| تحریر: نادر گوپانگ |
پچھلے ہفتے چلی میں ہونے والے طلبہ مظاہروں پر پولیس کے جبر کی وجہ سے چلی کے شہر والپارائیسو میں ایک 28 سالہ طالب علم زخمی ہو گیا۔ یہ مظاہرے پورے چلی میں پھیلے ہوئے ہیں اور طلبہ مساوی تعلیم کے حصول کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ چلی کی اکیسویں صدی کی تاریخ میں کئی مرتبہ طلبہ بھرپور احتجاج کرتے ہوئے نظر ۱ٓتے ہیں۔
اپریل تا جون 2006ء میں ہمیں طلبہ کے مظاہروں کی ایک لمبی لہر نظر ۱ٓتی ہے۔ 30 مئی کو پورے ملک میں 790000 سے زائد طلبہ نے مارچ کیا۔ ان کے مطالبات میں مفت سفری سہولیات، یونیورسٹی میں داخلے کے لئے ٹیسٹ کی فیس کا خاتمہ تھے اور مستقل مطالبات میں فل ڈے سکول پالیسی کا خاتمہ (جس کے مطابق طلبہ کو کافی زیادہ گھنٹے سکول میں بٹھایا جاتا تھا) اور درس و تدریس کے ۱ٓئینی ایکٹ LOCE (جس کے مطابق تعلیم میں ریاست کا کردار نہیں ہونا چا ہیے بلکہ اسے لوکل گورنمنٹ کے حوالے کر دینا چاہیے ) کا خاتمہ اور سب کے لئے معیاری تعلیم تھے۔
یکم جون کو صدربیچلٹ نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے تعلیمی نظام میں اصلاحات کا اعلان کیااور طلبا کے مطالبات کو بحث میں لا نے کے لیے 73 ممبران کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں6 ممبران طلبا کی طرف سے بھی تھے۔ 9 جون کو طلبا اسمبلی نے فوراً ہڑتال ختم کر نے کا کہا۔ مارچ 23 کو 2000 طلبا چلی کے دارالحکومت سانٹیاگو کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پولیس اور طلبا کے درمیان پتھراؤ شروع ہو گیا۔ جس کے نتیجے میں درجنوں طلبا زخمی ہو گئے اور 200 سے زائد گرفتار ہوئے، اس کے بعد کچھ اصلاحات کر کے طلبہ تحریک کو کچل دیاگیا۔ کان کنی کا شعبہ چلی کی معیشت کا ستون ہے اور سرکاری آمدنی کا ایک تہائی حصہ کاپر کی برآمدات سے آتا ہے۔ یہاں کے محنت کشو ں نے 2007ء میں کام کر نے کے گھنٹوں کو کم کرنے، تنخواہوں میں اضافے اور بونس کے لیے بڑی بڑی ہڑتالیں کی تھی۔ قیادت کی کمزوری کی وجہ سے مزدوروں کی تحریک نے بھی طلبہ تحریک کی طرح پسپائی اختیار کی۔
2011ء میں صدر پائینرا کی دور حکومت میں بے روزگاری کی شرح 7.3 فیصد تک اور افراط زر 3.3 فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ بجٹ کا 0.5 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جا رہا تھا اور فیسوں میں60 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں ۱ٓیا تھا، یونیورسٹیوں میں دس میں سے سات طلبہ اپنے خاندان میں سے یونیورسٹی ۱ٓنے والے پہلے طالب علم تھے۔
ان تمام وجوہات کے پیش نظر 2011ء میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر طلبہ تحریک ابھرتی ہے جس کے مطالبات میں تعلیم کے لئے زیادہ سے زیادہ سرمائے کو مختص کرنا، ریاست کی اعلیٰ تعلیم میں زیادہ مداخلت، تعلیم میں منافع کے وجود کا خاتمہ، نئی یونیورسٹیاں بنانا اور سب کے لئے مفت اور معیا ری تعلیم کا حصول تھے۔ ایک طالب علم راہنماجیکسن کے مطابق ’’ہم چلی کے نظام تعلیم میں کاسمیٹک تبدیلیوں کی بجائے ساختی اصلاحات چاہتے ہیں جنہیں پچھلے 20 سالوں کی اتفاق رائے کی سیاست نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چلی کا نظام تعلیم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور اسے تبدیل ہونا چاہئے‘‘۔
چلی کی حکومت نے طلبہ تحریک پر اعتراضات لگاتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کی کمزوری کی وجہ سے یہ سب اصلاحات کرنا ممکن نہیں ہے۔ جس کے جواب میں طلبہ نے کہا ’’اگر یہ معاشی طور پر ممکن نہیں تو کارپوریشنوں اور امیروں پر ٹیکس بڑھا کر تعلیم مفت کرنی چاہئے‘‘۔
2011ء میں چلی کی 67 فیصد عوام کی طرف سے حکومتی پالیسی کو رد کیا گیا اور 62 فیصد عوام نے طلبہ تحریک کے حق میں ووٹ دئیے۔ 2013ء کے الیکشن میں بیچلٹ ایک بار پھر صدر منتخب ہو جاتی ہے اور بیچلٹ کی سوشلسٹ پارٹی کے ’’نئی اکثریت ‘‘نامی الائنس میں کمیونسٹ پارٹی، ڈیموکریٹک پارٹی ‘ سٹیزن لیفٹ اور دیگر پارٹیاں نظر آتی ہیں اور کئی طالب علم راہنما بھی اسمبلیوں میں جا پہنچتے ہیں۔ وہ تمام پارٹیاں جو اسمبلیوں میں گئی تھیں طالب علموں میں اپنی ساکھ کھو دینے کی وجہ سے ہارتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ 2013ء کے طلبہ الیکشنز میں ہمیں وہ طلبہ تنظیمیں جیتتی دکھائی دیتی ہیں جن کا کسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں 2011-13 کے عرصے میں مزدوروں کے بھی کئی احتجاج نظر آتے ہیں۔ مزدوروں میں بھی کمیونسٹ پارٹی کا گراف کافی نیچے جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے چلی میں ایک بار پھر احتجاجوں کا سلسلہ نظر ۱ٓ رہا ہے۔
اگر ہم اس ساری صورتحال کا تجزیہ کریں تو ہمیں ان تمام تحریکوں میں ایک ٹھوس نظریے، لائحہ عمل اور طریقہ کا ر میں کمی نظر ۱ٓتی ہے۔ اگر درست نظریات کے تحت طلبہ تحریک کو مزدور تحریک سے جوڑا جاتا اور ایک ٹھوس لائحہ عمل مرتب کر کے جدوجہد کو ۱ٓگے بڑھایاجاتا تو پورے ملک میں صورتحال مختلف ہو سکتی تھی۔
حالیہ صورتحال میں طالب علم اور مزدور تمام سیاسی پارٹیوں کی اصلیت جان چکے ہیں جنہوں نے مزدور طبقے اور نوجوانوں کو جہالت، ذلت، اور جبر کے سوا کچھ نہیں دیا۔ طلبہ تحریک کو ماضی کی تمام غلطیاں سدھارنی ہوں گی اور طالب علموں کا فریضہ ہے کہ خود کو نظریاتی طور پر استوارکرتے ہوئے اور تحریک کو منظم کرتے ہوئے مزدور طبقے کو اپنے ساتھ ملائیں۔
اس تحریک کی اشد ضرورت ’’ایک ٹھوس نظریہ‘‘ ہے جس کی وجہ سے طلبہ اور مزدور طبقاتی بنیادوں پر جڑسکیں جس کے تحت ایک انقلابی اوزاربنایا جا سکے جو اس استحصا لی نظام کو ختم کرتے ہوئے ایک ایسا نظام مرتب کرے جہاں سب کے لئے مفت معیاری تعلیم، مفت علاج، روزگار، سفری سہولیات اوررہائش ہوں۔
متعلقہ: