[رپورٹ: عمر شاہد]
سیالکوٹ اپنی برآمدی صنعت کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ یہاں کے ہنر مندوں کے ہاتھ سے تیار شدہ مختلف اشیا، مثلاً فٹ بال، لیدرگارمنٹس، میوزیکل آلات، کھیلوں کا سامان وغیرہ، عالمی منڈیوں کی زینت بنتی ہیں جس کی وجہ سے یہ شہر ہر سال برآمدات کی مد میں تقریباً 1.5 ارب ڈالر کا زرمبادلہ دیتا ہے۔ یہاں کی اہم ترین صنعتوں میں فٹ بال کے بعد سرجیکل آلات کی پیداوار کی صنعت ہے جو کہ سالانہ تقریباً 300 ملین ڈالر کا زرمبادلہ دے رہی ہے۔ سرجیکل آلات کی تیاری یہاں برطانوی سامراج کے دور سے ہو رہی ہے جبکہ اس صنعت نے عروج دوسری جنگ عظیم میں دیکھا۔ برطانوی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد بھی اس صنعت کی اہمیت کم نہ ہوئی۔ اس وقت تقریباً 3000 چھوٹے بڑے یونٹس پر مشتمل اس صنعت سے ہزاروں محنت کشوں خاندانوں کاگھر چل رہا ہے۔ مگر چند ایک بڑے یونٹس کے علاوہ زیادہ تر یونٹس گھروں کی سطح پر قائم ہیں جہاں پر مرد محنت کشوں کے علاوہ خواتین بھی اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ موجودہ صنعت کی کل برآمد میں 60 فیصد آلات ڈسپوزبل جبکہ 40 فیصد دوبارہ قابل استعمال آلات شامل ہیں۔ ایک اندازے مطابق دنیا کے دو تہائی سرجیکل آلات سیالکوٹ سے برآمد کئے جاتے ہیں، جس کے اہم خریداروں میں امریکہ، جرمنی، انگلینڈ، فرانس، اٹلی، دبئی، جاپان اور نیدر لینڈ شامل ہیں، جہاں پر یہ آلات مختلف ہسپتالوں، فوجی صحت کے مراکز اور میڈیکل کالجز میں استعمال ہوتے ہیں۔ یہاں بڑے یونٹس براہ راست بڑے برانڈز مثلاً بی ایم ٹی، ملٹیکس، ویلش ہیلتھ سروسز وغیرہ کے لئے مال تیار کرتے ہیں۔ یہ یونٹس سستی محنت کی خاطر گھروں میں موجود محنت کشوں سے ٹھیکداری نظام کی بنیاد پر کام کرواتے ہیں۔ 2006ء میں برٹش میڈیکل جرنل میں چھپنے والے ایک ریسرچ پیپر میں ڈاکٹر محمود بھٹہ نے لکھا کہ اعلیٰ ترین کوالٹی کی حامل ایرس قینچی پاکستانی تیار کنندہ سے صرف 2 ڈالر فی یونٹ کے حساب سےخریدی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف اصل گاہک کو یہی قینچی تقریباً 60 ڈالر فی یونٹ کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے۔ اس سپلائی چین کے مابین تھرڈ پارٹی بلند شرح منافع کماتی ہے جو کہ زیادہ تر تیار شدہ آلات کو بیرون ملک پیک کر کے فروخت کرتی ہے۔ ان انتہائی حساس نوعیت کے سرجیکل آلات کو بجائے کسی عالمی سٹینڈرز کے ماحول میں تیار کرنے کے یہ آلات زیادہ تر دور دراز کے گاﺅں کے تنگ کمروں میں ہاتھ سے تیار کئے جاتے ہیں۔ کسی جدید ٹیکنالوجی کے تحت مناسب درجہ حرارت پر تیار کرنے کی بجائے جھلسا دینے والی 50 سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت تک کی گرمی میں 12 سے 14 گھنٹے کی روزانہ محنت سے محنت کش ان کو تیار کرتے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت ان کو تیار کرنے والے محنت کشوں کو کسی قسم کی سہولت حاصل نہیں، حتیٰ کہ پینے کا پانی تک کا انتظام بھی محنت کش کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس سخت محنت کے بعد بھی ان کو نہایت قلیل اجرت دی جاتی ہے جس سے بمشکل ہی گزارہ ہو پاتا ہے۔ چند بڑے کارخانوں میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے لیکن ایسے ادارے زیادہ تر پیداوار تھرڈ پارٹی سے کرواتے ہیں جہاں زیادہ سستی محنت کے لئے بچوں اور خواتین کو استعمال کیا جاتا ہے۔
عالمی اداروں کی اپنی رپورٹ کے مطابق پانچ سے چودہ سال کی درمیانی عمروں کے تقریباً 33 لاکھ بچے سیالکوٹ کی مختلف صنعتوں میں کام کر رہے ہیں۔ سرجیکل صنعت سے تقریباً پچاس ہزار محنت کش وابستہ ہیں جن میں سے 7700 کے قریب بچے ہیں۔ 2003ء میں پاکستان غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سرجیکل آلات میں کام کرنے والے آدھے سے زیادہ بچوں نے کام کے دوران زخمی ہونے کی شکایات کیں، 95 فیصد بچوں میں نیند نہ آنے جبکہ 80 فیصد بچوں میں کمر، سر یا گردن کی مستقل درد کی شکایات کے ساتھ ساتھ سانس کی بیماریاں پائی گئیں جس کی بنیادی وجہ سرجیکل آلات کے تیار کرنے میں گرائنڈنگ، میلنگ کے دوران زہریلے کیمیکلز کا ہوا میں شامل ہونا اور کارخانوں میں مٹی کا اڑنا شامل ہیں۔ تقریباً تمام بچوں میں قوت سماعت کم ہے جس کی بنیادی وجہ مسلسل اور لمبے عرصہ تک شور کے ماحول میں کام کرنا ہے۔ دوران کام حادثات معمول کی بات سمجھی جاتی ہے مثلاً گارڈین اخبار سے بات کرتے ہوئے 13 سالہ محنت کش شکیل احمد نے بتایا کہ اسکو ایک دن 12 سے 14 گھنٹے کام کا معاوضہ فقط 150 روپے ملتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کا دوست جو کہ پالشر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا، بلیڈ ٹوٹنے سے اس کا سر پھٹ گیا مگر مالکان نے بجائے کسی رحم دلی دکھانے کے بلیڈ ٹوٹنے کا ذمہ دار بھی محنت کش کو قرار دیتے ہوئے گالیاں دیں اور ساتھی محنت کشوں نے ہسپتال لے جا کر اس کی جان بچائی۔ کارخانوں کے اندر کام کرنے والوں کو حکومت کی طے شدہ اجرت سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ اوسطً تنخواہ 7000-9000 ماہانہ ہے جبکہ بچوں کو فقط 4000-5000 ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ ان محنت کشوں کو کسی قسم کا مستقل روزگار میسر نہیں جبکہ دوسری طرف ان کی قوت محنت سے سرمایہ داروں نے اپنے شرح منافعوں میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کیا ہے۔ ’’کیوایس اے‘‘ سرجیکل کمپنی جس کے مالک قیصر بشیر نے چالیس سال پہلے 2000 روپے سے کاروبار کا آغاز کیا تھا، آج یہ 300 ملین کی کمپنی بن چکی ہے جس کی ڈسکہ روڈ پر واقع فیکٹری میں 1200 محنت کش دن رات اس کے منافع بڑھانے کے لئے اپنی محنت انتہائی سستے داموں بیچنے پر مجبور ہیں، جبکہ اس کی سالانہ برآمدی آمدنی 7 ملین ڈالرز سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
اسی طرح لاتعداد مثالیں ہیں جہاں شب و روز محنت کشوں کا استحصال کرکے یہ سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اپنےاحساس گناہ کی تسکین کے لئے چیرٹی پروگرامز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ نام نہاد لبرل انسان دوست مغربی کمپنیاں بھی اپنے منافعوں کے لئے اسی استحصال کے نتیجہ میں تیار ہونے والے آلات خرید کر امیر گاہکوں کی جانیں بچانے میں مگن ہیں۔ اس استحصال اور ظلم کے خلاف جدوجہد ہی ایک واحد راستہ ہے جس کے لئے محنت کشوں کو متحد ہوکر اس نظام کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا۔