[تحریر:قمرالزماں خاں]
پانچ اورچھ دسمبرکو گنے کے کاشتکاروں نے سندھ اور پنجاب کا بارڈربند کردیا اور دونوں روز کئی کئی گھنٹے تک ٹرانسپورٹ کی نقل وحرکت بند رہی۔ گنے کے کاشت کار گنے کی قیمتوں میں کمی کرنے پر احتجاج کررہے تھے۔ گنے کے کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل فی من گنے کی قیمت 182 روپے رکھی گئی تھی مگر بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے چینی اور گنے کی قیمتوں کے تعین کرنے کے صوبائی اور وفاقی حکومت کے حق کو چیلنج کرنے کے مقدمے کی سماعت کے دوران کورٹ نے قیمتوں کے معاملے کو باہمی گفت وشنید سے حل کرنے کا کہا۔ جس کے نتیجے میں آبادکارایسوسی ایشن، سندھ حکومت اور شوگرملزمالکان کے مذاکرات کے بعدسندھ حکومت کی طرف سے گنے کی قیمت کو کم کرکے 155 روپے فی من مقرر کیا گیا تھا۔ پہلے پہل سندھ کی شوگر ملز نے گنے کی قیمت خرید کم کی اور پھر پنجاب بھر کی شوگرملز نے بھی یہی نرخ قائم کردیے۔ جس پر کاشتکاروں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے اور قومی شاہراہوں کی بندش کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد پنجاب حکومت نے فوری پسپائی اختیار کرتے ہوئے 180 روپے فی من گنے کی خریداری کا سابقہ فیصلہ بحال کردیا ہے۔ مگر سندھ میں تاحال گنے کی قیمت خرید 155 روپے فی من ہی ہے۔ سندھ شوگرملز کنٹرول ایکٹ کے مطابق شوگرملز نے اکتوبر کے وسط سے کرشنگ سیزن ہر حال میں شروع کرنا ہوتا ہے مگر تاحال(7 دسمبر) 38 شوگرملز میں سے صرف چار شوگرملزنے کرشنگ شروع کی ہے۔ اس غیر قانونی اور منافع خوری کی روش کے پیچھے نہ صرف کم قیمت پر گنا خریدنے کی نیت شامل ہے ساتھ ہی گنے کو تاخیر سے خریدنے کا مطلب گنے کے وزن میں کمی اور مٹھاس میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مل مالک کو فائدہ اور کسان کو نقصان پہنچتا ہے۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے خاص طور پر جنرل ضیا الحق کی گود میں پرورش پانے والے نئے سیاست دانوں کی طرف سے شوگرملز لگانے کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بڑی وجہ شوگرملز کے کاروبار میں ہونے والا بے پناہ منافع ہے۔ پاکستان میں اعداد وشمار کے ذریعے منافع، اثاثوں اور دولت کو ثابت کرنا بہت مشکل کام ہے کیوں کہ معیشت کا ایک بڑا حصہ ’’کاغذی ریکارڈ‘‘ میں درج نہیں ہے اور اسکو طاقتور لوگ مخفی رکھنے میں کامیاب چلے آر ہے ہیں۔ پاکستان میں تو آبادی، بجٹ، سالانہ پلاننگ اورشرح اضافے یا گراوٹ کے تمام اعداد وشمار ’’اندازوں‘‘ پر مبنی ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں دہائیوں تک مردم شماری نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو سندھ اور بلوچستان کے بیشتر حصوں میں اعداد وشمار اکھٹے کرنے میں رکاوٹیں ہونے کی وجہ سے بجلی کے میٹروں کی فرضی ریڈنگ کی طرح کا عمل دُہرا کر ’’فرضی اعداد وشمار‘‘گھڑ لئے جاتے ہیں۔ مگر شوگر ملز مالکان کتنا کمارہے ہیں اس کا اندازہ ہم انکی صنعتی ایمپائیرتعمیر کرنے اور جائیدادوں کی خریداری سے دیکھ سکتے ہیں۔ مثلاََجمال دین والی میں جے ڈی ڈبلیو شوگرملز کے نام سے 1991ء میں شوگرملز لگی۔ اسکے مالکان جہانگیر ترین اور مخدوم سید احمد محمودنے پندرہ سولہ سال کے دوران یونائیٹڈ شوگر ملز، ماچھی گوٹھ کو خریدنے کے علاوہ گھوٹکی میں اور ڈھرکی میں بھی شوگرملز قائم کرلیں اور اب رحیم آباد کے قریب شوگر ملز لگانے کا منصوبہ ہے، دریں اثناء اسی گروپ نے ونڈا بنانے کی فیکٹری، پاکستان کا بڑا لائیو اسٹاک فارم قائم کیا ہے، پیپر ملزاور بجلی بنانے کے منصوبے اس کے علاوہ ہیں۔ جبکہ ہزاروں ایکڑ اراضی یا خرید لی ہے یا ابھی تک اسکو لیز پر ظاہر کیا جارہا ہے۔ اپنی دولت او ر اسکی وجہ سے قائم سماجی برتری کی وجہ سے حکمرانی کے ایوانوں میں ان کا اثر رسوخ فیصلہ کن حد تک ہوتا ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کی مرکزی قیادتیں، شوگر ملز کے بے پناہ منافعوں کے حصول کی دوڑ میں لگی ہیں، جن میں پاکستان مسلم لیگ کے سربراہان میاں نواز شریف اورمیاں شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری، مرکزی راہنما مخدوم سید احمد محمود، رکن مرکزی کمیٹی ذکاء اشرف، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین، پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کے صدر چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی، چوہدری منیر ہدائت اللہ، خسروبختیار، سردار نصراللہ دریشک، ہمایوں اختر، ہارون اختر، میاں اظہر، میاں الطاف سلیم وغیرہ شامل ہیں۔
اس وقت ملک میں کام کرنے والی شوگرملز کی تعداد 88 ہوچکی ہے۔ جس وجہ سے چینی کی پیداوار ضرورت سے کہیں زیادہ ہے مگر اس کے باوجود چینی کے نرخوں میں اضافہ ناقابل فہم ہوچکا ہے۔ اگر ہم پیداوار کا جائزہ لیں تو1947-50ء کے مابین چینی کی پیداورا6,775,000 ٹن سالانہ تھی جو 1976-80ء کے دوران بڑھ کر 27,994,000 ٹن سالانہ، 1991-95ء میں 40,902,000 ٹن سالانہ اور2012-13ء میں چینی کی پیداوار 63,719,000 ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ اصول یہ ہے کہ پیداوار کے اضافے کے ساتھ لاگت میں کمی آتی ہے اور نرخ گرتے جاتے ہیں مگر یہاں قانون بالکل الٹ ہے، پیداوار میں اضافے کا فائدہ صارفین کو کسی طور نہیں ہونے دیا جاتا۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ 1947ء سے لیکر 1950ء تک چینی کی قیمت ساٹھ پیسے فی کلوگرام تھی، 1952-57ء کے دوران 75 پیسہ فی کلوگرام، 1958-61ء کے دوران 1 روپیہ 75 پیسہ فی کلوگرم رہی۔ ایوبی دور میں چینی کی قلت پید اکی گئی تونرخ بڑھ گئے مگر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں راشن سسٹم قائم کیا گیا اور عام لوگوں کو سبسڈائیز کرکے مہنگی چینی سستے داموں فروخت کی جاتی رہی۔ مگر جنرل ضیاالحق کے دور میں نئے معاشی مافیاز قائم ہوئے تو پھر ایک طرف شوگرملز بڑھنا شروع ہوگئیں اور دوسری طر ف چینی کے نرخوں کو پر لگنے شروع ہوگئے۔ نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران چینی کے نرخ 11 روپے فی کلوگرام سے بڑھا کر 21 روپے فی کلو گرام جمپ کرادئے گئے، اسی دوران شریف خاندان نے افریقہ سے چینی امپورٹ کرکے ہندوستان کو فروخت کی جو وہاں پرچون میں 7 روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کی جاتی رہی۔
پھر نئے دور میں جب پنجاب میں نواز خاندان اور سندھ اور وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں تھیں نرخوں نے ایک دفعہ پھر جمپ لگایا تب جنوری 2008ء میں چینی فی کلو گرام 26.06 روپے تھی جبکہ اگلے سال 2009ء کے دسمبر میں یہ نرخ58.50 روپے فی کلو گرام ہوچکے تھے، یہ دگنے سے بھی زیادہ اضافہ تھا۔ ستمبر 2011ء میں چینی فی کلو گرام 76.03 روپے بھی رہی ہے جبکہ یکم اکتوبر 2011ء سے 6 نومبر 2011ء کے دوران 26 روپے فی کلو گرام کے اضافے کے ساتھ مارکیٹ میں چینی فی کلو گرام 101 روپے فی کلو گرام تک پہنچی۔ 2009ء کے آخری مہینوں میں لاہور ہائی کورٹ نے چینی کی لاگت کے معاملے پر تفصیلی جائزہ لینے کے بعد چینی کے نرخ 40 روپے فی کلو گرام فکس کردئے تھے اور شوگرملز مالکان کی ایسوسی ایشن کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ جسکی سربراہی افتخار چوہدری کررہے تھے، نے اسی فیصلے کی توثیق کی اور شوگرملز مالکان کے موقف اور شہادتوں کوجعلی قراردیاتھا۔ اس فیصلے کو ہوئے پانچ سال گزرچکے ہیں مگر ان قیمتوں پر نہ تو کوئی حکومتی مشینری اور نہ ہی عدالتیں عمل کراسکیں۔ لیکن سندھ ہائی کورٹ کے نومبر 2014ء کے آخری دنوں کی سماعت کے مابین بننے والی کمیٹی، جس میں تمام متاثرہ فریقین بالخصوص چھوٹے کسانوں کی نمائندگی موجود نہ تھی، کے ایک متنازعہ فیصلے پر عمل درآمد محض پانچ منٹ میں کرادیا گیا، یہ ہے طاقت ور شوگرملزمافیا، جو کہ تمام اسمبلیوں میں فیصلہ کن طاقت کے ساتھ براجمان ہے۔ حکومت فوجی ہو یا جمہوری یہ شوگر ملز مافیا وزارتوں اور مشاورتوں میں سرفہرست ہوتا ہے۔ اسکے برعکس ان اسمبلیوں میں چھوٹے کاشت کاروں اور صارفین کی نمائندگی نہ ہے اور نہ ہی اس طبقاتی نظام جمہوریت میں ہوسکتی ہے۔ گنے کے نرخوں کے معاملے میں گنے کی مٹھاس یا ’’ریکوری‘‘ کے معاملے کو نظر انداز کرنا بددیانتی اور ناانصافی کو ظاہر کرتا ہے۔ اپر پنجاب کے گنے کی ریکوری 8.5 فی صد ہے جبکہ بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یارخاں، راجن پور اضلاع کے گنے کی ریکوری 12 فی صد تک ہے۔ ’’مٹھاس‘‘ کی شدت کے مطابق نرخوں میں اضافہ نہ کرکے شوگرملز مالکان اپنی جیبوں کو بھرنے کے عمل کو اور تیز کرتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان کا سندھ ہائی کورٹ میں موقف تھا کہ چینی اور گنے کے نرخوں کا تعین صوبائی یا وفاقی حکومت کی بجائے ’’منڈی کی طاقتیں‘‘کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزمان (شوگر ملز مالکان )خود ہی منصف بن کر کاشتکاروں کے خلاف جو چاہے فیصلہ دیں اس کو مان لیا جائے۔
طبقوں کی ہیئت میں تبدیلی کے بعد اب بڑے جاگیر دار صنعت کار بھی بن چکے ہیں اور سرمایہ داروں نے انکم ٹیکس بچانے کے لئے بڑی بڑی جاگیریں خرید لی ہیں، شوگرملز مالکان نے لاکھوں ایکڑ اراضی لیز پر لی ہوئی ہے۔ ایک ہزار ایکڑ گنے کی فصل کے مالک اور سات آٹھ ایکڑ اراضی کے مالک کی پیداواری لاگت، فصل کا منافع، زندگی کے مسائل اور معاشرتی زندگی دو الگ جہانوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ گنے سمیت دیگر اجناس کی قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے بے پناہ اراضی کے مالکان اور چھوٹے چھوٹے کاشتکاروں میں تمیز کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک طرف بڑے جاگیر داروں کی جاگیروں سے بڑی بڑی نہریں گزر رہی ہیں جن کے موگے اور پانی کی روانی ان کی مرضی سے ہوتی ہے تو دوسری طرف ایسی اراضی کے چھوٹے مالکان ہیں جہاںآبپاشی کے ذرائع ہی موجود نہیں ہیں۔ بیشتر جاگیرداروں کے حاشیہ برداروں نے انکی آشیر باد سے یا خود انہوں نے ہی کسانوں کے حقوق کے لئے نام نہاد انجمنیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ جن کے مقاصد کا عام کسان یا چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کے ساتھ کوئی تال میل نہیں ہے۔ شاہ محمودقریشی، اویس لغاری، ٹوانوں، کھروں کے مفادات اور چند ایکڑزمین کے مالک کاشتکاروں کے مفادات بالکل مختلف ہیں۔ اب ایسی میٹنگز بھی ارینج کی جاسکتی ہیں جن میں ایک طرف شوگرملز مالکان کی طرف سے جہانگیر ترین بیٹھا ہو اور دوسری طرف گنے کے کاشتکار کے طور پر جہانگیر ترین کا بزنس پارٹنر سید احمد محمود نمائندگی کررہا ہو۔ دوسری طرف چند ایک کاشتکاروں کی تنظیموں کی جدوجہداور اہم کردار کے باوجود یہ تنظیمیں طبقاتی طور پر چھوٹے کسانوں کے مفادات اور کسان مسئلے سے نابلد ہیں۔ ان تنظیموں کے پاس ’’کسان مسئلے‘‘ کا کوئی واضح پروگرام نہ ہے جس کی وجہ سے یہ صرف فوری نوعیت اور مخصوص قسم کے اٹھنے والے مسائل پر ہی سرگرم ہوسکتی ہیں۔ بالخصوص پنجاب میں کسان تنظیموں میں جماعت اسلامی کی ’’کسان بورڈ‘‘ نامی تنظیم کا ہی سب سے نمایاں تنظیم ہونا ثابت کرتا ہے کہ کسان مسئلہ کتنی رجعتیت اور پستی کی نظر ہوچکا ہے۔ دیگرغیر نظریاتی کسان تنظیمیں چھوٹے چھوٹے علاقوں تک محدود ہیں اور انکا نقطہ نگاہ بھی ’’موگوں کے سائز‘‘ گنے اور کپاس کے نرخوں تک سکڑ چکا ہے، یہ ملکیت کے موجودہ رشتوں کو مقدس سمجھ کر اسی فہم سے زرعی مسئلے کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذاتی ملکیت کو اگر مقدس مان لیا جائے اور منڈی کی قوتوں کے موجودہ توازن اورفیصلہ کرنے والی قوتوں کو قائم کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام، ذاتی ملکیت اور شرح منافع کے نظام کو چیلنج نہ کیا جائے تو پھر کسی ’’کسان تنظیم ‘‘اور’’کسان بورڈ‘‘ کے پاس حاوی سرمایہ دارانہ رجحانات، جاگیردارانہ اقدار، حکمران طبقے اور انکے مفادات کا تحفظ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک نیا سوشل آرڈر، جس میں زمینوں، جاگیروں، شوگرملز، فیکٹریوں، دولت اوراثاثوں سمیت تمام ذرائع پیداوار پورے سماج کی مشترکہ ملکیت ہوں، قائم کر کے ہی سماج پر حاوی مافیاز کی گرفت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور تمام وسائل کو نسل انسان کے لئے برابری کی سطح پر قابل تصرف بنایا جاسکتاہے۔