| تحریر: ریحانہ اختر |
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے ہونے والی معاشی گراوٹ نے جہاں مجموعی طور پر محنت کش طبقے کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے وہیں سماج کی نصف آبادی (جو کہ خواتین پر مشتمل ہے) کی زندگیوں کو پہلے سے کہیں زیادہ عدم تحفظ، خوف، معاشی استحصال اور جنسی نا برابری کی انتہاؤں پر دھکیل دیا ہے۔ پورے انسانی سماج کی تخلیق کار عورت کو آدھی گواہی والی، نصف العقل اور صنف نازک جیسے تحقیر آمیز القابات سے نوازا جاتا ہے۔ عظیم بالشویک رہنما لیون ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ کو کسی سماج کا بغور معائنہ کرنا ہو تو وہاں پر موجود خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیں۔‘‘ اس بنیاد پر اگر ہم اس سماج میں موجود خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کس قدر پسماندگی، رجعتیت، جنسی و صنفی امتیاز، متعصبانہ رویے اور تشدد موجودہے جو کہ عمومی اعتبار سے سماجی تنزلی اور گراوٹ کا پیش خیمہ ہے۔ سیاست سے محنت کش طبقے کی خواتین کی دوری، سیاسی و سماجی گراوٹ کی ایک اہم وجہ ہے۔ کسی بھی نظام میں سماجی ہمواری کا باعث معاشی ہمواری ہوا کرتی ہے جبکہ خواتین کی اکثریت کو پورے کے پورے معاشی سائیکل سے ہی باہر کر دیا گیا ہے۔ یہ معاشی نا برابری پھر سماجی طور پر عورت کو کم حیثیت اور پست درجے پر لے جاتی ہے۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی اکثریت ناخواندہ ہے، اس ناخواندگی کا باعث جہاں خاندان سمیت تمام رجعتی ادارے ہیں وہیں یہ نظام خواتین کو تعلیم، علاج اور روزگار جیسی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ چار دیواری کے نام پر ’’قید‘‘ میں رکھ کر گھریلو مشقت لی جاتی ہے جو کہ بے گار ہے۔ اس بے گار کواگر جمع کیا جائے تو گھریلو کام کاج میں محنت کی بہت بڑی مقدارپنہاں ہوتی ہے جس کی چوری کر لی جاتی ہے اور اس کے بدلے میں کوئی اجرت نہیں ادا کی جاتی۔ اس محنت کے معاوضے کے طور پر فرمانبرداری کی تعلیم دی جاتی ہے تاکہ غلامی کو برقرار رکھا جا سکے۔
پاکستان جیسے ملک میں صرف 3 فیصد بچیاں ہائی سکول تک جا پاتی ہیں جبکہ تعلیم کا مقصد شعور اور تخلیق کی بجائے پہلے سے موجود رجعتی سماجی پیمانوں کے مطابق خود کو ڈھالنا سکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھی لکھی خواتین کی اکثریت جدوجہد کے راستوں سے بے خبر دولت کی چمک سے متاثر نظر آتی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ نظام عورت کو چار دیواری میں قید کر کے غلام بنا کر رکھتا ہے وہیں ضرورت پڑنے پر جبراً اس حصار کو توڑ کر عورت کو منڈی میں لا کھڑا کرتا ہے۔ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اگر ملازمت کے حصول میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی انہیں مرد محنت کشوں کی نسبت آدھی اجرت دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر ہراساں کرنا، نوکری کا عدم تحفظ، معاشرے میں بدنامی کا خوف، مستقبل کی غیر یقینی جیسی بہت سی غلاظتیں ہیں جوکہ مرتے ہوئے سرمائے کے نظام کی دین ہیں۔ ایک طرف حکمران طبقے کے میڈیا کے ذریعے خواتین کو گھر بیٹھے بے پناہ بناؤ سنگھار اور قابل اعترازفیشن کی ترغیب دی جاتی ہے تو دوسری طرف بنیاد پرستی کی آڑ میں چادر اور چار دیواری کو مسلط کیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں شدید ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔ یہ ناہمواری اپنا اظہار تعصب پر مبنی رویوں، اخلاقی پستی، بے راہ روی، اعتماد کی کمی اور جرائم میں کرتی ہے۔ اس متضاد اور دگرگوں کیفیت میں ہمیں ایک کردار این جی اوز (NGOs) کا بھی نظر آتا ہے جو کہ خواتین کے حقوق کا واویلا مچاتی نظر آتی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑے بڑے پر تعیش ہوٹلوں میں سیمینار منعقد کرتی ہیں۔ اس ساری واردات کے پیچھے فوٹو سیشن اور اس کے ذریعے مال بنانے کی نفسیات کارفرما ہوتی ہے۔
منافعوں کے حصول کی اندھی دوڑکے باعث آئے روز پیش آنے والے دل سوز واقعات کی خبروں کی تشہیر کے دوران میڈیا پر فیشن کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جن کا مقصد سارے سماج کی ذہن سازی کرنا ہوتا ہے تا کہ عام لوگ وہی سوچیں جو حکمران طے کرتے ہیں اور ان کی ثقافت کو اپنی ثقافت مان لیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ عورت کی احساس کمتری کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سماج عورت کو بتاتا ہے کہ اُسے کیسا نظر آنا چاہیے جبکہ درپردہ ایک پوری انڈسٹری (کاسمیٹکس) کو صرف عورت کے احساس کمتری پر چلایا جاتا ہے جو کہ اس وقت دنیا کی آٹھویں بڑی انڈسٹری ہے۔ ذہن سازی کا عالم یہ ہے کہ تیس کی دہائی کے عظیم بحران کے دنوں میں بھی کاسمیٹکس انڈسٹری کی اشیاء بکنا بند نہیں ہوئی تھیں۔ یہ تمام سامانِ آرائش و زیبائش اور زیورات جو کہ کبھی غلاموں کو پہنا واہوتا تھا آج جدید شکل میں عورت کو پہنادیا گیا ہے۔ بحیثیت انسان عورت کی سوچ کو مجروح کر کے اسے ایک جنس کے طور پر پیش کرنا اس نظام کی ضرورت ہے۔ جہاں اس ضرورت کو منافعوں میں ہو شربا اضافہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہیں اس کا مقصد عورت کو کم تر درجے پر رکھ کر اپنی غلامی کرانے بھی ہے۔ حکومتی سطح پریہ سوچ ہمیں کھلے عام نظر آئے گی۔ پچھلے عرصے میں خواتین کے حقوق کے حوالہ سے اسمبلی میں پیش ہونے والا بل ’ جس میں تشدد کو عین اسلامی اورجائز قرار دیا گیا‘ اس کی واضح مثال ہے۔
غیرت کے نام پر ہونے والی قتل کی وارداتوں میں پچھلے چند سالوں سے بتدریج اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح غیرت کے نام پر قتل، اغوا، جنسی تشدد، سر عام آگ لگانے، جرگے کے فیصلے پر اجتماعی زیادتی اور کاروکاری کے واقعات میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے اس تشدد میں اضافے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایسے واقعات میں جرگے کے فیصلوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے بلکہ کئی مقامات پر ریاستی اداروں کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے حوالہ سے تیسرا خطرنا ک ترین ملک ہے (پہلا افغانستان اور دوسرا کانگو ہیں)۔ بی بی سی کے مطابق پچھلے سال 1100 خواتین کو ان کے رشتہ داروں کی طرف سے اس لئے مار دیا گیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے خاندان کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق 900 خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور تقریباً 800 کے قریب خواتین نے خود کشی کر لی۔ جبکہ ان میں اکثر واقعات کے پیچھے اصل وجہ جائیداد کا ہتھیانا رہا ہے۔ جنسی برابری میں پاکستان دنیا میں بعد آخری نمبر پر ہے جبکہ صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی کے حوالہ سے پاکستان دنیا میں دوسرا بدترین ملک ہے جہاں ہر سال 5 لاکھ سے زائد خواتین زچگی کے دوران ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں کی شرح خواتین میں زیادہ ہے۔ تا ہم یہ بات کسی المیے سے کم نہیں ہے کہ پورے انسانی سماج کے اندر خواتین کی کل آبادی میں 2فیصد کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ یہ کمی خواتین پر ہونے والے استحصال کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ضروری خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحت کی کیفیت جہاں سارے محنت کش طبقے میں انتہائی خراب ہے وہیں عورتوں میں یہ صورت حال مزید ابتری کا شکار ہے۔ آئرن، کیلشیم اور ضروری وٹامنز کی کمی کی شکار مائیں جسمانی اور ذہنی اعتبار سے معذور بچوں کو پیدا کرتی ہیں جو کہ ساری نسل انسانی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اگر اس سماج کا بغور جائزہ لیا جائے تو اصل میں نسل انسانی کو بڑھانے والی ہستی ’عورت ‘جو کہ سارے سماج کی اکائی ہے، جہاں تمام رشتے آپس میں یکجاہوتے ہیں، وہ غلامی کا شکار ہے اور غلام مائیں آزاد معاشرے پیدا نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کی آزادی براہ راست عورت کی آزادی اور ماں کی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ عورت کو ایک جنس کے پیمانے سے اٹھا کر مشترکہ طور پر انسان کی حیثیت میں لاکھڑا کرنا ہو گا جو کہ دولت و زر کے اس سماج میں ممکن نہیں، جب تک استحصال اور نا انصافی پر مبنی اس نظام کو جڑوں سے اکھاڑتے ہوئے یہاں پر سوشلسٹ بنیادوں پر معاشرے کے قیام کو عمل میں نہیں لایا جاتا عورت کو بحیثیت انسان آزاد نہیں کیا جا سکتا۔ عورت کی نجات کی لڑائی صرف طبقاتی بنیادوں پر لڑی اور جیتی جا سکتی ہے کیونکہ عورت کا استحصال بھی طبقاتی مسئلہ ہے۔ حکمران طبقے کی’ عورت ‘محنت کش طبقے کے ’مردوں‘ سے زیادہ با اختیار اور مضبوط ہے، اس لئے اس مسئلے کے حل کو اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑے بغیر نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی لڑا جا سکتا ہے۔
عورت کی تاریخی حیثیت کو دیکھا جائے تو ایک وقت میں سماج مدر سری بنیادوں پر چلایا جاتا رہا ہے۔ معاشی میدان میں شکست کے بعد عورت کو اس کی سماجی حیثیت سے شکست دی گئی۔ تا ہم ماضی کی تمام تحریکوں، ہڑتالوں، جنگوں اور انقلابات کے اندر محنت کش خواتین کی شاندار انقلابی روایات ہمیں آج بھی عورت کے لازوال انقلابی کردارپر یقین دلاتی ہیں۔ پیرس کمیون، عظیم بالشویک انقلاب اور حال ہی میں مختلف ممالک میں ہونے والی ہڑتالوں، آکو پائی وال سٹریٹ موومنٹ، مصر کے انقلاب اور دیگر تحریکوں میں ہمیں محنت کش خواتین اگلی صفحوں میں لڑاکا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آئیں۔ محنت کش خواتین کی جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ 8 مارچ یعنی محنت کش خواتین کے عالمی دن کی حقیقی تاریخ کو دنیا بھر میں مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ 8 مارچ کی بنیاد محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر 1910ء میں محنت کش خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس میں رکھی گئی تھی جس میں 17 ممالک کی 100 نمائندہ خواتین نے شرکت کی تھی۔ عظیم بالشویک انقلاب 1917ء میں بھی 8 مارچ کی خواتین کی انقلابی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 8 مارچ کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے طور پر منانے کا آغاز اس لئے کیا گیا تھا تا کہ اس کے ذریعے خواتین کو ووٹنگ کا حق، ملازمتوں کے دوران جنسی تعصب کے خاتمے اور خواتین کی آزادی و نجات کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑا جا سکے۔ سوشلزم میں محنت کش طبقے کی مشترکہ تنظیم سے چلنے والی منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی وہ معاشرہ تعمیر ہوگا جس میں عورت کی گھریلو غلامی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ بچوں کی نگہداشت کے لئے ڈے کیئر سنٹرز، عوامی کھانا گھر اور اجتماعی لانڈریوں کا آغاز کر کے اس گھریلو استحصال اور غلامی کا خاتمہ کیا جائے گا تا کہ خواتین کی تخلیقی صلاحیتیں پوری طرح اجاگر ہوں اور وہ سماجی پیداواری عمل کا حصہ بن سکیں۔ ذاتی ملکیت کا خاتمہ نہ صرف گھریلو غلامی بلکہ باہر کے استحصال اور جبر سے بھی آزادی دلائے گا۔ آج یہ عہد ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم 8 مارچ کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے پھیلانے میں کردار ادا کریں اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محرومی و ناانصافی پرمبنی اس نظام کوجڑوں سے اکھاڑتے ہوئے نہ صرف خواتین بلکہ تمام نسل انسان کی سیاسی، سماجی اور معاشی غلامی کا ہمیشہ کے لیے خا تمہ کردیں۔