پیپلز پارٹی کی بقا؟

| تحریر: لال خان |

ہفتہ 12 ستمبر بحریہ ٹاؤن کے قلعہ نما بلاول ہاؤس میں بلاول بھٹو نے’’کسان کنونشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے ایک ریڈیکل پوزیشن لینے کی کوشش کی ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف جدوجہد کا اعادہ اور 67ء کے منشورکے مطابق پارٹی کو دوبارہ استوار کرنے کا عندیہ پارٹی کے پرانے کارکنان کو بھی کئی دھائیوں بعد سنائی دیا۔ لیکن آج کی نسل کے نوجوانوں کے لیے بھی یہ الفاظ اور ٹرمینالوجی کچھ نئی نئی سی معلوم ہوتی ہے۔ گو ہر ترقی پسند ذہن ایسی پیش رفت کو خوش آئند قرا ر دے گا‘لیکن اس سے دو اہم سوال جنم لیتے ہیں ۔ کیا پیپلز پارٹی پر براجمان آصف زرداری اور انکے حواری کسی ایسی پالیسی یا نعرہ بازی کو کبھی لاگو ہونے بھی دیں گے؟ یا پھر یہ ایک وقتی حادثہ اور بے معنی جملہ بن کر جلد ہی استراد کا شکار ہوجائے گا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بلاول نے سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف اور مزدور کسان کے حق میں نعرہ تو لگا دیا لیکن انہوں نے نہ تو اس کا لائحہ عمل پیش کیا اور نہ ہی اس کی کوئی سائنسی بنیاد اورضرورت کو واضح کیا۔ حالانکہ جن 1967ء کی بنیادی پارٹی کی دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے اس میں بھی بہت ہی غیر مبہم انداز میں اس کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ اس دستاویز کی اہم شق میں درج ہے کہ ’’پارٹی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک سماج کا حصول ہے جو ہمارے دور میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے‘‘۔لیکن آخر بلاول سوشلزم کا لفظ استعمال کرنے سے کیونکر گریز کر گئے؟ اس لفظ سے ان کے اندر کونسا خوف اٹھتا ہے اور اگر بھٹو ازم سوشلزم نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ پارٹی کے بانیوں کا عہد اور یقین تھا۔
اصل مسئلہ یہیں آکر خراب ہوتا ہے۔ جب آپ کوئی ریڈیکل لفاظی استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچائیں تو ایسے ریڈیکلزم کا مقصد محض مفاد پرستی اور عوام کو وقتی طور پر متاثر کرکے اپنی مروجہ سیاست کے مفادات کے حصول کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔بلاول صاحب نے علامات اور مرض تو بتا دیا ہے، علاج کے نام لینے سے آخر کیوں گریزاں ہیں؟ یہ سوال بہت سے نظریاتی اور محنت کشوں کے حلقوں میں تیزی سے گردش کررہا ہے۔ (ن) لیگ تو ہے سرمایہ داروں کی پارٹی‘ انہوں نے تو مزدوروں اور کسانوں کااستحصال کرنا ہی کرنا ہے۔ لیکن اب اس سیاسی افق پر کونسی پارٹی ہے جس پر سرمایہ داروں کا قبضہ نہیں ہے؟ المیہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جو کبھی محنت کشوں کی پارٹی کہلایا کرتی تھی اب اس پر بھی سرمایہ داروں‘ کاروباریوں اور لینڈ مافیا کا قبضہ پوری طرح حاوی ہوچکا ہے۔
پارٹی میں ایک طویل عرصہ سے سوشلسٹ نظریات، اسکے انقلابی جنم اور سیاسی پروگرام پر کوئی بات کرنا ممنوع اور جرم بن چکا ہے۔ پھر جہاں بلاول کو ایک نئی تبدیلی کا علمبردار بنا کر پیش کیا جا رہا ہے وہاں اس کے گرد ہی اوپر کی قیادت کے حواری ہر لمحہ موجود ہیں جنہوں نے پارٹی کو پچھلی حکومت میں خصوصی طور پر چار چاند لگائے تھے۔ پھر یہ کہا گیا کہ پارٹی کرپشن کے الزامات کی وجہ سے 2013ء کا الیکشن اس عبرتناک طریقے سے ہاری تھی۔اس لیے کرپشن کے لیے پارٹی کی اپنی اینٹی کرپشن کمیٹی بنائی جائے جسکے بارے میں ساری سیاسی وضاحت جناب راجہ پرویز اشرف صاحب نے پیش کی۔اب کرپشن کے خاتمے کے لیے راجہ صاحب سے زیادہ بڑا ماہر تو کوئی ہو نہیں سکتا! پھر پیپلز پارٹی کی تنظیم نو سے لے کر پارٹی کے مختلف امور پر بڑے پیمانے کی تبدیلیوں کا اعادہ کیا گیااوریہ فریضہ ادا کرنے والوں میں سر فہرست فریال تالپور اور منظور احمد وٹو ہیں۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر پیپلز پارٹی کے عہدہ داروں کے چہرے بدلے جائیں، کچھ نام نہاد ’’ریڈیکل‘‘ کاسہ لیسوں کو ساکھ کی بحالی کے لیے لایا جائے، ورکروں کو ’’مقام‘‘ دیا جائے۔ لیکن یہ سب فرسودہ ہتھکنڈے ہیں۔ اس سے نہ تو پارٹی کی ساکھ بدلے گی اور اگر اسی قیادت کی اطاعت میں یہ ریڈیکل بائیں بازو کے لیڈر عہدوں پر فائز ہوتے ہیں تو یہ جاگیر داروں سے زیادہ بدعنوانی اور لوٹ مار کا بازار گرم کریں گے۔
پیپلز پارٹی کی اوپر کی اس قیادت کا اب یہ یقین ہے کہ اقتدار کا راستہ جی ایچ کیو اور واشنگٹن سے ہو کر جاتا ہے۔لیکن سامراج اور فوج بھی اسی وقت پیپلز پارٹی کو اقتدا ر دیں گے جب وہ پیپلز پارٹی کو عوام کی تحریکوں کوزائل کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ عوام میں حمایت نہ ہونے سے قیادت تحریک کو زائل کرنے کی صلاحیت بھی کھو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ چالاک ’ریڈیکل مفاد پرست‘ نودولتیئے یہ مشورہ دیں کہ سوشلزم کی نعرہ بازی دوبارہ شروع کر دی جائے۔لیکن اگر بلاول خصوصاً اس معروض میں اور پارٹی کی پچھلی کارکردگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر یہ ’’کام‘‘ بھی کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ عوام صرف سوشلزم کے نعرے کے تحت ہی فوراً واپس پیپلز پارٹی کے ساتھ جڑ جائیں کیونکہ 1988ء سے اب تک پیپلز پارٹی نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کے زخم اتنی آسانی سے بھرنے والے نہیں۔ لیکن فی الوقت یہ تقریباً نا ممکن لگتا ہے کہ بلاول تمام دولت، صنعت، معیشت اور سامراجی قرضوں اور سرمایہ کاری کو کو ضبط کرنے کا ٹھوس پروگرام دے ڈالے اور تعلیم، علاج، سروسز کو سرکاری تحویل میں لے کر مفت فراہمی کا اعلان کر دے۔ لیکن سب سے اہم ون۔ٹو۔ون ملاقات بلاول زرداری کی امریکی سامراج کے کونسل جنرل زچھرے ہارکنرائیڈرسے ہوئی۔عظیم جرمن فلسفی ہیگل نے ایک مرتبہ لکھا تھا جو تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ اسکو دھرانے کا جرم کر کے فنا ہوتے ہیں۔امریکی سا مراج نے بلاول کی طرح اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کو بھی بہت سمجھایا تھا لیکن جب اسنے ماننے سے انکار کر دیا تو اپنے وحشی ڈکٹیٹر ضیا الحق کے ذریعے بھٹو کو سولی پر چڑھا کرامریکی سامراج نے اپنی سامراجی طاقت منوائی تھی۔بلاول کو ہمیشہ شاید یہی سبق دیا جاتا رہا ہوگا کہ دیکھو بھٹو کے ساتھ امریکہ نے کیا کیا تھا۔امریکہ کے بغیر نہ تو سیاست ہو سکتی ہے نہ اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انکی والدہ نے تو امریکہ کی بات مانی تھی، لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو بھٹو کے ساتھ ہوا تھا۔ کرنے والے شاید اس مرتبہ امریکہ کے سابق حواری اور موجودہ دشمن تھے۔ لیکن جب ایک ایسی پارٹی جسکی بنیادیں طبقاتی کشمکش اور سوشلزم کے نام پر کھڑی ہوں، وہ جب مصلحت کرتی ہے تو حکمران اسکو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور حکمرانوں کے شکوک دور کرتے کرتے وہ عوام کو ایسے داغ لگا جاتی ہے جس سے عوامی حمایت ہی ختم ہو جاتی ہے۔پیپلز پارٹی آج ایسی ہی کیفیت میں ہے۔
اگر بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کی واقعی بقا اور بحالی چاہتے ہیں او ر پارٹی کو محنت کش طبقے کی حقیقی محنت کش پارٹی بنانے کا عزم رکھتے ہیں تو انہیں نہ صرف نظریات اور لائحہ عمل کو انقلابی سوشلسٹ بنیادوں پر مبذول کرنا ہوگا بلکہ پارٹی سے سرمایہ داروں‘ جاگیرداروں‘ رسہ گیروں، لینڈ اور ہاؤسنگ مافیا اور دوسرے سیٹھوں کو نکال باہر کرنا ہوگا۔اگر ایسے ہوتا ہے تو موجودہ مرکزی کمیٹی کا ایک فرد بھی نہیں بچے گااور یہ سلسلہ یہاں تک پہنچ جائے گا کہ بلاول کو اپنے والد اور پھوپھی صاحبہ کو بھی پارٹی سے خارج کرنا پڑے گا۔ کیا بلاول میں اتنی ہمت ہے؟
موجودہ سیٹ اپ میں ریاست کو تمام سیاسی پارٹیاں درکار ہیں، چاہے وہ چند ایک کے خلاف آپریشن بھی کر رہے ہیں لیکن انکو اپنے مکمل ا ختیار میں رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن عوام کی نمائندہ قیادت اور پارٹی بھی تب ہی ابھرے گی جب عوام کی تحریک ابھرے گی۔ اس میں شاید زیادہ دیر نہیں ہے ۔ لیکن اتنی ذلت، تناؤ اور تاخیر کے بعد جو قوت ابھرے گی وہ پھر انتہاؤں تک جائے گی۔اگر اس کی شکل کسی پیپلز پارٹی کی صورت میں ہوئی تو بھی وہ موجودہ قیادت اور اسکے ڈھانچوں، سوچ، رویوں، اقداراورحواریوں والی پیپلز پارٹی یقیناًنہیں ہو گی!