سرمایہ دارانہ نظام ۔۔۔ جابر بھی اور قاتل بھی

تحریر :جاوید ملک:-
امریکی سامراج اور دنیا کی اسی فیصد معیشت پر قابض چلی آنے والی عالمی اجارا داریوں کے منافعوں کی ہوس اور لوٹ مار نے جہاں امارت اور غربت کی خلیج میں خوفناک اضافہ کرکے دنیا بھر میں عوامی تحریکوں کے نئے سلسلے کا آغاز کیا ہے وہیں پر مستقبل سے مایوس لوگوں کے خودکشی کے رجحان میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے۔برطانیہ کے جریدے لا نسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال دنیا بھر میں نو لاکھ افراد نے خودکشی کرنے والے ممالک میں چین پہلے نمبر پر تھا جہاں پر دو لاکھ نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جبکہ دنیا کی اس مثالی معیشت کہلانے والے ملک کے بعد دوسرا نمبر بھارت کا تھا جو اب پہلے نمبر پر آگیا ہے جہاں پر خودکشی کے رجحا ن میں خوفناک اضافہ ہوگیا ہے اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں نوجوانوں کی موت کی دوسری بڑی وجہ خود کشی ہے۔عالمی صحت کی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے مطابق سنہ دو ہزار دس میں بھارت میں ایک لاکھ نوے ہزار افراد نے خود کشی کی جبکہ عالمی سطح پرگزشتہ سال تقریباً نو لاکھ افرادنے خود کشی کی۔تحقیق کرنے والوں میں لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کے وکرم بھی پٹیل شامل ہیں۔ان کا کہنا ہے ’’بھارت میں پندرہ سے انتیس سال تک کے نوجوانوں میں خود کشی کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے جتنی سڑک حادثات میں۔‘‘
تحقیق کے مطابق بھارت میں نوجوانوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ خود کشی ہے۔ تیرہ فیصد نوجوانوں کی موت خود کشی سے ہوتی ہے جبکہ سولہ فیصد خواتین کی موت کا سبب بھی خود کشی ہی ہے۔لانسٹ کی یہ رپورٹ سنہ دو ہزار ایک اور تین کے درمیان خود کشی کے اسباب پر رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے قومی سروے پر مبنی ہے۔
ہندوستان میں ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار نو میں تقریباً ساڑھے ستّرہ ہزار کسانوں نے خود کشی کی ہے۔مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے کاشتکاروں کی فلاح کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔لیکن ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی حالت بہتر ہونے کے بجائے اور گرتی جارہی ہے۔ دوہزار آٹھ کے اعداد و شمار کے مطابق سال بھر میں سولہ ہزار ایک سو چھیانوے کسانوں نے خودکشی کی تھی۔دوہزار نو میں گیارہ سو بہتر کا مزید اضافہ ہوا ہے اور اس کے مطابق سترہ ہزار تین سو چھیاسی کسانوں نے مشکلات سے دوچار ہوکر اپنی جان لے لی ہے۔ملک کی جن ریاستوں میں سب سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے اس میں مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا پردیش اور چھتیس گڑھ سب سے اوپر ہیں۔کاشتکار عام طور پر قرضے کے سبب خودکشیاں کرتے ہیں۔ملک کی باسٹھ فیصد خودکشیاں انہیں پانچ ریاستوں میں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ بری خبر ریاست تمل ناڈو سے ہے جہاں خود کشیوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔تمل ناڈو میں دو ہزار آٹھ میں پانچ سو بارہ کسانوں نے خود کشی کی تھی جبکہ تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار نو میں اس ریاست میں ایک ہزار ساٹھ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔گزشتہ دس برسوں میں کسانوں کی خود کشیوں کا جو ریکارڈ جمع کیا گیا ہے اس میں اب تک سب سے آگے ریاست مہاراشٹر ہے اور اس بار بھی اسی ریاست میں سب سے زیادہ کاشتکاروں نے اپنی جان گنوائی ہے۔لیکن مہاراشٹر میں اس برس پہلے کے مقابلے کم لوگوں نے خودکشیاں کی ہیں۔ دو ہزار نو کے دوران اس ریاست کے دو ہزار آٹھ سو بہتر کسانوں نے خود کشی کی ہے جبکہ دو ہزار آٹھ میں یہ تعداد تقریباً چار ہزار کے قریب تھی۔اس برس کرناٹک میں دو ہزار دو سو بیاسی کسانوں نے اپنی جان لی ہے جبکہ مغربی بنگال میں ایک ہزار چون، راجستھان میں آٹھ سو اکاون، اتر پردیش میں چھ سو چھپن، گجرات میں پانچ سے اٹھاسی اور ہریانہ میں دو سو تیس کسانوں نے خودکشی کی ہے۔’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ کے مطابق سنہ انیس سو ستانوے سے دو ہزار نو تک بھارت میں دو لاکھ سولہ ہزار پانچ سو کسانوں نے خود کشی کی ہے۔
ٹریکل ڈاؤن اکانومی یا عالمگیریت کے تحت چلنے والے جس نظام نے گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران سات ارب کے ہندسے کو عبور کر جانے والی دنیا کی کل آبادی کے نصف کو غربت کی لکیر سے نیچے غرق کر دیا ہے وہیں پر سرمایہ داروں کے منافعوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے ایک لاکھ افراد کے پاس اس وقت دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ دولت اکٹھی ہوگئی ہے پاکستان جہاں گزشتہ سال مالی مشکلات سے تنگ آکر سولہ ہزار افراد نے خودکشی کی وہاں پر صرف صوبہ پنجاب نے گزشتہ سال دس ہزار مظاہرے کیے گئے جن میں سب سے زیادہ مظاہرے نجکاری تنخواہوں میں اضافے بیروزگاری سے متعلقہ تھے پاکستان کے اندر دولت کی بدترین تقسیم کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ چالیس افراد کے پا س اتنی دولت جمع ہے جس سے پاکستان کا تمام اندرونی وبیرونی قرضہ باآسانی چکایا جاسکے۔
اسی تناظر میں دنیا میں جمہوریت کے نام پر سب سے زیادہ جنگیں مسلط کرنے والے امریکہ اور نیٹو ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں پر بھی امیر اور غریب طبقات میں اس قدر تفریق بڑھی ہے کہ اس وقت دنیا کا کوئی ایک ایسا ملک نہیں ہے جہاں پر عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول سرکاری سطح پر کی جانے والی کٹوتیوں اور بیروزگاری کے خلاف سڑکوں پر نہ ہوں دنیا میں جمہوریت کی ماں کہلانے والے برطانیہ نے اسی سال تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتال دیکھی ہے سپین اٹلی پرتگال بیلجیم فرانس جرمنی جیسی مضبوط معیشتیں ریت کی دیواروں کی طرح گر رہی ہیں حتیٰ کہ یونان جس کا قرضہ اس کے کل جی ڈی پی سے زیادہ ہوچکا ہے کو یورپ یونین سے نکالنے کے لیے پلاننگ کی جارہی ہے یہی صورتحال امریکہ کی ہے جہاں پر بیروزگاری کی شرح انتیس فیصد ہوگئی ہے ان ممالک میں جاری ہڑتالوں اور مظاہروں کے ساتھ ساتھ اگر غور کیا جائے تو انتہائی چونکا دینے والے حقائق سامنے آتے ہیں اس وقت عراق اور افغانستان سے لوٹنے والے اٹھارہ امریکی فوجی روزانہ خودکشی کر رہے ہیں اور اب تک امریکہ میں اپنے ہاتھوں آپ مرنے والے فوجیوں کی تعداد عراق اور افغانستان میں مارے جانے والے نیٹو ممالک کے کل فوجیوں کی تعداد6460سے زیادہ ہوچکی ہے۔
ایشین مارکسسٹ ریویو کے ادارتی بورڈ کے مطابق نیٹو ممالک افغانستان میں اس قدر ذلت اٹھا چکے ہیں کہ کسی مغربی ملک کا کوئی سپاہی افغانستان میں رہنا نہیں چاہتا۔ جنگی اخراجات اور اپنے ہی ملکوں کے ملازمین کی مراعات میں کمی اور کٹوتیاں کرکے عالمی سرمایہ داری نظام کے محافظ یہ ممالک اور اجارہ داریاں جس طرح اس نظام کو بچانے کی گزشتہ چار سال سے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں وہ ہر دوسرے لمحے ناکامی سے دوچار ہوجاتی ہے درحقیقت اس وقت دنیا کے اندر جدید ذرائع پیداوار اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ اگر دنیا کا ہر فرد چوبیس گھنٹے میں صرف اٹھاون منٹ کام کرے تو اسے زندگی کی تمام بنیادی سہولیات میسر آسکتی ہیں مگر اس کے لیے منافع اور سرمائے کے اس نظام کی زنجیروں کو توڑنا ہوگا اور یہ راز دنیا بھر کا محنت کش طبقہ اب سمجھتا جارہا ہے۔

متعلقہ: