[تحریر: محمد افغان مشوانی]
پاکستان میں قومی شناختی کارڈکااجرا 1973ء میں ہوا۔ چودہ سال قبل تک پاکستانی شہریوں کوسادہ قسم کے شناختی کارڈجاری کئے جاتے تھے جوہرضلع میں ضلعی رجسٹریشن دفترمیں بنائے جاتے تھے۔ اس وقت بوگس کارڈآسانی سے بنائے جاسکتے تھے اور ووٹرلسٹوں میں ہیر پھیر بھی ہوتی تھی۔ 2000ء میں نادرا کاقیام عمل میں لایاگیاتوبوگس شناختی کارڈبنانے والوں کیلئے مشکلات پیداہوئے۔ اسی سال فیصلہ ہواکہ نادرا شہریوں کوکمپوٹرائزڈقومی شناختی کارڈجاری کریگااوراس کے ساتھ ہی نکاح نامہ، ڈیتھ سرٹیفکیٹ، پیدائشی سرٹیفکیٹ، ب فارم، اسلحہ لائسنس اورپاسپورٹ وغیرہ کمپیوٹرائزڈہوگئے۔ یہ تمام سہولیات نادراکے ملازمین کی انتھک محنت کے نتیجے میں عوام کو ملیں مگر ان ملازمین کے مسائل آج تک حل نہیں ہو سکے۔ نادراملازمین کوسال 2012ء میں طویل جدوجہدکے بعدمستقل توکردیاگیا مگرانہیں ان کے جائزحقوق اورگریڈنہیں دیئے گئے۔ انہیں BPS دے کر سکیل کم کردئیے گئے۔ ڈیٹاانٹری آپریٹرزجودیگروفاقی اورصوبائی محکموں میں 12 اور14 سکیل کے ہوتے ہیں نادرامیں ان کے سکیل کم کرکے 7 اور9 کردئیے۔ دیگروفاقی ملازمین کومیڈیکل پینل دیاگیاہے جبکہ نادراملازمین اس سے بھی محروم ہیں۔ نادراملازمین کے میڈیکل بل نادراہی کی ہی میڈیکل پالیسی کے تحت منظورنہیں کئے جاتے۔ وفاقی اداروں کے ملازمین کودئیے جانے الاؤنسز سے بھی نادرا کے محنت کش محروم ہیں۔ اسی طرح وزیرداخلہ اوروزیراعظم وزارت داخلہ کے ماتحت دیگراداروں اورمحکموں کے ملازمین کیلئے اضافی تنخواہ دینے اوردیگرمراعات کااعلان کرتے ہیں تونادراملازمین ان مراعات اوراضافی تنخواہ سے بھی محروم رہ جاتے ہے۔ جبری طورپرملازمت سے برطرف اورمعطل کردینا بھی محکمے کا معمول بن چکا ہے اور یونین بنانے کاحق بھی نہیں دیاجاتا۔ 1973ء کے آئین پاکستان، اقوام متحدہ اورآئی ایل اوکے مزدورقوانین کے تحت حاصل حقوق سے بھی نادرا کے ملازمین محروم ہیں۔
گزشتہ دنوں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آل پاکستان نادراایمپلائزیونین کے زیراہتمام یونین کے مرکزی صدرسلیم خان شیرپاؤکی قیادت میں اپنے جائزاورقانونی حقوق یعنی ڈیٹاانٹری آپریٹرزکیلئے 12 اور 14 سکیل، وفاقی حکومت کے تحت APT قوانین کانفاذ، ملازمین کی سینارٹی لسٹوں کااجرا، ہاؤس ہائرنگ، ڈی جی آرکے سپرینٹنڈنٹ کوباقی محکموں کی طرح گریڈ 16 دینے، معذورنادراملازمین کواسپیشل الاؤنس دینے، ملازمین کے بچوں کی بھرتی کے کوٹہ پرعمل درآمدکرنے، سروس سٹرکچر، ایس ٹی ملازمین کومستقل کرنے، جبری طورپربرطرف اورمعطل کئے گئے ملازمین کی بحالی اوردیگرحقوق کیلئے احتجاجی مظاہرکیاگیا۔ مظاہرے میں سینکڑوں کی تعدادمیں نادراملازمین نے شرکت کی۔ نادراملازمین کے بچے بھی مظاہرے میں شریک تھے جنہوں نے پلے کارڈزاُٹھائے رکھے تھے۔ مظاہرے میں شریک دوبچیوں کے پلے کارڈز پردرج تھا کہ ’’کیا ہم محکمانہ علاج کے مستحق نہیں؟‘‘ اور ’’35سالوں میں میرے پاپاکی ترقی کیوں نہیں ہوئی؟‘‘
اس سے قبل جب نادراملازمین کنٹریکٹ پرکام کررہے تھے توملازمین نے ملک گیرسطح پرنادراملازمین کی مستقلی کیلئے تحریک چلائی تھی۔ تحریک کے نتیجے میں نادراملازمین کوسال 2012ء میں مستقل کردیامگراس کے باوجودکچھ ملازمین کوکنٹریکٹ پرہی رکھاگیا۔ اس کے ساتھ ہی ملازمین کے مستقل ہونے سے قبل اوربعدمیں نادرانے درجنوں کی تعدادمیں ملازمین بھرتی کئے مگرانہیں مستقل کرنے کے بجائے یاتوایس ٹی شارٹ ٹرم(مختصرمدت) کیلئے رکھ دیااورکچھ کوکنٹریکٹ پر۔ دوسال گزرنے کے باوجودبھی ان ایس ٹی اورکنٹریکٹ ملازمین کومستقل نہیں کیا۔ آج دوسال گزرنے کے بعدملک بھرمیں درجنوں کی تعدادمیں ایس ٹی ملازمین کومستقل کرنے بجائے ملازمت سے برطرف کیا جارہا ہے۔ نادرا کے مستقل ملازمین اپنے ان ساتھیوں کی مستقلی کے لئے بھی آزاد بلند کر رہے ہیں۔ نادراملازمین نے ایک مرتبہ پھرسے ملک گیراحتجاجی مظاہروں کاتحریک شروع کررکھاہے اوربہت جلدملک گیرسطح پرسخت احتجاجی تحریک شروع کرنے پرغورکرنے کیلئے اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ ہوسکتاہے ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھرسے نادرادفاترمیں تالہ بندی کاسلسلہ شروع ہوجائے۔ ٹیکنیکل اداروں کی ملازمین کا سڑکوں پرنکلنااس بات کی دلیل ہے کہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمران نااہل ہیں جواپنے ملک کوچلانے والوں کوسڑکوں پرنکلنے کیلئے مجبورکررہے ہیں۔
نادراملازمین کاواضح موقف ہے کہ دوسال کاعرصہ گزرنے کے باوجودملازمین کے لئے نہ توکوئی سروس رولزبنائے گئے اورنہ ہی ملازمین کوان کے جائزحقوق دئیے گئے۔ دیگرصوبوں کی نسبت بلوچستان میں نادراملازمین کے خلاف انتقامی کارروائیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اکثرملازمین کے میڈیکل بل، ٹی اے ڈی اے وغیرہ اس لئے مستردکردئیے گئے ہیں کہ ان ملازمین نے نادرا یونین کاساتھ دیا۔ ماہ نومبرمیں اکثرملازمین کی تنخواہوں سے ہزاروں روپے کی کٹوتی کی گئی ہے۔ بلوچستان کے ملازمین کو ماہ جنوری سے ایم آر وی الاؤنس سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ جب یونین کے سیکرٹری اطلاعات نے اس بارے میں آوازاُٹھائی تواسے معطل کردیا گیا۔ یونین کاسیکرٹری اطلاعات اب بھی غیرقانونی طورپرگزشتہ آٹھ ماہ سے معطل ہے۔ اکثرملازمین کواپنے متعلقہ اضلاع سے دورٹرانسفرکیا جارہا ہے جہاں نہ تونادراکی جانب سے ملازمین کورہائش کی سہولت دی گئی ہے اورنہ ہی پرائیوٹ طورپررہائش کی کوئی سہولت موجودہے۔ نادراملازمین کے احتجاجی مظاہرے سے مرکزی صدرسلیم خان شیرپاؤ، مرکزی چیئرمین افتخارمگسی، سندھ کے صدررضاخان سواتی، کراچی ریجن کے صدرعرفان ملک، حیدرآبادریجن کے سعیداحمدسکھرریجن کے صدرعمیرخان اوربلوچستان کے صدرضیا الرحمان ساسولی نے خطاب کیا۔ مقررین نے واضح کیا کہ نادراملازمین نے سیلاب، زلزلہ اوردیگرقدرتی آفات میں عوام کاڈیٹااکٹھاکرنے میں اہم کرداراداکیامگراس کے باوجودوہ خود حقوق سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج نادراملازمین اپنے جائزحقوق حاصل کرنے کیلئے سڑکوں پراحتجاج کررہے ہیں۔ پشاور، لاہور، کراچی، حیدرآباداورسکھرکے بعدکوئٹہ پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیاجارہاہے۔ اگرنادراملازمین کوان کے جائزحقوق نہیں دئیے گئے تووہ مزیدسخت قدم اُٹھانے کیلئے تیارہیں۔ انہوں نے کہا کہ نادراجیسا کوئی ادارہ یامحکمہ نہیں ہے جوچودہ سالوں سے بغیرکسی سروس رولز، بغیرکسی تعیناتی اورتبادلے کے قانون کے چل رہاہوں۔
نادراملازمین کاکہناہے کہ نادراکے اعلیٰ حکام نادراآرڈیننس 2002ء پرعمل نہیں کررہے۔ حالانکہ نادراکے اس آرڈیننس میں واضح طورپردرج ہے کہ چیئرمین نادراکے استعفیٰ دینے یا انتقال کی صورت میں ساٹھ دن کے اندارنئے چیئرمین نادراکی تعیناتی عمل میں لانی چائیے مگرافسوس کے ساٹھ دن کیلئے چیئرمین نادرابننے والاشخص گزشتہ 9 ماہ سے غیرقانونی طورپراس عہدے پر تعینات ہے۔ مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں اگرملازمین نے نادرا دفاترمیں تالہ بندی کی توعوام اورحکومت کیلئے مسائل پیداہوں گے۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ تصادم نہیں چاہتے لیکن حکومت دیگروفاقی محکموں کے ملازمین کی طرح نادرا میں الاؤنسز، تنخواہیں، پراپرسکیل، میڈیکل پینل وغیرہ فراہم کرنے سے انکاری رہی تو انہیں راست قدم اٹھانا پڑے گا۔