دوستی دشمنی کے ناٹک

| تحریر: لال خان |

برصغیر کی رجعتی تقسیم سے جنم لینے والی ریاستوں کے درمیان ’’لَو ہیٹ‘‘، دوستی اور دشمنی، مذاکرات اور تنازعات، امن اور جنگ کا گھن چکر آج تلک جاری ہے۔ساڑھے تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور معاہدوں کا کوئی شمار نہیں۔ اقوام متحدہ کی قرادادیں اور مذاکرات کے طویل سلسلے دیر پا امن کے قیام کے لئے بے سود ثابت ہوئے ہیں۔ آج، جوہری ہتھیاروں اور وسیع تباہی کی جدید جنگی ٹیکنالوجی کے پیش نظر، کسی بڑی اور اعلانیہ جنگ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن جدید صنعتی معاشرے کی تعمیر میں ناکام دونوں اطراف کے حکمران دور رس امن قائم کرنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ تعلقات کی تلخیاں زیادہ تر شعوری اور ’’کنٹرولڈ‘‘ ہوتی ہیں ، اس نظام میں داخلی تضادات کو دبانے کے لئے بیرونی دشمن تراشے جاتے ہیں۔
indo pak relations cartoon (2)جوہری ہتھیاروں کو مساوات سے نکال دیا جائے تو بھی کھلی جنگ لڑنے کی معاشی صلاحیت دونوں ریاستوں میں نہیں ہے۔ جنگ کی عدم موجودگی میں جنگی جنون یا جنگ کے بغیر جنگی صورتحال بہرحال دونوں طرف پیدا کی جاتی ہے۔پھر جب یہ جنگی جنون اور جنگی صورتحال کچھ عرصے میں معمول بن کر ماند پڑنے لگتے ہیں تو غربت، بھوک اور محرومی کے ستائے ڈیڑھ ارب انسانوں کو ’’امن مذاکرات‘‘ کی بتی پیچھے لگا دیا جاتا ہے۔ یوں، پچھلی سات دہائیوں کا نچوڑ یہی ہے کہ خطے کے حکمران ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں امن برقرار رکھ سکتے ہیں نہ جنگ لڑ سکتے ہیں۔
بھارتی ریاست کی وزیر خارجہ سشما سواراج کا حالیہ دورہ پاکستان ، دوستی دشمنی کے سلسلے کی ہی کڑی ہے۔ پچھلے سال مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے یہ ڈرامے بڑھ گئے ہیں۔ مذاکرات کا اعلان اور منسوخی ہوئی، دونوں اطراف سے الزامات کے جواب میں الزامات کا سلسلہ بھی شدت پکڑ گیا ۔ تاہم پیرس میں ماحولیاتی آلودگی پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں نریندرا مودی اور نواز شریف ’اچانک‘ ایک دوسرے کے قریب آئے اور ملے، یہ ملاقات اتنی بھی ’بائی چانس‘ نہیں تھی۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ یہ سب امریکی اور برطانوی سفارتکاروں کے دباؤ کا نتیجہ تھا جن کے اپنے مفادات کے لئے یہ دشمنی ایک مخصوص سطح سے آگے خطرہ بننے لگتی ہے۔ سشما سواراج کا یہ دورہ، پیرس کی اسی ملاقات کا نتیجہ ہے۔
مغربی سامراج کی مداخلت سے قطع نظر، اب ’امن‘ اور ’دوستی‘ کا یہ سلسلہ پاکستان اور ہندوستان کے سرمایہ داروں کے مفادات کے پیش نظر بھی شروع کیا جا رہاہے جو عالمی سطح پر معاشی بحران کے پیش نظر شدید مشکلات اور شرح منافع میں گراوٹ کا شکار ہیں۔دو طرفہ تجارت سے وابستہ سرمایہ داروں کے یہ مفادات 9 دسمبر کو ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں سشما سواراج کے خطاب میں بالکل عیاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہوں گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک بلوغت اور اعتماد کا مطاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے کاروبار کریں اور خطے میں تجارت اور تعاون کو مضبوط بنائیں۔ افغان ٹرک اگر بھارتی مصنوعات کو افغانستان اور وسط ایشیا تک لے جا سکیں تو اس سے آمدو رفت کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور پورے خطے کو فائدہ ہوگا۔ ‘‘سشما کا یہ بیان ہندوستانی سرمایہ داروں کی تمناؤں کا عکاس تھا جو پاکستان اور افغانستان کے زمینی راستے سے وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی چاہتے ہیں۔مغربی سامراج کے دباؤ کا حوالہ بھی سشما کے خطاب میں موجود تھا کہ ’’پوری دنیا اس تبدیلی کی خواہشمند ہے۔ ہمیں انہیں مایوس نہیں کرنا چاہئے…بھارت اپنی طرف سے تعاون بڑھانے کو تیار ہے، ہم اسی رفتار سے قدم بڑھائیں گے جو پاکستان کے لئے اطمینان بخش ہو…’ایشیا کا دل‘ دھڑک نہیں سکتا اگر اس کی شریانیں بند ہوں۔‘‘ اس موقع پر سشما سواراج نے یہ اعلان بھی کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اگلے سال ’سارک‘کے اجلاس میں شرکت کرنے پاکستان آئیں گے اور وہ بھی ان کے ساتھ ہوں گی۔
indo pak relations cartoon (3)کرہ ارض پر کل انسانی آبادی کا پانچواں حصہ برصغیر جنوب ایشیا میں بستا ہے۔ غربت کی دلدل میں دھنسی یہ خلق بہت خوش ہو گی اگر قدیم ترین تہذیبوں کے امین اس خطے میں امن اور استحکام آتا ہے۔ آخر کار دونوں اطراف کے حکمران طبقات کے نمائندہ کئی نامور دانشوروں کی رائے ہے کہ غربت کے خاتمے اور ترقی کے راستے کی بڑی رکاوٹ دوطرفہ تلخ تعلقات ہیں۔ لیکن پھر یہی حکمران اور ان کے بنیاد پرست دم چھلے ہیں جو دشمنی اور نفرت یہ فضا قائم کرتے ہیں۔ جنگی جنون کو ’قابو‘ میں رکھنے والی سامراجی قوتیں بھی ہزاروں ارب کا اسلحہ اس دشمنی کے بغیر فروخت نہیں کر سکیں۔ دونوں اطراف کی ریاستی مشینری اور افواج کے اپنے مالیاتی مفادات اس تنازعے سے وابستہ ہیں۔ امن اور دوستی ہوتی ہے تو پھر دیوہیکل عسکری اخراجات اور ان میں موجود کمیشن، کک بیکس اور حصہ داریوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لہٰذا جنگی جنون اور تناؤ سے وابستہ یہ سیاسی اور مالیاتی مفادات لازم کر دیتے ہیں کہ دوستی اور امن مذاکرات کے بعد دشمنی اور الزام تراشی کی اقساط بھی جاری ہوتی رہیں۔
بارڈر پر خون ریزی، جارحانہ رویوں اور دہشت گردی کے حملوں ایک بنیادی وجہ عوامی بغاوت کا وہ خوف بھی ہے جو دونوں ممالک کے حکمران طبقات کو ہمیشہ لاحق رہتا ہے۔ یہ سرمایہ دار حکمران ’’آزادی‘‘ کے بعد کوئی ترقی پسند معاشی، سماجی یا سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔یورپ سے بالکل مختلف تاریخی طرز ارتقا رکھنے والے اس خطے میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کی پیوند کاری انگریز نوآبادکاروں نے کی تھی۔ لہٰذا سامراج کی گماشتگی اور سامراجی ڈاکہ زنی میں کمیشن خوری ہی ان حکمرانوں کا تاریخی کردار ہے جنہوں نے وسائل سے مالا مال اس خطے کو ہر قسم کے استحصال اور محرومی میں غرق کر رکھا ہے۔ ایسے میں جب بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کی بغاوت کے آثار پیدا ہوتے ہیں، یہ حکمران بیرونی دشمنی، قومی اور مذہبی شاونزم ابھارکر اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نفرتیں اور تعصبات ان حکمران طبقات کے اقتدار اور وجود کی بنیادی شرائط ہیں۔
ہزاروں سال پرانی تہذیب کو چیرنے والے بٹوارے کے زخم مندمل ہوئے ہیں نہ ہونے دئیے گئے ہیں۔ تقسیم کے نتیجے میں اگر ایک تھیوکریٹک ریاست کا جنم ہوا تو باقی کا ہندوستان بھی ماضی سے بالکل مختلف نوعیت کی ریاست میں تبدیل ہو گیا۔ سیکولرازم کی تمام تر نعرہ بازی اور لفاظی کے باوجو دیہاں کی طرح ہندوستان کا حکمران طبقہ بھی مذہبی تعصبات کو اپنے مفادات کے ہوا دیتا رہا۔ ضیا آمریت کی باقیات اگر یہاں زندگی کو عذاب مسلسل بنائے ہوئے ہیں تو ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں حکومت ہی RSS کے معذرت خواہان کی ہے۔ ریڈ کلف لائن کے دونوں طرف سرمایہ دارانہ نظام نے کسی آسودگی اور ترقی کی بجائے سماج کو پسمانگی اور مسخ شدہ جدت کی اذیت سے ہی دو چار کیا ہے۔ بنیاد پرستی آخری تجزئیے میں اسی دیوالیہ معیشت کی سماجی اور سیاسی پیداوار ہے جو جدید صنعتی معاشرے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
تاریخ بہت کفایت شعار ہوتی ہے لیکن تاریخی عوامل کے دورانیے انسانوں کی انفرادی زندگی کی نسبت خاصے طویل ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام نے سماج کو ترقی دینے سے قاصر اس مفلوج سرمایہ داری اور اس کے حکمرانوں کے خلاف کئی بغاوتیں کی ہیں۔ بائیں بازو کا پاپولزم اور ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ پر مبنی سٹالن ازم ان تحریکوں کو زائل کر کے انقلاب کی منزل سے بھٹکاتے رہے ہیں۔ محنت کش طبقے نے کئی تلخ اسباق سیکھے ہیں۔ آج رائج الوقت سیاست سے عوام کی لا تعلقی دونوں ممالک میں اپنے عروج پر ہے۔ ادھر ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ نے آمریتوں کے جبر و استحصال کو دھندلا دیا ہے تو اُدھر کانگریس کے بعد بے جی پی ’’وکاس‘‘ کا نعرہ لگا کر بدترین نجکاری، لبرلائزیشن، مہنگائی اور معاشی بربریت کی واردات میں مصروف ہے۔ لیکن 2 ستمبر کی ’’بھارت بند‘‘ ہڑتال میں 15 کروڑ مزدوروں نے حصہ لے کر ثابت کیا ہے کہ محنت کش طبقہ پھر میدان عمل میں اترنے کو ہے۔ پورے خطے میں اس نظام کے خلاف بغاوت کا لاوا پک رہا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کا یہ آتش فشاں پھٹے گا تو حکمران طبقے کے مسلط کردہ تعصبات کو بھی ان کے نظام سمیت غرق کر دے گا۔

متعلقہ:

’’باڈی لینگویج‘‘