شام: ردانقلاب بمقابلہ ردانقلاب

[تحریر:موسیٰ لدقانی، ترجمہ :اسدپتافی]
اس وقت شام کے اندر لڑائی اس کے دو سب سے بڑے شہروں،دمشق اور حلب (الیپو) کے اندر تک پھیل چکی ہے،ہم یہ سمجھ سکتے اور کہہ سکتے ہیں کہ شام کی یہ بے چینی پچھلے کچھ مہینوں کے اندر ایک اپنی نوعیت کی مسلح گوریلا لڑائی میں بدل چکی ہے جسے شام کی آزاد فوج کی قیادت میں لڑ ا جارہاہے۔دیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ شام اس وقت کدھر جارہاہے،وہاں کیاہورہاہے؟انقلاب کیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ جانچنا ہے کہ انقلاب کی کیفیت کیاہے اور کیا امکانات ہیں؟
انقلاب کی واضح کمزوریاں
ہم اپنی ویب سائٹس پر اپنے پچھلے کئی مضامین کے اندر اس بات کی بارہاوضاحت کر چکے ہیں کہ کن وجوہات کی بنا پر شام کاا نقلاب محدود اور خونریز ہوچکاہے اور یہ بھی کہ اس کی وجہ سے شامی حکومت کو یہ مواقع میسر آئے ہیں کہ زیادہ لمبے عرصے تک خود کو قائم رکھ سکے۔ہم یہاں بھی ان وجوہات پر روشنی ڈالیں گے لیکن ہمارے قارئین ہماری ویب سائٹ www.marxist.comپر جا کر اس بارے مزید آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔
شام کی تحریک کا آغاز نوجوانوں نے کیاتھا اور جو عرب انقلابات کے شروع ہونے سے شدید متاثرہورہے تھے۔تاہم شام کے شہری حصے اس انقلابی تحریک سے حیران زدہ رہے۔کیا شام تیونس اور مصر کے انقلابات سے متاثر نہ ہوتا اور کیا یہ اپنے انقلاب کیلئے چند ایک سال مزید انتظارکرتا؟
شام کا محنت کش طبقہ کئی دہائیوں تک بدترین استحصال کی زد میں رہااور اسے مسلسل دبایا اور کچلا جاتارہا۔اس ضمن میں سب سے اہم ترین پہلویہ ہے کہ ابھی تک شام کے محنت کش طبقے کی کوئی بھی اپنی آزادتنظیم نہیں کہ جس کے ذریعے سے یہ اپنے طبقے کی نمائندگی کرسکے اور اپنے لئے کسی جدوجہد میں کوئی منظم ومتحرک کرداراداکر سکے۔یہ ایک فیصلہ کن کیفیت ہے۔تیونس اور مصر میں یہ محنت کش طبقہ ہی تھا کہ جس نے ریاست کو مفلوج کر کے رکھ دیاتھااور طاقت کا توازن عوام کے حق میں کردیاتھا۔یہاں شام میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔اس دوران کہ جب شہروں میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مظاہرے جاری تھے،کارخانے،بجلی گھر،ریلویز،ٹیلی کمیونیکیشن،ایرپورٹ،بندرگاہیں،سرکاری دفاتر غرضیکہ ہر کام کی جگہ پر کام ویسے کا ویسے معمول کے مطابق چلتارہا۔اور اس بات نے شامی حکومت کو ایک گہرا اعتماد اور یقین فراہم کیے رکھا۔اور اسی اعتماد کی بنیاد پر حکومت اپنے مخالفین کو آسانی اور مرضی سے کچلنے میں اب تک ڈٹی ہوئی ہے۔
شام ایک انتہائی متنوع اور پیچیدہ سماج ہے کہ جس میں بہت سی مذہبی اور نسلی پرتیں موجود ہیں۔یوں شامی سماج کا تانا بانا بہت ہی پرپیچ ہے۔شام کے حکمران طبقے کا تعلق علویوں سے ہے جو کہ ایک اقلیت ہے۔اسے علویوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں،دروزاور لبرل مسلمانوں کی تائیدوحمایت حاصل ہے۔حکومت ان سب کو سخت گیر بنیادپرستوں کے خوف میں مبتلا رکھ کر ان کا خوب استحصال کرتی چلی آرہی ہے کہ اگر ہماری جگہ یہ آگئے تو آپ سب کا حشرنشر کرکے رکھ دیں گے،آپ کی سماجی آزادیاں، حقوق،طرز زندگی وغیرہ سب ختم ہوجائیں گے۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ شامی حکومت کے خلاف برسرپیکار کئی عناصر مذہبی نعرے بازی بھی کررہے ہیں۔اور حکومت اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کرتی چلی آرہی ہے۔
شام کی جغرافیائی حدود انتہائی حساس ہیں جو کہ عراق،اردن،لبنان،اسرائیل اور ترکی سے ملتی ہیں۔یہ ایک ایسا میدان جنگ بن چکاہے کہ جہاں مختلف مفادات کے تضادات اپنا کھیل کھیل رہے ہیں۔عربی بادشاہوں کے وہابی عناصر ایران کے حمایتی شیعوں کے خلاف برسرپیکارہیں تو دوسری طرف شام چینی وروسی مفادات کے امریکی مفادات کے ساتھ ٹکراؤکی آماجگاہ بنا ہواہے۔جبکہ ترکی اور فرانس بھی اپنے اپنے مفادات کیلئے سرگرم عمل ہیں۔2003ء میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد سے اور اس کے نتیجے میں وہاں ہونے والی تباہی و بربادی کے بعد سے شامیوں کی اکثریت کسی بھی سامراجی مداخلت کے خوف سے سہمی ہوئی ہے۔شام کی حکومت بہت دلیری اور ڈھٹائی سے ایسے ہر خوف کا بھرپورفائدہ اٹھا رہی ہے اور انہیں اپنی طاقت کا سرچشمہ بنائے ہوئے ہے۔اور اس قسم کے ہر خوف کو سماج کی ہرمتعلقہ پرت میں اتارنے میں لگی ہوئی ہے۔
مذکورہ سبھی سماجی عوامل ان تمام تر کیفیات کے باوجود بھی ہر قسم کے خوف اور سراسیمگی سے کاٹے اور الگ کیے جاسکتے تھے،اور شام کی ہر قومیت ہر نسل اور ہر مسلک کے لوگوں کو ایک انقلاب کے جھنڈے تلے اکٹھا اور متحرک کیا جاسکتاتھا،بشرطیکہ یہاں ایک انقلابی تنظیم موجود ہوتی جس کے پاس انقلاب کا ایک واضح سیاسی،معاشی، سماجی اور ایک صاف سوشلسٹ پروگرام ہوتا۔ایسی تنظیم موجود ہوتی تو یہ شام کے محنت کش طبقے کو بھی منظم اور متحرک کرتی۔
شام کی سرکاری اپوزیشن، شامی نیشنل کونسل، قیادت کی اہلیت اور صلاحیت سے محروم ہے بلکہ یہ قیادت کے تصور کے الٹ کوئی شے ہے۔ شام کی نیشنل کونسل شام کے امیر تاجروں سے وابستہ ایک ٹولہ ہے جو کہ بشارحکومت کا خاتمہ چاہتاہے لیکن جسے عوام الناس کے مسائل سے قطعی کوئی سروکار نہیں ہے۔جبکہ درحقیقت ان کے مفادات عوام کے مفادات کے بالکل برعکس ہیں۔یہ نیشنل کونسل دراصل امریکی سامراج کی گماشتہ ہے۔جس کی بنیادیں شام سے باہر ہیں اور وہیں سے اسے دامے درمے سخنے امداد بھی فراہم کی جارہی ہے۔یوں یہ کسی طور بھی حقیقی اپوزیشن نہیں ہے۔سب سے مضر رساں ترین بات شامی نیشنل کونسل کی جانب سے یہ بار بار کی اپیلیں ہیں کہ سامراج،شام میں فوری مداخلت کرے۔ اس کیفیت نے انقلاب کے چہرے کو انتہائی مسخ کرڈالاہے۔اس کی بدولت شامی سماج کے بہت سے حصے بشار حکومت کی تائیدوحمایت کی طرف واپس جا چکے ہیں اور جا رہے ہیں۔اگر درست اور مختلف قیادت،پروگرام،نعرے اور مطالبے ہوتے تو سماج کے بڑے حصے کو انقلاب کی طرف مائل ومتحرک کیا جاسکتاتھا۔

جدوجہد جاری ہے
ہم نے دسمبر2011ء میں ایک مضمون شائع کیاتھا جس کا عنوان تھا کہ بشار حکومت انقلاب کو بڑے پیمانے پر کچلنے جارہی ہے،اس مضمون نے یہ تجزیہ پیش کیاتھا؛
’’شام کا انقلاب مختلف کیفیت میں اپنا اظہار کرتا جارہاہے۔اس میں نہ تو آزادٹریڈیونینیں شامل ہیں،اور سب سے بڑھ کر ایک انقلابی پارٹی کی غیر موجودگی،جو کہ انقلاب کی رہنمائی کرتی اور تحریک کے مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے کوششیں کرتی ہے۔
انقلاب کا دباؤ کبھی بھی اپنے نتائج کاانتظار نہیں کرتا۔انقلاب پھٹ پڑتے ہیں اور اپنی آزادانہ فوج کے ساتھ لڑائی لڑتے ہوتے ہیں۔اس وقت شام کے اندر بھی یہی ایک عوامی عنصر ہے جو اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ایک حقیقی متبادل کی غیرموجودگی میں یہ انقلاب کی قائدتنظیم قرارپاتی ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ موجودہ کیفیت میں انقلاب سے متعلقہ سبھی امور اورسوال اسی کے اردگرد ہی جنم لیں گے اور مجتمع ہوتے رہیں گے۔
ایک ’’آزاد شامی فوج‘‘Free Syrian Armyکی نوعیت بارے سوالات کا جہاں تک تعلق ہے تو کیا یہ واقعی حقیقی انقلابی سپاہیوں پر مشتمل ایک باڈی ہے اور کیا یہ واقعی انقلاب کی مسلح فوج بھی ہے کہ نہیں؟ یا یہ کہ کیا اس پر انتہاپسند بنیادپرست فوجیوں کا غلبہ ہے؟یا پھر یہ کہ کیا یہ سامراجیوں کا ہی کوئی کل پرزہ تونہیں ہے؟کوئی بھی سنجیدہ مبصر یا تجزیہ نگار جب گہرائی سے اس آزاد شامی فوج کو جانچتا اور پرکھتاہے تو وہ لامحالہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ اس کا نہ تو انتہاپسند بنیادپرستوں سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی کسی غیر ملکی طاقت سے کوئی تعلق واسطہ ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک سچ ہے کہ اس کی حقیقی نوعیت بھی ابھی تک آشکار نہیں ہو سکی۔
گزشتہ چندماہ کے اندر جو کچھ سامنے آیا ہے،اس نے ہمارے مذکورہ بالا تجزیے کو درست ثابت کیا ہے۔FSAکی مقبولیت،طاقت،تعداد اور اس کی اثرپذیری میں بے پناہ اضافہ ہواہے۔بشار حکومت کے خلاف لڑائی میں یہ مرکزی اہمیت حاصل کر چکی ہے۔لیکن پھر یہی ساری کہانی نہیں ہے۔اس کی ساری اہمیت اور مرکزیت عوامی تحریک کی قیمت پر متشکل ہوئی ہے جو کہ اب بہت پیچھے جا چکی ہے اب یہ لڑائی عوام نہیں بلکہFSAلڑرہی ہے۔مثال کے طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ دمشق کے نواح میں جو کچھ ہواہے اس میں FSAکی ہی منصوبہ بندی تھی جبکہ اسے عوام کی طرف سے کوئی مددومعاونت حاصل نہیں تھی۔ایسا ہی ہم نے الیپو میں بھی پچھلے دنوں میں ہوتے دیکھاہے۔حقیقت یہ ہے کہ دمشق کی کاروائی کے دوران تو ایک مرتبہ بشار کی فوج کو پسپائی کا بھی سامنا کرناپڑگیاتھا۔اور اگر اس وقت عوام اٹھ کھڑے ہوتے تو اس کا تخت الٹایاجانا ممکن ہوچکاتھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔عوام کہیں بھی سلسلہ ء واقعات سے منسلک تھے نہ متحرک۔یہ بہت ہی اندوہناک صورتحال ہے اور ایک رجعتی کیفیت ہے۔ یہاں ہم ایک بار پھر وہی سوال پوچھیں گے کہ جو ہم نے دسمبر2011ء میں پوچھاتھا کہ FSAکی نوعیت کیاہے ؟کیا یہ انقلاب کے آرزومندوں کا گروہ ہے یا پھر اس میں ایسے لوگ شامل ہیں کہ جن کے اپنے اپنے ایجنڈے اور عزائم ہیں۔
یہ بات کوئی راز نہیں کہ سعودی عرب اور قطر جیسی رجعتی حکومتیں کچھ پرائیویٹ فنڈ دہندگان کے ساتھ مل کرکچھ ملیشیاؤں کو لاکھوں کروڑوں ڈالرزاور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں،جو کہ اسی FSAکا ہی حصہ بنے ہوئے ہیں۔ترکی بھی FSAکے کچھ حصوں کو اپنے یہاں عسکری تربیت دے رہاہے۔اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے شام میں اپنے ہی اغراض اور اہداف ہیں۔فرانس بھی کچھ حصوں کی بھاری امداداور پشت پنای کر رہاہے اور اس کی شدید خواہش اور کوشش ہے کہ خطے میں ماضی کی طرح کا اپنا اثرورسوخ دوبارہ بحال اورقائم کرسکے۔اور اسی سے ہی اس کی بھاری سرمایہ کاری کا پتہ چلتا ہے۔امریکہ، عراق اور افغانستان میں اپنے ہاتھ پاؤں جلا لینے کے بعدبہت ہی محتاط دکھائی دے رہاہے اور وہ ’’کسی اور جنگ‘‘ میں ملوث ہونے سے ہچکچارہاہے۔ اگرچہ اس نے کھلے عام اعتراف کیا ہے کہ وہ کچھ ملیشیاؤں کو مددفراہم کر رہاہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کون ہے جو یہ ساری امداد وصول کر رہاہے؟معاملہ ہی کچھ اور نوعیت کا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ FSAکے لڑاکوں نے شکایت کی ہے کہ ان کے پاس وسائل اور اسلحہ ہی نہیں ہیں کہ جن کی مدد سے وہ لڑائی جاری رکھ سکیں۔انہوں نے دوسرے ملیشیاؤں پر اعتراضات کئے ہیں کہ وہ انہیں کچھ بھی دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔یہ کون اور کیسے لڑاکاگروپ ہیں جو کہ یہ ساری غیر ملکی امداد وصول کررہے ہیں اور ان کا ایجنڈا کیاہے ؟اس سوال پر واضح ہونا بہت ہی اہم اور ضروری ہے۔یہ سبھی وہ رجعتی اور لالچی گروپ ہیں کہ جن میں اور بشارحکومت میں چنداں کوئی فرق نہیں ہے۔یہ ’’بنیاد پرست نظریات ‘‘کے علمبردارگروپ ہیں اور یہ ان کے مفادات کے دفاع کرتے ہیں کہ جن سے یہ امداد حاصل کر رہے ہیں۔یعنی ان کے مفادات شام کے عام لوگوں کے مفادات سے بالکل متصادم ہیں۔یہ ردانقلاب کی قوتیں ہیں جو ایک طرف حکومت کے خلاف تو دوسری طرف حقیقی انقلاب کے خلاف بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس صورتحال کی حقیقی کیفیت یہ ہے کہ FSAمیں شامل اور سرگرم ہزاروں انقلابی لڑاکا بھی شریک ہیں۔اور جو کہ شام کے محنت کشوں کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ان میں سے بیشتر مقامی کمیٹیوں میں مربوط اور انقلابی کونسلیں بھی قائم کئے ہوئے ہیں۔لیکن پھر اسی FSAمیں ہی کچھ رجعتی عناصروعوامل بھی جڑے ہوئے ہیں اور جو غیر ملکی امداد سے فیضیاب ہورہے ہیں اور جو اس کی بدولت اپنی مذموم سرگرمیوں کو بڑھاوادینے میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی انقلابی عناصر کی قیمت پر۔
عوام الناس کی تحریک سے الگ ہونے کی کیفیت نے انقلابیوں کے عزائم اور حوصلے ماند کرنے شروع کر دیے ہیں۔وہ تنہائی کے احساس میں مبتلاہورہے ہیں اور اس کی وجہ سے ایک خلاء جنم لے رہاہے ؛ایک شدیدگہرا اور خطرناک خلاء جسے رجعتی اور موقع پرست قوتیں پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ایک واضح متبادل کی غیرموجودگی میں اور جدوجہد کو مسلح جدوجہد میں تبدیل کرلینے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جو بھی گروپ زیادہ بہتر مربوط، منظم اور سب سے بڑھ کر اسلحے کی رسد سے، کمیونیکیشن میں،رسل ورسائل میں،مالیات میں زیادہ تیز ہوں گے،یقینی طورپر وہی صورتحال پر قابو پانے میں بھی سبقت لے جائیں گے۔اور یہ وہی لوگ ہیں جو سب سے قدامت پسند سب سے رجعتی ردانقلابی اورفرقہ پرست عناصر ہیں کہ جو اخوان المسلمون،سلفیوں اور القاعدہ سے وابستہ عوامل سے وابستہ ہیں۔انہیں دیگر ذرائع کے علاوہ قطر اور سعودی عرب کی طرف سے بھاری رقوم اور امداد فراہم کی جارہی ہے۔انہیں جو بھی امداد اور حمایت دی جارہی ہے وہ سب کی سب سیاسی اہداف کے ساتھ مشروط دی جارہی ہے۔
اب تک ہم نے جو کیفیت بیان کی ہے وہ FSAکے اندر اور باہر جاری عمومی عمل کی نشاندہی کرتی ہے۔اور یہ انقلابی تحریک کی زوال پذیری کی عکاسی کرتی ہے۔ایسا صرف عوام کی تحریک میں عدم شمولیت کی مقدار ی حالت سے ہی عیاں نہیں ہورہاہے بلکہ معیاری حالت سے بھی۔ اس وقت جو اور جس قسم کے نعرے لگائے جارہے ہیں وہ ان سے بہت ہی مختلف اورمتضاد ہوچکے ہیں جو کہ انقلابی تحریک کے شروع ہوتے وقت لگائے جاتے تھے۔مثال کے طورپر تب ہم یہ سنتے تھے ’’ایک ہیں ایک ہیں،سارے شامی ایک ہیں ‘‘جبکہ اب جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ’’ ہم آرہے ہیں،ہم آرہے ہیں ؛اے اللہ ہم آ رہے ہیں‘‘۔مزید کیا تفصیل بیان کی جائے !یہ مذہبی اقلیتیں اور عام لبرل مسلمان اس کی وجہ سے انقلاب کے قریب آنے کی بجائے اس سے دور، بہت دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
شام کی حکومت کومناسب موقع مل گیا کہ وہ علویوں کے خلاف،سنی آبادی کے بھاری حصوں میں سخت اشتعال انگیزی کا ماحول بناتے ہوئے قتل عام کرتی چلی گئی۔اور یوں تحریک فرقہ پرستی میں تقسیم کر دی گئی۔یہ کسی طور معمولی ایشو نہیں تھا۔اس کی وجہ سے سخت گیر مذہبی عناصر کو علویوں کے خلاف رجعتی ابھار کا موقع ملتا چلاگیا۔اور ایسے نعرے سامنے آنے لگے جن کا عام لوگوں کے ساتھ کوئی سروکار نہیں تھا’’آؤ اپنے مسلک اپنے مذہب کے دفاع کیلئے ایک ہوجاؤ‘‘’’آؤ سنی مسلمانو!اپنا دفاع کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوجاؤ‘‘’’یہ کفروالحاد کے خلاف جہاد کا وقت ہے ‘‘’’علوی ملحد ہیں اورا سلام کے دشمن ہیں‘‘ان نعروں سے اور کچھ تو ہو نہ ہو لیکن سماج میں تقسیم،منافرت اور تعصب میں ضرورشدت آتی چلی گئی۔یہی نہیں بلکہ لوگوں کی بڑی تعداد بھی حکومت کی طرفدار ہونا شروع ہوگئی۔

اندھیر نگری میں بدلتا شام
شام کی موجودہ انتہائی پرپیچ کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بہت ہی محال ہے کہ یہ سب کس انجام پر جا کر منتج ہوسکے گا۔یہ واضح ہے کہ بشار الاسد کی حکومت واقعات کے نتیجے میں منہد م ہو جائے گی۔یہ اپنے اندر سے ہی کھوکھلی ہوتی جا رہی ہے۔ابھی حال ہی میں بشار حکومت سے جو صاحب الگ ہوکر ’’انقلاب‘‘کے ساتھ آن ملے ہیں وہ بشارکا وزیراعظم ہے۔اسی سے حکومت کی اندرونی مضبوطی کا پتہ چل جاتا ہے۔لیبیا کی طرح سے یہاں بھی یہی بتایاجاتاہے کہ حکومت بہت مسلح و مستحکم ہے،لیکن اس کے دن گنے جا چکے ہیں اور یہ بات حکومت کے اکابرین کو بھی سمجھ آچکی ہے اس لئے وہ اپنے اچھے دنوں کو بچانے ا ور برے دنوں کی زد میں آنے سے بچنے کیلئے حکومت سے کنارہ کش ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ حقیقت کہ اس قسم کے چھوڑجانے والے عناصر جس طرح سے ’’انقلاب‘‘کے ساتھ اپنی وفاداری یا وابستگی کا عندیہ دیتے ہیں اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ دونوں طرف کس قسم کی رجعتی حالات موجودہیں۔اس قسم کے لوگ ڈوبتے ہوئے جہاز سے انقلاب کی کشتی میں چھلانگ نہیں لگانے جارہے ہیں بلکہ اس کی وجوہات بالکل ہی مختلف اور الٹ ہیں۔ وہ مستقبل کیلئے خود کو تیار کررہے ہیں۔جہاں وہ انقلاب کو اب سے بھی زیادہ بھیانک انداز میں تہس نہس کر سکیں گے۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بشار حکومت کے خاتمے کا کسی طور بھی یہ مقصد نہیں ہوگا کہ انقلاب کامیاب ہوگیا ہے۔اس کے برعکس یہ حقیقت ہے کہ انقلابی تحریک پہلے ہی پسپائی اور شکست سے دوچارہوچکی ہے کیونکہ اس کا قیادت پر سے کنٹرول اس کے پاس نہیں رہاہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یہ سارا عمل واپس نہیں آئے گا۔لیکن اس وقت جو کیفیت اور رحجان ہے وہ یہی ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔واپسی کیلئے شام کے حقیقی انقلابیوں اور نوجوانوں کو سرچڑھ کر بولنا اور کچھ کرناہوگا۔
تاہم تجزیہ یہاں آکے رک بھی نہیں جاتا۔کیونکہ آخری معرکے میں مختلف عناصروعوامل سامنے آسکتے ہیں۔ بشار حکومت جو کہ شروع دن سے ہی ساری صورتحال کو فرقہ پرستانہ منافرت میں الجھائے رکھنے کی سرتوڑ کوشش کرتی آرہی ہے لیکن اب یہ ساحلی علاقوں میں سے جہاں علویوں کی اکثریت ہے،اپنی سماجی بنیادوں سے محروم ہو سکتی ہے۔یہاں ایک خانہ جنگی پھوٹ سکتی ہے جو پھیل بھی سکتی ہے۔یہاں تک کہ یہاں ایک ڈی فیکٹو حکومتی سیٹ اپ بھی قائم ہوسکتاہے۔یہ بات اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ممکن ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں علوی دمشق میں موجود حکومت کے دفاع کیلئے خون کے اپنے آخری قطرے تک لڑنے کو ترجیح دیں گے یہاں تک کہ دمشق کی حکومت کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ایران اور روس جیسے ممالک ان ملیشیاؤں کو سپورٹ کرنے کیلئے موجود ہیں۔دوسری طرف سعودی عرب،قطراور امریکہ جیسے ممالک اپنے وفادار ملیشیاؤں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ایک خانہ جنگی اس ساری کیفیت میں کسی بھی ترقی پسند عنصر کی موجودگی کی نفی کرے گی۔اور یہ حالت لبنان کی جیسی خانہ جنگی کو جنم دے گی۔اور جو بلا شبہ شام اور شام کے لوگوں کیلئے تباہی وبربادی ثابت ہوگی۔
اس منظرنامے میں ایک اور اہم عنصر،کرد وں کی صورتحال ہے۔جب حکومت کو یہ محسوس ہوا کہ وہ کرد علاقے پر سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے تو اسے KPPکے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کی امداد سے ہاتھ دھونا پڑجائے گا۔اور ترکی کبھی نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو۔اسے خودترکی کے اندرکردوں کی سرکشی کے ابھرنے کا خطرہ لاحق ہو سکتاہے۔اس طریق کار سے بشار حکومت دو مقاصد حاصل کررہی ہے ایک تو یہ کردعلاقے پر اپنے یونائٹڈ اپوزیشن فرنٹ کوختم کردے گی کہ جس پر اس کا کنٹرول اب زیادہ عرصے تک نہیں رہ سکتا۔دوسرا اسے یہاں ایک غیرملکی تصادم کا تنازعہ بھی میسر آسکتاہے جو کہ ترکی کی طرف سے ممکن ہے۔
اگر رجعتی انتہا پسند اسلامی دھڑے ’’بغاوت‘‘کی قیادت پر قابض ہوکے ایک اسلامی مذہبی اور علوی مخالف پلیٹ فارم کی صورت میں سامنے آئے توعلوی،عیسائی اور کچھ دوسری اقلیتیں یقینی طورپر بشار حکومت کا ساتھ دیں گی۔جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ شام کے محنت کش اور نوجوان،بشار حکومت اوررجعتی بنیادپرستوں،دونوں کے خلاف متحدومنظم ہو جائیں۔آخرالذکر خود کو FSAکے جھنڈے تلے متحرک کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔لیکن اب جبکہ یہ رجعتی عناصر زورپکڑتے جارہے ہیں،اس قسم کی کاوش آسان نظر نہیں آرہی۔ایک سوشلسٹ پارٹی کا نہ ہونا جو کہ سماج کی سبھی پرتوں کو باہم ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکے اور انہیں جدوجہد کیلئے متحدومنظم کر سکے،اس سارے منظر نامے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اگر کسی نہ کسی طرح سے ایک فرقہ وارانہ خانہ جنگی سے بچ بھی جایا جائے توبھی شام کیلئے ممکنہ بہترین کیفیت یہی لگتی ہے کہ یہ لیبیا بنا دیا جائے،شکستہ حال ٹوٹا پھوٹاشام۔یہاں کوئی ایسی قابل ذکر سیاسی قیادت ہی موجود نہیں جس کے پاس ایک انقلابی پروگرام ہواور جو لوگوں کو اس کے اردگرد اکٹھا کر سکے۔موقع پرست عناصر اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سامنے آرہے ہیں۔اور یہ ہر طرف پھلتے پھولتے جا رہے ہیں۔اور قیادت کے دعوے بھی کررہے ہیں۔عوام اس سب سے بہت عاجز آچکے ہیں اور خاص طورپر ان موقع پرست عناصر سے تو وہ سرتاپا تنگ آئے ہوئے ہیں۔بشارالاسد کے خلاف FSAکے پلیٹ فرام سے لڑ رہے یہ مختلف ملیشیا اب آگے چل کر بشار کے جانے کے بعدطاقت واقتدار کیلئے آپس میں لڑیں گے۔ہمیں اس پر رتی برابر بھی یقین نہیں ہے کہ بشار کے خاتمے کے بعد شام کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل بھی ختم ہو جائیں گے۔ اور یہی ہمیں اس وقت شام کے انقلابیوں ا ور نوجوانوں کو باور کرواناہے۔بشار کے بعد سامنے آنے والی حکومت بشار سے بھی زیادہ سخت اور سفاک ہو سکتی ہے۔

مارکس وادیوں کے فرائض
مارکس وادی کہیں بھی کبھی بھی کسی تجرید میں کام نہیں کرتے ہوتے نہ ہی ان کیلئے صورتحال محض سیاہ یا سفیدہواکرتی ہے۔کسی بھی صورتحال کا تجزیہ ہمارے لیے عمل کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہواکرتاہے۔یہ دراصل ایک کوشش ہوتی ہے کہ ہم خودکو ممکنہ درست عمل کیلئے تیار کر سکیں۔شام کی اس قدر پیچیدہ اور سنگین کیفیت میں ہم مارکس وادیوں کا کیا موقف ہے؟FSAبارے ہماراکیانقطہ نظر ہے !انقلابیوں اورنوجوانوں بارے ہماری کیاپوزیشن ہے !FSAکے ملیشیا،مقامی رابطہ کمیٹیاں،انقلابی کونسلیں وغیرہ سب انقلابی عوام اور سپاہیوں کی برتری کی علامات ہیں۔لیکن ان میں سے کچھ رجعتی عناصر کے زیراثر آچکے ہیں۔ان میں سے کئی دوسرے ابھی تک انقلاب کے ساتھ اپنے جمہوری عوامی غیر فرقہ وارانہ رحجان پر قائم ودائم ہیں۔
شام کی انقلابی تحریک کی سب سے بڑی کمزوری،جس کی وجہ سے اس قسم کے رجعتی عناصر اس میں گھس آئے ہیں،خالصتاً سیاسی نوعیت کی ہے۔ وہ جمود جس میں تحریک خود کو دھنساہوادیکھ رہی ہے اور جس کی بدولت یہ تیزی کے ساتھ عسکریت پسندی کی طرف رخ کر چکی ہے۔اگر یہ ایک انقلابی پروگرام سے جڑی ہوتی جس میں جمہوری، سماجی ا ور معاشی مطالبات بھی شامل ہوتے تویہ شام کے سبھی لوگوں کو بلاامتیاز زبان،نسل اور مسلک اپنی طرف کھینچتی اور جس کی مددسے حکمرانوں کے پاؤں تلے سے زمین کھینچی جاسکتی تھی۔
ایک انقلابی جنگ کو صرف اسلحے کے سوال تک محدود نہیں کیا جاسکتاہے۔اس کیلئے سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ یا مرحلہ ایک انقلابی پروگرام ہواکرتاہے۔تاریخ میں بارہا کم تکنیک اور کم مادی وسائل کے باوجود انقلابی قوتوں نے اپنے سے بڑی قوتوں، فوجوں اور حکمرانیوں کو شکست سے دوچارکیاہے۔یہ انقلابی قوتیں ایک ایسے پروگرام سے لیس ہوتی تھیں کہ جس کی بدولت وہ اپنے سے بڑی فوجوں اورریاستی ڈھانچوں میں طبقاتی بنیادوں پر دراڑیں ڈال دیا کرتی تھیں۔اس بنیادپر ہمارا نقطہ نظر ہے کہ یہی وہ پہلی بنیادی چیز ہے جسے سامنے لایا جاناضروری ہے۔ہم کس مقصد کیلئے لڑ رہے ہیں؟یہ کہناکوئی معنی نہیں رکھتاہے کہ ہم تو جی بشار کی حکومت کو گرانے کیلئے لڑ رہے ہیں۔آبادی کی بڑی اکثریت کیلئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ چلا جائے اور اس کی جگہ کوئی اور آجائے۔خاص طورپر یہ کہ اس کی جگہ کوئی مذہبی آمریت مسلط ہو جائے۔بشار الاسدکی جگہ اخوان المسلمون کے نمائندہ تاجروں کی حکومت کسی طور بھی شام کے انقلابیوں اور نوجوانوں کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔خاص طور وہ جو اپنے کو لبرل کہتے یا پھر جو وہابی نہیں ہیں۔یہ آئیڈیا کہ بشار کی جگہ عراق اور افغانستان کی طرح کا کوئی امریکی پھٹو لایا جائے گا،یاپھر ترکی یا سعودی بادشاہت کا کوئی گماشتہ آئے گا،یہ سب شامیوں کی اکثریت کی قومی حمیت اور ان کی سامراج دشمن روایات کیلئے ناقابل قبول ہوگا۔ہم مارکس وادیوں کا فرض بنتاہے کہ ہم انتہائی صبروتحمل کے ساتھ ایک سوشلسٹ پروگرام کی ضرورت کو اجاگر کریں۔یہی وہ واحد پروگرام ہے جس کی بدولت لوگ اپنے جمہوری آدرشوں کی بھی تکمیل کر سکیں گے،اور اپنے سماجی و معاشی مطالبات کی بھی تکمیل کر سکیں گے۔حقیقی انقلابیوں کو بہر حال خو دکو ایک آزاد قوت کے طور پر منظم کرنا ہوگا۔اور ایک جرات کے ساتھ اجتماعی طورپر اپنے نظریات کو لوگوں تک لے جانا ہوگا۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ مندرجہ ذیل پروگرام کو سامنے رکھتے ہوئے ہی انقلابی رجعتیت کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔

مذہبی نہیں بلکہ طبقاتی جنگ۔جہاد نہیں بلکہ عوامی انقلاب
*انقلاب کے حقیقی اور خالص نظریات کا دفاع کیاجائے۔جمہوریت،آزادی،سماجی انصاف،ہر ایک کیلئے سب کیلئے عزت اور برابری۔یہی وہ اصول ہیں جن کیلئے ہزاروں انقلابیوں نے اپنی جانیں دی ہیں۔
*بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ ہی اس کی اور اس کے عزیزواقارب کی طرف سے لوٹی جانے والی رقم بھی ضبط کی جائے۔اس کے ساتھ ہی شام کے سبھی مادی وسائل کو شام کے لوگوں کی اجتماعی ملکیت اور ان کے جمہوری کنٹرول میں دیاجائے۔
*سامراج کی سبھی شکلیں اور مداخلتیں نامنظور۔شام میں امریکہ،فرانس،روس،قطر،سعودی عرب سمیت ہر غیر ملکی مداخلت نامنظور۔شام کے عوام زندہ باد۔
*ملک کسے سبھی مسلح ڈھانچوں کو ملک میں ہر سطح پر قائم انقلابی کونسلوں کے سیاسی کنٹرول میں دیاجائے۔
*تمام کی تما م انقلابی کونسلوں اورFSAکوسختی کے ساتھ جمہوری طرزپر استوار کیا جائے۔ایک فرد،ایک ووٹ۔انقلاب کیلئے سرگرم تنظیموں کے اندربحث مباحثوں کے دفاع کی مکمل آزادی۔کسی طور بھی غیرجمہوری انداز میں اکثر یت پر اپنی رائے یا فیصلہ مسلط کرنے کی کوئی اجازت نہیں۔
*حکمران دھڑوں میں سے برآمد ہونے والے اور سامراج کی گماشتہ اپوزیشن کونسلوں کے موقع پرستوں سے مکمل گریزاور احتیاط کی جائے۔ عملی طور پر جدوجہد میں شریک ہونے والوں کے نمائندوں پر مشتمل جمہوری کونسلیں ہی سبھی فیصلے کریں گی۔
*کام کی سبھی جگہوں پر کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ محنت کش طبقہ اانقلاب کییلئے ایک قوت کے طورپر منظم اور متحرک کیاجاسکے۔ایسی کمیٹیوں کو مقامی اور قومی سطح پر باہم مربوط اور سرگرم کرتے ہوئے ہی وہ بنیادیں تعمیر ہوجائیں گی جن پرشام کے غریبوں اور محنت کشوں کی حقیقی نمائندہ حکومت قائم ہو سکے گی۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو لامحالہ اقتدار رجعتیت کے نمائندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گااور جو کسی طور بھی شام کے محنت کرنے والوں کا ایک بھی حقیقی مسئلہ حل نہیں کریں گے۔
مارکسسٹ ڈاٹ کام، 15اگست2012ء