کمپنیوں کا ذکر کر رہے ہیں جو ٹھیکے لینے کے انتظار میں ہیں۔ یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ جنگ کے دوران حکومت کی بقا کے لیے بڑی رقمیں لگانے والے حکومت کے حمایتیوں کے لیے جنگ کے بعد حکومت کی بقا یقینی بنانے کے لیے پیسے لگانا معقول بات ہے۔
اس صورتحال میں ایران بھی کردار ادا کر رہا ہے۔ IS اورعراق میں متحارب دوسرے گروپوں کو روکنے کے لیے وہ عملی طور پر امریکہ کے ساتھ مل کر کام رہا ہے۔ ایران اسد کا بھی اتحادی ہے اور ان کے دشمن مشترک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسد کی حکومت کے خاتمے کی خاطر ایک مکمل جنگ کی امریکی اور یورپیوں کی پہلے جیسی خواہش بہت کم ہو چکی ہے۔ اسد انہی لوگوں کے خلاف لڑ رہا ہے جو اس کے خلاف لڑ رہے ہیں! اسد کی حمایت اور انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی آبادی کی پرت میں مختلف طرح کے لوگ شامل ہیں اور انہیں ایک ہم آہنگ گروہ سمجھنا غلط ہو گا۔ زیادہ تر لوگوں نے اسد کی ذات کو ووٹ نہیں دیا، بلکہ شام کی ریاست کی بقا، استحکام اور تحفظ کو ووٹ دیا ہے۔ در حقیقت، سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومت کے حامیوں میں شامی ریاست کی کرپشن اور حکمران حلقوں کی مراعات کے خلاف بہت زیادہ غصہ مجتمع ہے۔ مثلاً، اسد کی فتح کے اعلان کے بعد، ہوائی فائرنگ کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں چند عام شہری بھی نشانہ بن گئے۔ اس سے حکومت کے حامی بہت برہم ہوئے اور انہوں نے کہا کہ محاذ پر سپاہی اس لیے مر رہے ہیں کہ ان کے کرپٹ افسران انہیں ضرورت کے مطابق کافی گولیاں نہیں دے رہے اور انہی افسروں کے بیٹے سڑکوں پر غیر ذمہ دارانہ انداز میں بندوقیں چلاتے پھر رہے ہیں۔
محاذ پر لڑنے والے فوج کے سپاہی بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے جرنیل انتہائی کرپٹ ہیں۔ دیہات میں کوئی بھی علوی خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی بیٹا، بھائی یا خاوند جنگ میں نہ مارا گیا ہو۔ آخر یہ فوجی ایک دن محاذ سے گھر واپس جائیں گے اور ان کے کچھ مطالبات اور توقعات ہوں گی۔ اسی طرح ایسے محنت کش بھی ہیں جو حکومت سے وفادار رہے، جبکہ قیمتیں دگنی تگنی ہوتی گئیں اور حالاتِ زندگی میں گراوٹ آتی گئی۔
اگرتعمیر نو کے منصوبوں پر عمل ہوتا ہے، تو اس سے محنت کش طبقے کی نئی پرت پیدا ہوگی، جس کی اکثریت تباہ حال دیہی اور شہری درمیانے طبقے سے ہوگی۔ در حقیقت، الاذ قیہ جیسے ساحلی علاقوں میں کاروبار پہلے ہی عروج پر ہے کیونکہ حلب اور حمص سے فرار ہونے والے کئی صنعتکاروں اور تاجروں نے وہاں کاروبار شروع کیے ہیں۔ لیکن شام کی ریاست کے پاس تعمیرنو کے لیے د رکار وسائل موجود نہیں ہیں۔ کسی طرح کی بھی تعمیرِ نو نجی شعبے کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ بھاری بیرونی قرضہ اور ہولناک حالاتِ کار بھی آئیں گے۔
اگرچہ یہ نظر آ رہا ہے کہ حکومت خود کو بچانے میں کامیاب ہو چکی ہے، کم از کم آنے والے وقت کے لیے تو یہ درست ہے، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ طویل مدت میں وہ پہلے کی طرح حکمرانی نہیں کر سکیں گے۔ ماضی کے استحکام کی بنیاد شام کے عوام کی زندگیوں میں نسبتاً بہتری تھی، جس کی وجہ 1970ء اور1980ء کی دہائی کی منصوبہ بند معیشت تھی۔ مستقبل میں کسی مرحلے پر جا کر، اوپر بیان کی گئے تضادات طبقاتی جدوجہد کو تیز کرنے کا سبب بنیں گے۔
شام اور عرب انقلاب
شام میں 2011ء کی ابتدائی انقلابی لہر وہ کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہی جو تیونس اور مصر میں عوام نے حاصل کیا، یعنی حکومت کا خاتمہ، اور پھر بہت جلد ہی دو رجعتی قوتوں کے درمیان جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ اس سے شام کا انقلاب بہت پیچھے جا چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عوام کو بحال ہونے اور ایسی حالت میں جانے میں کچھ وقت لگے گا جب وہ خود کو اتنا طاقتور محسوس کریں گے کہ حکومت کو چیلنج کر سکیں۔ شام کے عوام بہت جلد سڑکوں پر آکر بڑے بڑے مظاہرے نہیں کریں گے۔
2011ء کی انقلابی تحریک اور اسے ملنے والی بڑے پیمانے کی حمایت نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ قانونی اور نیم قانونی راستے کھولنے کا کچھ تاثر دے کیونکہ وہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ اب پرانے طریقوں سے حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ محنت کش طبقے کے بحال ہونے پر یہ مستقبل میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کی جدوجہد کا راستہ بن سکتا ہے۔ تاہم اس وقت، کیونکہ حکومت مضبوط ہوئی ہے، وہ اس مضبوطی کو اپنے کنٹرول میں علاقوں پر گرفت سخت کرنے اور اختلاف کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے استعما ل کرے گی۔ اس طرح کی داخلی صورتحال کی وجہ سے، دوسرے ممالک خصوصاً مصر‘ ایران اور ترکی میں ہونے والی انقلابی پیش رفت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ بڑی سیاسی تحریکیں، خصوصاً اگر وہ شام کی جنگ میں شریک کسی ملک میں ہوں، شام کی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اور طاقتوں کا توازن تبدیل کر سکتی ہیں۔
شام کے عوام انتہائی خونریز طریقے سے سیاسی زندگی میں بیدار ہوئے ہیں۔ شام کے واقعات ایک بہت بڑا المیہ ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ شام کے عوام کی ترقی پسندانہ، سامراج مخالف، سرمایہ داری مخالف اور سوشلسٹ سیاست کی بہت گہری روایات ہیں۔ یہ روایات اس وقت ملبے، راکھ اور خون کے دریا کے بھاری بوجھ تلے بمشکل سانس لے رہی ہیں، اور ایک دن ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تیار ہونے پرپھر سے زندہ ہوں گی۔
متعلقہ:
’’یورپی جہادی‘‘
ایک سکے کے دو رخ
عراق: کالی آندھی کا اندھیر!
شام کی بربادی اور سامراج کا ڈھونگ
مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ