[رپورٹ: پی ٹی یو ڈی سی گوجرانوالہ]
گوجرانوالہ کے قریب موڑ ایمن آباد جی ٹی روڈ پر واقع پرائم گھی میں محنت کشوں کے استحصال اور مظالم کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ چند ماہ پہلے محنت کشوں نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے یونین رجسٹر کروانے کی جدوجہد کا آغاز کیا تو انتظامیہ کی انتقامی کاروائیوں کے علاوہ انہیں لیبر ڈیپارٹمنٹ کی بد عنوانی کا بھی سامنا کرناپڑا۔ اس وقت 200 سے زائد مزدور اس فیکٹری میں مشکل ترین حالات میں کام کر رہے ہیں گو کہ فیکٹری مالکان نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو انسپکشن کے دوران 160 مزدوروں کی تعداد بتائی ہے۔ ان مزدوروں سے 12گھنٹے کام لیا جاتا ہے جبکہ تنخواہ حکومت کی طرف سے آٹھ گھنٹوں کے لیے مقرر کردہ 9ہزار روپے ماہانہ سے بھی کم دی جاتی ہے۔ فیکٹری میں روزانہ 30 ٹن سے زیادہ کی پیداوار کی جاتی ہے جس سے مالکوں کے منافعوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن روزگار کی کوئی ضمانت موجود نہیں۔ جب یونین کی جدوجہد کا آغاز ہوا تو صرف 51 محنت کش سوشل سکیورٹی میں رجسٹر تھے جبکہ اب بھی سخت تگ و دو کے بعد 32 کے اضافے کے ساتھ صرف 83 رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
لیکن اس دوران یونین بنانے کے عمل میں شریک محنت کشوں کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تھانہ موڑ ایمن آباد میں ان کے خلاف متعدد جھوٹی درخواستیں جمع کرائی جاتی ہیں جس پر پولیس محنت کشوں کو ہراساں کرتی ہے۔ یونین کی رجسٹریشن کے خلاف این آئی آر سی لاہو ر میں مالکان کے بے بنیاد جواز کی بنا پر عدالت نے یونین کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔ 7 مزدور راہنماؤں کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے پر فیکٹری سے نکال دیا گیا ہے۔ یہاں پر نام نہاد قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور پولیس اور لیبر ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام ریاستی ادارے مالکان کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔ جب یونین کے عہدیدار فیکٹری میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کے سامنے پولیس انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیتی ہے۔ مالکان کی جھوٹی درخواستوں کے نتیجے میں آئے روز تھانہ ایمن آباد میں محنت کشوں کو بلا کر ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ گزشتہ جمعرات 6 دسمبر کو محنت کشوں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے سامنے احتجاج بھی کیا جس میں انہوں نے اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔ لیکن اس احتجاج کے بعد ان کے خلاف پولیس کی کاروائی میں شدت آگئی اور انہیں مزید ہراساں کیا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کے نمائندوں نے اس ظلم کے خلاف سی پی او گوجرانوالہ اور ڈی آئی جی کو درخواست دے رکھی ہے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ فیکٹری میں کسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات موجود نہیں اور کئی محنت کش مختلف حادثوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ابلتے ہوئے گھی میں ہاتھ آنے سے کئی محنت کشوں کے ہاتھ جل چکے ہیں اور ان کے بازو مفلوج ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک محنت کش کرنٹ لگنے سے بھی جاں بحق ہو چکا ہے۔ کسی محنت کشوں کو ان حادثوں کے بعد معاوضے کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ کی انسپکشن کے باوجود ابھی تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ ہی ابھی تک مزدوروں کی یونین کو رجسٹر کیا گیا ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے افسران بھی فیکٹری مالکان کی ملی بھگت سے لاہور ڈائریکٹر جنرل کو جھوٹی رپورٹیں ارسال کر رہے ہیں۔ محنت کشوں کو اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے پر قتل اور اغوا کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ ایسے میں محنت کشوں کے پاس کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ احتجاج کریں۔ اس مقصد کے لیے 6 دسمبر بروز جمعرات صبح 9 بجے پرائم گھی کے محنت کشوں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ گوجرانوالہ کے باہر احتجاج کیا اور اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ اس کے علاوہ وہ روزانہ فیکٹری کے سامنے بھی احتجاج کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں محنت کشوں نے یونین کے جنرل سیکرٹری محمد اشفاق کے ذریعے پاکستان ٹریڈ یونین دیفنس کمپئین کے راہنما آدم پال سے رابطہ کیا تو انہوں نے مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس پر کامریڈ آدم پال نے جب محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اہم ریاستی اہلکاروں نے انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کہا کہ ہم محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قوت سے ٹکرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو فیکٹری کے اندر ہونے والے جرائم نظر نہیں آتے جہاں کئی محنت کشوں کے سوشل سکیورٹی کارڈ موجود نہیں، کسی قسم کا کوئی حفاظتی انتظام نہیں جس کے باعث پہلے بھی کئی حادثے ہو چکے ہیں، بارہ گھنٹے روزانہ کام لیا جاتا ہے اور تنخواہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ آٹھ گھنٹے کے لیے ماہانہ 9 ہزار روپے سے بھی کم دی جاتی ہے۔ ریاستی اہلکاروں اور پولیس کا کام صرف سرمایہ داروں کا تحفظ ہے اور وہ ان کے تمام غیر قانونی اقدامات کا تحفظ کرتے ہیں لیکن جب مزدور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پرائم گھی کے محنت کشوں کا یونین بنانے کا مطالبہ بالکل جائز ہے اور ہم اس جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم گوجرانوالہ کی دیگر مزدور تنظیموں کے ساتھ مل کر ان مالکان اور ریاستی اہلکاروں کے خلاف احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ عدالتوں نے بھی اگر محنت کشوں کے خلاف فیصلے سنائے تو ہم ان کے خلاف بھی احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس طبقاتی نظام میں محنت کشوں کے پاس واحد ہتھیار ان کی یکجہتی ہے۔ اگر مزدور یکجا ہو جائیں تو نہ صرف ان سرمایہ داروں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑتے ہوئے تمام ذرائع پیداوار پر محنت کش قبضہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتے ہیں اور ایسامعاشرہ قائم کر سکتے ہیں جہاں کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے۔