[تحریر: لال خان]
راولپنڈی میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ ایک مرتبہ پھر ثابت کرتا ہے کہ یہ ناسور ’’آپریشن‘‘، ’’قومی یکجہتی‘‘ کی نعرہ بازی یا تمام ’’سیاسی قوتوں‘‘ کے ’’ایک پیج‘‘ پر آجانے سے ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ کینسر ریاست، معاشرت اور معیشت میں اتنا گہرا سرایت کئے ہوئے ہے کہ علاج کے لئے پورے نظام کو ہی اکھاڑنا ہوگا۔ فرانس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 20 افراد کی ہلاکت سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی اور مذہبی جنون کی وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں کے دوران شام دنیا بھر کے جہادیوں کی آماج گاہ کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ یورپ سے بھی جہادیوں کی بڑی تعداد شام آرہی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق فرانس ہے۔ فرانس میں مسلمان آبادی کے بڑے حجم (50 لاکھ) کے پیش نظر یہ کوئی حیران کن بات بھی نہیں ہے۔ لیکن پیرس میں 7 جنوری کو ہونے والی دہشت گردی کے حقیقی ذمہ دار کیا فرانس کے حکمران نہیں ہیں؟ یورپ کے کئی دوسرے ممالک کی طرح فرانسیسی حکومت شام میں سامراج کی پراکسی جنگ لڑنے والے مذہبی جنونیوں کو ’’فریڈم فائٹر‘‘ ثابت کرنے میں پیش پیش رہی ہے۔ آج کل ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے نام سے عراق اور شام میں قتل عام کرنے والا گروہ کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ، برطانیہ، قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ساتھ فرانس سے بھی بھاری عسکری اور مالی مدد حاصل کررہا تھا۔ اب یہی ’’فریڈم فائٹر‘‘ یکا یک ’’دہشت گرد‘‘ کیوں ہو گئے ہیں؟اس لئے کہ انہوں نے چند ایک مغربی باشندوں کے سربھی قلم کر ڈالے ہیں؟ لیکن ’’انسانی حقوق‘‘ کے یہ مغربی علمبردار تب کہاں تھے جب یہی لوگ گزشتہ کئی سال سے شام میں عورتوں اور بچوں سمیت لاکھوں لوگوں کو زبح کررہے تھے؟ ’’مہذب دنیا‘‘ کے ان حکمرانوں کو کیا معلوم نہیں تھا کہ اربوں ڈالر خرچ کرکے پوری دنیا سے جو جہادی گروہ شام میں جمع کئے جارہے ہیں وہ انسانی تاریخ میں بربریت کے نئے معیار مقرر کرنے میں مصروف عمل ہیں؟ منافقت جہاں ختم ہوتی ہے ان سامراجیوں کی سیاست اور سفارت وہاں سے شروع ہوتی ہے۔
عالمی سطح پر دہشت گردی کی کاروائیوں میں ہونے والی سالانہ ہلاکتوں کی تعداد عراق جنگ سے قبل ایک ہزار تھی جو 2014ء میں 19 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2014ء میں ہونے والی ہلاکتیں 2013ء کی نسبت 30 فیصد زیادہ ہیں۔ ’’القاعدہ‘‘ کو جواز بناکر عراق پر حملہ کیا گیا تھا۔ امریکی جارحیت سے قبل عراق میں القاعدہ کا نام و نشان بھی نہ تھا لیکن آج کا عراق ایسے خوفناک جہادی گروہوں کا علاقائی گڑھ بن چکا ہے جن کے سامنے القاعدہ بھی ’’معتدل‘‘ معلوم ہوتی ہے۔ شام اور عراق اس خونخوار سامراجی سلسلے کی صرف دو کڑیا ں ہیں۔ امریکی سامراج کی جانب سے جدید اسلامی بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے کی پالیسی کا آغاز دوسری جنگ عظیم بعد ہوا تھا۔ آج کے ’’طالبان‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ کو افغانستان میں ڈالر جہاد لڑنے کے لئے امریکی سامراج نے ہی 1980ء کی دہائی میں سعودی بادشاہت اور پاکستانی ریاست کے ذریعے عسکری اور نظریاتی طور پر منظم اور مسلح کیا تھا۔ آج شام، عراق، افغانستان اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں دہشت اور وحشت کی جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اس ڈالر جہاد کا ہی تسلسل ہے۔ مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور جنوب ایشیا کو عدم استحکام سے دو چار کر کے مغربی سامراج نے وہ دیو پیدا کیا ہیں جس کے سائے اب ان کے اپنے ممالک پر بھی منڈلا رہے ہیں۔
شام میں لڑنے والے یورپی جہادی اب واپس لوٹ رہے ہیں اور فرانس سمیت پورے یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیاں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہیں۔ اب ’’خطرناک دہشت گرد‘‘ بن جانے والے سابقہ ’’فریڈم فائٹر ‘‘شام اور عراق سے قتل و غارت گری کے جدید فنون میں ماہر ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ مقامی آبادی میں گھل مل کر لمبے عرصوں کے لئے غائب ہوجاتے ہیں اور پھر اچانک نمودار ہو کر وار کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے پیرس میں کیا تاکہ یورپ کے لوگ بھی شام کی روز مرہ زندگی کا تھوڑا مزہ چکھ سکیں۔ جیسا کہ ایک فرانسیسی خاتون نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’مشرق وسطیٰ اب فرانس میں آ گیا ہے۔ ‘‘
مغربی کارپوریٹ میڈیا سامراج کی گماشتگی کا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے سارے تنازعے کو ’’مغربی جموریت‘‘ اور ’’مذہبی بربریت‘‘ کی جنگ بنا کر پیش کررہا ہے۔ دوسرے خطوں میں ’’مغربی جمہوریت‘‘ کی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلے مغرب پہنچ کر ’’بربریت‘‘ کیسے بن جاتے ہیں؟یہ سوال بہرحال حل طلب ہے!اپنی پالیسیوں کے مضمرات کو ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ قرار دینا سامراج کی پرانی واردات ہے تاکہ ایک طرف ’’جمہوریت کی حفاظت‘‘ کے نام پر اپنے عوام کے جمہوری حقوق صلب کئے جاسکیں تو دوسری طرف ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ نئی جنگوں کے جواز تراشے جاسکیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ جہادیوں کی نظریاتی اساس بھی ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا تھیسس ہے جس کا موجد سی آئی اے کا دانش ور سیمول پی ہٹنگٹن تھا!
مذہبی جنون کسی ایک مذہب کے پیروکاروں تک محدود نہیں ہے۔ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کار اپنے جرائم کا جواز کیا مذہبی صحیفوں کو نہیں بناتے؟صیہونی ریاست کی بنیاد کیا دیومالائی تصورات نہیں ہیں؟ نریندرا مودی جیسے ہندو بنیاد پرست کیا جہادیوں سے کم خونخوار ہیں؟عیسائیت میں بھی بنیاد پرستوں اور مذہبی جنونیوں کی کمی نہیں ہے۔ عراق پر بمباری کا آغاز جارج ڈبلیو بش اور ٹونی بلیئر نے مشترکہ ’’دعا‘‘ سے کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں لاکھوں انسانوں کے قتل کا ذمہ دار ان دو’’ راسخ العقیدہ عیسائی‘‘ حضرات سے زیادہ کوئی نہیں ہے۔
تارکین وطن کی مخالفت اور مسلمان دشمنی پر سیاست کرنے والی فاشسٹ پارٹیوں کا یورپ میں ابھار سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی واضح علامت ہے۔ پیرس میں دہشت گردی کے بعد یہ سماجی بیماری اور بھی شدت اختیار کرے گی۔ بظاہر مخالفت کے باوجود، مختلف یورپی ممالک میں انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور اسلامی بنیاد پرست ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔ دونوں رجعتی رجحان درحقیقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ گزشتہ عرصے میں مسلمان تارکین وطن کی نئی نسل کا رجحان مذہبی بنیاد پرستی کی طرف بڑھا ہے لیکن اس مظہر کی وجوہات مذہبی سے زیادہ معاشی اور سماجی ہیں۔ غربت، بے روزگاری، ریاستی مشینری (خاص کر پولیس) کا متعصب رویہ، سماج کی عمومی گراوٹ، بہتری کی کسی امید سے خالی مستقبل اور سماجی بیگانگی ہی نوجوان نسل کو مذہب اور ماضی بعید کے تعصبات میں پناہ تلاش کرنے پر مائل کرتی ہے۔
سامراجی ریاستوں کو داخلی اور خارجی سطح پر اپنے مفادات آگے بڑھانے کے لئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ’’بیرونی خطرہ‘‘ درکار ہوتا ہے۔ ماضی میں سوویت یونین کی طرف سے یورپ اور امریکہ کو ’’کمیونزم کا خطرہ‘‘ ہمیشہ لاحق رہتا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جنگوں، اسلحہ سازی اور ریاستی جبر کو جاری رکھنے کے لئے کوئی نیا ’’خطرہ‘‘ چاہئے تھا جو پہلے سے ’’تیار شدہ ‘‘اسلامی بنیاد پرستی کی شکل میں میسر آگیا۔ 1979ء میں سوویت یونین کے خلاف شروع ہونے والا ’’جہاد‘‘ اب دو دھاری تلوار بن گیا۔ جہادی دہشت گردی کو پراکسی جنگوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور پھر اسی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘‘میں بوقت ضرورت براہ راست فوجی جارحیت بھی کردی جاتی ہے۔
آج سارا یورپی میڈیا اسلامی بنیادپرستی کو ’’جمہوری روایات‘‘ کے لئے ’’سب سے بڑا خطرہ‘‘ قرار دے رہا ہے۔ کل جب یورپ کے نوجوان اور محنت کش اپنے بنیادی حقوق کے لئے کوئی ہڑتال یا مظاہرہ کریں گے تو یہی میڈیا انہیں دہشت گردوں سے بھی بڑا ’’شر پسند‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے گا۔ یہی سرمایہ داری کی ’’جمہوری روایات‘‘ ہیں۔ پیرس میں دہشت گردی کے بعد جذبات کی لہر عوام کو وقتی طور پر تو کنفیوژ کر سکتی ہے لیکن ابراہم لنکن کے بقول ہر کسی کو ہر وقت بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ فرانسیسی ریاست گہرے معاشی، سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ فرانس کے محنت کش عوام بہت جلد اپنی حقیقی مسائل کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں گے۔ فلاحی ریاست کے خاتمے،بیروزگاری، انتہاؤں کو چھوتی عدم مساوات، نہ ختم ہونے والے ’’آسٹیریٹی‘‘ اور گرتے ہوئے معیار زندگی کے خلاف پورے یورپ میں جو عوامی طوفان امڈ رہے ہیں ان کا رخ زیادہ دیر تک نہیں موڑا جاسکتا!
متعلقہ: