| تحریر: ریحانہ اختر |
2008-9ء میں آ نے والے عالمی معاشی بحران کے شدت اختیار کر جانے سے ایک طویل عرصے کے معاشی زوال کی علامات واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ سرمایہ داری کی بیماری بہت بڑھ چکی ہے۔ ایک دہائی پہلے تک ترقی یافتہ مغربی ممالک کو اس کرہ ارض پر جنت سمجھنے والوں کے خواب اب بری طرح چکنا چور ہورہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے چینی، محنت کش طبقے کے معیار زندگی میں مسلسل گراوٹ، کٹوتیوں کی پالیسیاں اوربڑھتے ہوئے قرضوں کا حجم سیاسی و سماجی انتشار کی شدت میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ معاشی بحالی کے متعلق ساری گفتگو ماند ہوگئی ہے۔ حکمران طبقہ اپنا اعتماد کھو چکا ہے اور عدم تحفظ آج کا معمول ہے۔ ہر آنے والا دن اس نظام کو مزید بربادی میں غرق کررہا ہے۔ معاشی بحران کا اظہار سیاسی عدم استحکام اور سماجی انتشار میں ہورہا ہے۔
اس طرح یہ نظام ناقابل حل تضادات میں دھنس چکا ہے جسکے اثرات جہاں سماج کی ہر پرت کو متاثر کرہے ہیں وہاں محنت کش طبقے کی خواتین پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ صرف امریکہ کی مثال لے لی جائے تو2008ء کے بعد اب تک اڑھائی لاکھ سے زائد خواتین سے ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔ یہی صورتحال یورپ کے باقی ممالک کی بھی ہے۔ جہاں ایک طرف اتنی بڑی تعداد میں خواتین سے روزگار چھیناجا رہا ہے وہاں ضروریات زندگی کو مہنگا کیا جارہا ہے۔ تنخواہوں میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا جارہا جبکہ دوسری طرف نئی کٹوتیوں کے نفاذ کا عمل مسلسل جاری ہے۔
محنت کی منڈی میں انتہائی کم اجرت پر اپنی محنت بیچنے والی خواتین کو خاندان اور گھر کے اندر بے دام محنت بھی کرنا ہوتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی تنخواہوں پر کا م کرنے والی خواتین چائلڈ کئیر جیسی سہولیات سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی نہیں رکھتی ہیں۔ اس لیے انہیں بچے پالنے جیسا اہم اور مشکل کام بھی ساتھ ساتھ ہی کرنا پڑتا ہے۔ کروڑوں خواتین پر مشتمل یہ فوج حکمران طبقے کے لئے سستی اور کارگر محنت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ معاشی جبر، سماج کے اندر ایک ادنیٰ حیثیت، گھریلو مشقت، بچوں کی دیکھ بحال اور فیکٹریوں یا صنعت میں نوکریاں کرنے جیسے حقائق اتنے تلخ ہیں کہ ان کا درست ادراک یہ سب سہنے والی خواتین ہی کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ساری دنیا میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے اربوں انسانوں کی اوسط عمر گھٹ رہی ہے وہیں محنت کش خواتین کی اوسط عمر گھٹنے کے ساتھ ساتھ قوتِ مدافعت بھی گر رہی ہے۔ خون کی کمی، بلڈ پریشر اورنفسیاتی امراض میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ تیسری دنیا کے ممالک میں پورے سماج کو بیمار بنا رہا ہے کیونکہ ماں (عورت) ہی سماج کی بنیادی اکائی ہوتی ہے جو نسل انسان کو جنم دینے کے ساتھ اس کی ابتدائی تربیت بھی کرتی ہے۔ جہاں ایک طرف چادر اور چار دیواری جیسے رجعتی خیالات کے تحت عورت کو پردے میں چھپا کر گھر میں قید کرنے کی نفسیات موجود ہے وہیں جب معاشی زوال اپنے پنجے مضبوط کرتا ہے تو اسی چادر اور چار دیواری اور پردے کو ترک کر کے یہی نظام محنت کش خواتین کو مر د محنت کشوں کے برابر کھڑا ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جہاں استحصال کی ایک اور بھیانک دنیا منہ کھولے ان کا استقبال کرتی ہے۔ مڈل کلا س کی خواتین میں ’’جدیدیت‘‘ اور ’’خوبصورتی‘‘کا ایک خبط بھی موجود ہوتا ہے جس کی بنیاد پر ایک احساس کمتری پیدا کیا جاتا ہے اور اس احساس کمتری کو مٹانے کا طریقہ کاسمیٹکس انڈسٹری کی طرف نکالا جاتا ہے جو استحصال کی ایک اور بھیانک شکل ہے۔
جہاں محنت کش طبقے کی خواتین کی بڑی تعداد تعلیم سے محروم ہے وہاں سرکاری طور پر پڑھائے جانے والے نصاب میں بھی عورت کو تاریخ میں اس کی سماجی حیثیت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ سرمایہ داری کانصاب مادر شاہی دور کے اندر عورت کی حیثیت پر بات نہیں کرتا بلکہ شاعروں کی شاعری سے لیکر مصوری اور دوسرے فنون میں بھی عورت کے ایک نازک اور کمزور جنس ہونے کی نفسیات سماج پر مسلط کی جاتی ہے۔ اس سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے مذہب کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسرے ہر ایشو کی طرح عورت پر ظلم و جبر بھی ایک منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ ’’عورت کے حقوق‘‘ کے نام پر دیوہیکل منافع بخش صنعت چلتی ہے۔ دولت کی ریل پیل کی ایک گنگا بہتی ہے جس میں این جی اوز کے خواتین و حضرات ڈبکیاں لگا رہے ہیں اور ’’مخیر‘‘ حضرات اپنا مکروہ چہرہ چھپا رہے ہیں۔ اس ’’لبرل‘‘ سوچ کے تحت عورت کے ذہن میں استحصالی عنصر کے طور پر مرد کو بٹھایا جاتا ہے تا کہ محنت کش طبقے کی یکجہتی کو توڑ کر جنسی تفریق اور بھی گہری کی جائے اور طبقاتی جدوجہد کو ماند کیا جاسکے۔ سماج کی بہت سی پرتوں میں یہ تصور بہت مضبوط بھی ہے کہ عورت کا استحصال مرد کرتا ہے۔ مگر حقیقت میں یہ نظام اگر عورت کے حقوق سلب کرتا اور اس کا استحصال کرتا ہے تو محنت کش مرد کو بھی نہیں چھوڑتا ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش طبقہ بحیثیت مجموعی استحصال کا شکار ہے اور طبقاتی سماج میں عورت کا استحصال دوگنا ہو گیا ہے۔
عورت کا ایک درناک حال ہی نہیں جدوجہد کے حوالے سے ایک بہت روشن ماضی بھی ہے۔ تاریخ نے عظیم انقلاب فرانس اور بالشویک انقلاب کے اسباق کو ابھی تک فراموش نہیں کیا۔ تاریخ کا دھارا موڑ دینے والے ان انقلابات میں ’’صنف نازک‘‘ کا کلیدی کردار جلی حروف سے آج بھی محنت کش طبقے کی میراث میں درج ہے۔ ان دونوں انقلابات کا آغاز ہی خواتین نے کیا تھا۔ 1917ء کے بالشویک انقلاب کے بعد بھی محنت کش خواتین کا سوویت جمہوریہ کی تعمیر اور دفاع میں وسیع کردار رہاہے۔ انقلاب کی بات کی جائے تو خواتین امکانی اعتبار سے زیادہ انقلابی ہوتی ہیں۔ سماجی بیڑیاں توڑنا یقیناًکٹھن مرحلہ ہوتا ہے لیکن ایک مرتبہ یہ بیڑیا ں ٹوٹ جائیں تو عورت بہت نڈر اور بہادر لڑاکا ثابت ہوتی ہے۔ 2008ء کے بعد یورپ میں حکمران طبقے کے معاشی حملوں کے خلاف ہڑتالوں میں خواتین صف اول میں نظر آتی ہیں۔ آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک میں، جس کی حمایت میں ایک ہی دن میں دنیا کے نو سوسے زائد شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے، خواتین پیش پیش تھیں۔ پاکستان کی بات جائے تو گزشتہ کچھ عرصے میں ینگ نرسز، لیڈی ہیلتھ ورکرز اور YDA کی خواتین نے اپنے جائز حقوق کے لئے جرات مندانہ تحریکیں چلائی ہیں، ریاست کا جبر برداشت کیا ہے اور حکمرانوں کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف گھروں میں مشقت کرنے والی خواتین بھی سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔
یہ نظام جس نہج پر پہنچ چکا ہے وہاں معاشی مسائل سے لیکر سماجی وثقافتی جبر تک، عورت کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کرسکتا ہے۔ سرمایہ داری کی نااہلی عالمی پیمانے پر ثابت ہو چکی ہے۔ ایک یکسر مختلف سماج کا قیام لازمی ہے جو صرف اور صرف سوشلسٹ سماج ہو سکتا ہے۔ یہی سماج محنت کش طبقے کے مرد و زن کو سرمائے کے جبر اور مالیاتی غلامی سے نجات دلا سکتا ہے۔ محنت کش عورت کی لڑائی کبھی بھی محنت کش مرد کی لڑائی سے الگ نہیں ہوسکتی ہے۔ محنت کرنے والوں کو تمام مذہبی، لسانی اور جنسی تعصبات کو رد کرتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر اس نظام اور اس کے رکھوالوں کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ عورت سماجی طور پرتبھی آزاد ہوسکتی ہے جب معاشی طور پر آزاد ہو اور اس معاشی آزادی کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔