اجرت میں اضافے کی لڑائی

[تحریر: راشد خالد]
محنت کشوں کے روز و شب کی تلخی کی کس کو فکر ہے۔ ہر روز زندگی مہنگی ہوجاتی ہے اور موت سستی۔ دوسری جانب حکمران طبقات محنت کشوں کے خو ن اور پسینے سے پیدا کردہ دولت پر عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں۔ محنت کش جب اپنی اجرتوں میں اضافے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں تو انہیں نکمے اور کاہل گردانا جاتا ہے اور بورژوا میڈیا چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ یہ تو کام ہی نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 68 سالوں میں کام کے اوقات کار میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور سماج میں پہلے کی نسبت زیادہ دولت پیدا ہوتی ہے لیکن دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث محنت کشوں کی محرومی بڑھتی جاتی ہے اور حکمرانوں کی دولت۔
پاکستان میں اس وقت سرکاری طور پر اعلان کردہ آٹھ گھنٹے کے کام کی کم از کم اجرت 12 ہزار روپے ماہانہ ہے جبکہ اکثر نجی اداروں میں 6 ہزار روپے ماہانہ یا اس سے بھی کم پر محنت کش کام کر نے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب آٹھ گھنٹے کام نجی اداروں میں ایک خواب بن چکا ہے اور اکثر اداروں میں 12 گھنٹے کا دن عام بات ہے۔ سرمایہ دار سے اوور ٹائم کی اجرت لینا جان جوکھوں کا کام ہے اور ٹریڈ یونین کی عمومی زوال پذیری کے باعث محنت کش انتہائی غیر محفوظ حالات میں انتہائی کم اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور ہیں۔ کوکاکولا جیسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ہر ماہ کئی حادثے ہوتے ہیں جس کے باعث محنت کش زخمی بھی ہوتے رہتے ہیں اور ہلاک بھی۔ ایسے میں دیگر فیکٹریوں اور کارخانوں کی ناگفتہ بہ حالت کا ذکر دل دہلا دیتا ہے جس میں ہمیں کراچی میں بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جیسے واقعات نظر آتے ہیں۔ منافع پر بونس تو قصہ پارینہ بن چکا ہے جبکہ کسی صنعتی ادارے میں یونین رجسٹر کروانا ہی مزدور کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے محنت کشوں کی انتہائی کم اجرتوں اور سیفٹی اور دیگر امور پر اخراجات نہ کر کے ہی سرمایہ داروں کے منافع بڑھتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں بیروزگاری کی شرح کے بھی حقیقی اعدادو شمار موجود نہیں جو اس گرتی ہوئی ریاست کی ناکامی کا ایک ثبوت ہے لیکن ایک اندازے کے مطابق 3 کروڑ کے قریب بیروزگار افراد موجود ہیں۔ سرکاری طور پر گھریلو خواتین کو بھی بر سر روزگار قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے گھر کی صفائی اور کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے محنت کش طبقے کی ایک وسیع اکثریت بیروزگاری کی ذلت کا شکار ہے جس کے باعث اجرتیں انتہائی کم ہیں اور سرمایہ دار دونوں ہاتھوں سے محنت لوٹ رہے ہیں۔
بڑے شہروں میں دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور کو اوسطاً پانچ سو روپے دیے جاتے ہیں اور اسی تناسب سے اگر اس کو ہفتے میں چھ دن مسلسل دیہاڑی ملتی رہے، جس کے امکان بہت کم ہیں تو وہ مہینے میں 13 ہزار روپے ماہانہ کما سکتا ہے۔ دوسری جانب سرکاری طور پر اعلان کردہ کم ازکم تنخواہ اس سے بھی کم ہے۔ اگر پاکستان میں افراط زر کی شرح اور مہنگائی کو دیکھیں تو محنت کشوں کی حقیقی اجرتیں گزشتہ تین دہائیوں میں کم ہوئی ہیں۔ جس کے باعث سرمایہ داروں کے منافعوں میں ہونے والے اضافے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم تنخواہ کا تجزیہ محنت کی منڈی کی عمومی صورتحال واضح کرتا ہے اور بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہنر مند مزدوروں اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے افراد کی اجرتوں اور افراطِ زر کا تناسب کیا ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں اجرتیں اس سے بھی کم ہیں جبکہ خواتین اور بچوں سے بھی ہر جگہ بہت کم اجرت پر کام لیا جا تا ہے۔ ادویات، گارمنٹس، تعلیم، صحت اور دیگر ایسے بہت سے شعبے ہیں جہاں خواتین کو مردوں پر ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ ان کا زیادہ استحصال ہے۔ خواتین کے لیے یونین بنانا نسبتاً زیادہ مشکل ہے کیونکہ انہیں ملازمت کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری بھی انجام دینے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا جنسی استحصال اور الزام تراشی آسان ہے۔ خواتین کے ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل کی وجہ سے ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جبکہ ان کی اجرتیں کم ہوتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1992ء میں کم از کم تنخواہ 1500 روپے مقرر کی گئی جبکہ اس وقت ایک ڈالر کی قیمت 25 روپے کے لگ بھگ تھی۔ اس حساب سے کم از کم ماہانہ تنخواہ 60 ڈالر بنتی ہے۔ 2012-13ء میں سرکاری اعلان کردہ کم از کم تنخواہ 8 ہزار روپے ماہانہ تھی جبکہ ایک ڈالر کی قیمت 98 روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ اس حساب سے ماہانہ تنخواہ 80 ڈالر بنتی ہے۔ یعنی بیس سالوں میں تنخواہوں میں اضافہ بیس ڈالر ہے جبکہ دوسری جانب اگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں کا تناسب دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ تنخواہیں بڑھنے کی بجائے کم ہوئی ہیں۔ صرف اگر 1992ء سے 2012ء تک پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور اس کے دیگر اشیاء پر اثرات دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں اجرتیں بڑھنے کی بجائے کم ہو رہی ہیں۔ اسی موازنے سے ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت سمجھ آتی ہے۔
کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں لکھا ہے کہ جہاں سماج میں ایک طرف سرمائے کا ارتکاز ہوتا ہے وہیں دوسری طرف اذیت، جہالت، بربریت، ذہنی پسماندگی، غربت اور محرومی کا ارتکاز ہوتا ہے۔ اگر موجودہ عہد میں سماجی تقسیم پر نظر ڈالی جائے تو مارکس کی ڈیڑھ سو سال قبل کہی گئی یہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے۔ جہاں ایک طرف سماج میں دولت والوں کی تعداد اور سرمائے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں سماج میں محنت کش اور محروم طبقات کی زندگیاں تلخ تر اور اذیت ناک ہوتی جا رہی ہیں۔ اگر ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو اس وقت ترقی پذیر ممالک کی کل آبادی (تقریباًساڑھے 5 ارب) میں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے، (اس وقت عالمی سطح پر طے کردہ غربت کا معیار کم از کم 1.25 ڈالر یومیہ آمدن ہے)، اگر افراط زر کو مدنظر رکھا جائے تو ہم اس بات کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ 1.25 ڈالر یا اس سے کچھ زیادہ یومیہ کمانے والے افراد کے لئے اس رقم میں سے بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا کس حد تک ممکن ہے۔ اگر غربت کی سطح کو محض 2 ڈالر یومیہ تک بڑھا دیا جائے تو ورلڈ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق ہی ترقی پذیر ممالک کی اڑھائی ارب سے زائد آبادی سطح غربت سے نیچے گر جاتی ہے۔ یہ اس نظام کے رکھوالے اداروں کے اعدادوشمار ہیں جو نہایت نفاست اور چالاکی سے ترتیب دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت اس سے کئی زیادہ تلخ ہے۔ شرح منافع کو برقرار رکھنے کی ہوس سماج کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور نسلِ انسانی کو تباہی کے دہانے تک لے آئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی بنیاد میں ہی شدید استحصال اور لوٹ کا نظام ہے۔ اس نظام میں عالمی سطح پر معاشی نابرابری اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو محض آکس فیم کی ایک رپورٹ سے باآسانی سمجھا جا سکتا ہے جس کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک 1 فیصد افرادکے پاس اس وقت 110 ہزار ارب ڈالر کی دولت ہے جو دنیا کی آبادی کے نصف کی کل دولت سے تقریباً65 فیصد زیادہ ہے۔ دنیا کے صرف 85 امیر ترین افراد کے پاس اس وقت آبادی کے نصف کے برابر دولت موجود ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کی طوالت کے باوجود امیر ہونے والوں کی شرح میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2003ء میں دنیا میں ارب پتیوں (ڈالروں میں) کی کل تعداد 934 تھی، جو بڑھ کر 2012ء اور2013ء میں بالترتیب 1641 اور 1682 ہو گئی۔ صرف ایک سال میں ارب پتیوں میں اضافے کی شرح 2 فیصد رہی۔
سوال یہ ہے کہ سماج میں اتنی دولت پیدا کیسے ہوتی ہے؟ اور ان دولت مند افراد نے جو دولت سمیٹ رکھی ہے اس پر ان کا کتنا حق ہے؟سماج میں دولت صرف محنت کرنے والے ہاتھ تخلیق کرتے ہیں۔ مگر پیداوار اور گردش کے عمل کے دوران سرمایہ دار اس پیداوار میں محنت کشوں کی پیدا کی ہوئی قدر کا ایک حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔ جو ایک طرف سرمایہ دار کے سرمائے میں اضافے کا باعث بنتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ محنت کشوں کے مزید استحصال کا بھی۔ محنت کشوں کو ان کی تخلیق کے عوض اجرت دی جاتی ہے اور یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جتنی محنت ایک مزدور نے کی اس کا بدل اس اجرت کی صورت میں اسے مل گیا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ سماج میں دو طرح کی قدریں وجود رکھتی ہیں، ایک وہ جس کی قدرِ استعمال کسی شے کی قدر میں اضافے کا باعث نہیں بنتی اور ایک وہ جس کی قدرِ استعمال سے کسی بھی شے کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مؤخرالذکر قدر ایک مزدور کی محنت کی قوت ہے۔ جو منڈی میں بالکل اسی طرح خریدی اور بیچی جاتی ہے جس طرح باقی تمام تر اشیاء۔ کوئی بھی شے منڈی میں اپنی قدر پر فروخت ہوتی ہے یا اس کا تبادلہ ہوتا ہے۔ لیکن کسی شے کی قدر کا تعین کیسا کیا جا سکتا ہے؟ یا کسی ایک شے کا کسی دوسری شے سے تبادلہ کیسے کیا جاتا ہے؟ معیاری طور پر مختلف دو اشیاء کا تبادلہ ان اشیاء کی تخلیق میں صرف ہونے والی انسانی محنت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر ایک شے کو بنانے میں ایک گھنٹے کی مجرد انسانی محنت صرف ہوئی ہے تو اس کا تبادلہ کسی بھی دوسری ایسی شے سے کیا جا سکتا ہے جس پر ایک گھنٹے کی مجرد انسانی محنت صرف ہوئی ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی شے کی قدر میں اس وقت تک اضافہ ممکن نہیں جب تک انسانی ہاتھ اس پر کام نہ کریں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کی قوت محنت بھی ایک شے کی حیثیت رکھتی ہے جس کے عوض اسے اجرت دی جاتی ہے۔ اجرتوں کا تعین اس بات پر ہوتا ہے کہ کسی بھی مزدور کو اس سطح پر زندہ رہنے کے لئے نیز اس کے خاندان اور مستقبل میں سرمایہ دار طبقے کو مزدوروں کی ایک نئی نسل فراہم کرنے کے لئے کتنی رقم کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اجرتیں مختلف ادوار یا مختلف خطوں میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ کبھی بھی اس قدر کے برابر نہیں ہو سکتیں جو ایک مزدور کسی کام کے مخصوص دورانیے میں سرمایہ دار کو پیدا کر کے دیتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دار کا کسی فیکٹری یا کارخانے کو لگانے کا مقصد انسانی ضرورتوں کی تشفی نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد منافع حاصل کرنا ہوتا ہے اور سرمایہ دار پیداواری عمل کے مشکل ترین عمل میں داخل ہی اسی لئے ہوتا ہے۔ اور پیداواری عمل میں ایک مزدور کی محنت کسی بھی شے کی قدر کو محض اتنا نہیں بڑھاتی جس سے اس کی اجرت ادا کی جا سکے بلکہ وہ شے کی قدر کو اس حد تک بڑھا دیتی ہے کہ اس میں سے سرمایہ دار دیگر اخراجات کی ادائیگی کے علاوہ ایک مخصوص مقدار منافع کی صورت میں بھی بٹور لیتا ہے۔ یوں اجرت اور منافع اس بڑھائی ہوئی قدر سے حاصل کئے جاتے ہیں جسے مزدور کی محنت نے تخلیق کیا۔ سو منافع میں اضافے کی ہوس سرمایہ دار کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مزدور کو کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کرے۔ لیکن دوسری جانب محنت کشوں کی جدوجہد ان کی اجرتوں میں اضافے کے لیے ہوتی ہے۔ مگر اجرتوں میں اضافے یا کم از کم اجرتوں کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ طبقاتی کشمکش کس نوعیت کی ہے۔ اگر محنت کشوں کی تنظیمیں یا ٹریڈ یونینز مضبوط ہوں تو اجرتوں میں اضافے کے لئے مؤثر لڑائی کرتے ہوئے اضافہ کروا سکتی ہیں۔ لیکن اگر ٹریڈ یونینز کمزور ہوں اور ان کا کردار مصالحانہ ہو تو محنت کشوں پر معاشی اذیتوں کا بوجھ بڑھتا ہی رہتا ہے۔
افراطِ زر میں اضافے کے ساتھ اجرتوں میں اضافے کی جدوجہد محنت کش انجمنوں اور ٹریڈ یونینز کا بنیادی فریضہ ہوا کرتا ہے۔ دیوارِ برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہمیں جہاں بائیں بازو کی سیاست اور سیاسی پارٹیوں میں مصالحت پسندی اور موقع پرستی کے رجحانات حاوی ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں ٹریڈ یونینز میں بھی ایسے عناصر پروان چڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی مصالحانہ پالیسیاں ٹریڈ یونینز کی قیادتوں کو محنت کشوں کے مفادات، جدوجہد اور سیاست کی بجائے موقع پرستی کی طرف کھینچ لے گئیں۔ نظریات پچھلی نشستوں پر چلے گئے۔ اور اسی نظام کے پرانے چیتھڑے پر نئے پیوند لگانے کا اصلاحات کا این جی او شدہ نظریہ پھلنے پھولنے لگا۔ پاکستان میں بھی یہی رجحان برابر آگے بڑھا۔ جس کی وجہ سے یہاں کا محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ اصلاحات اور مزدور قوانین سے مستفید ہونے سے بھی قاصر رہا۔ پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کے لئے جہاں عالمی منڈی میں بڑے مگر مچھوں سے مقابلہ ممکن نہ رہا تو انہوں نے اپنے منافعوں کے تحفظ کے لئے محنت کشوں کی مراعات پر شدید حملے کئے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ایک طرف تو سرمایہ دار اور مزدور کے مابین تعلقات اور مزدور کے حقوق کے حوالے سے کوئی قابلِ قدر قوانین مرتب نہ ہو سکے اور کچھ مختصر وقت کے لئے جو قوانین ترتیب بھی دیے گئے تو ٹریڈ یونین قیادت کی داخلی لڑائیوں اور مفادات کی وجہ سے ان کا تحفظ نہ کیا جا سکا اور وقت آنے پر سرمایہ داروں نے ریاستی طاقت کے استعمال سے واپس چھین لئے۔ جو نام نہاد قوانین اس وقت یہاں موجود ہیں ان کے اطلاق کے معاملے میں کہا جا سکتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔
کم از کم اجرت کا قانون بھی پاکستان میں نام کی حد تک نہ صرف موجود ہے بلکہ کچھ سالوں بعد حکومتیں اجرتوں میں اضافے کا نام نہاداعلان بھی کرتی ہیں مگر حقیقت میں اس قانون کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ بالخصوص نجی شعبے میں جو پالیسیاں لاگو کی جاتی ہیں ان میں کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز کی پالیسی کے تحت محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی ادارے کا ورکر سمجھا ہی نہیں جاتا اور ایسے ورکرز کی قسمتوں کے ان داتا ان کے ٹھیکیدار ہوتے ہیں۔ اگر یہ کم از کم اجرت تمام اداروں میں لاگو بھی کر دی جائے تو کیا اس اجرت سے محنت کش اپنی زندگی کی ضرورتوں کی تکمیل کر سکتے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق ایک مزدور کو رہائش کی سہولت حاصل کرنے کے لئے اس اجرت کا 42 فیصد ادا کرنا پڑتا ہے، بجلی اور گیس کی مد میں 22 فیصد اور ٹرانسپورٹ اور علاج کے لئے 13 فیصد درکار ہوتے ہیں۔ جس تناسب سے بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی یہ تناسب بھی بڑھ رہا ہے۔ اس میں مزدور کی غذائی ضرورتوں اور خاندان کی کفالت کے دیگر اخراجات کو پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کے بر عکس اگر غذائی ضرورتوں کو پورا کیا جائے تو رہائش، علاج، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ایگریکلچرز اکانومک ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک فرد کو اپنی آمدنی کا 47.7 فیصد غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے خرچ کرناپڑتا ہے۔ یہ تناسب پوری دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں یہ تناسب 6.6 فیصد، برطانیہ اور کینیڈا میں 10 فیصد ہے حتیٰ کہ انڈیا میں 25.2 فیصد ہے۔
یہ مطالبہ کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہونی چاہئے انتہائی اہم اور ضروری مطالبہ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں محنت کش طبقے میں شامل ہونے والی نئی پرتوں کو یہ مطالبہ بہت حد تک ناقابلِ عمل لگتا ہے مگر ایسا نہیں کہ یہ نا ممکن ہے۔ ٹریڈ یونین کے بہت سے قائدین بھی اپنے خصی پن اور مصالحانہ رویے کی وجہ سے اس مطالبے سے دور بھاگتے ہیں اور انتہائی ثانوی نوعیت کے مطالبات میں محنت کشوں کو الجھاتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داری کے بحران اور سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین کی غدارانہ قیادت نے بھی محنت کش تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے محنت کشوں پر نجکاری کے حملے ہوں یا حقیقی اجرتوں میں کمی انہیں تمام لڑائیوں کے لیے اپنی قیادتوں کا بھی احتساب کرنا ہو گا۔ اگر ہم 1970ء کی دہائی کو دیکھیں جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کی پالیسیوں کے ثمرات سماج میں اپنا اظہار کر رہے تھے اور محنت کشوں کے ایک بہت بڑے انقلاب کے نتیجے میں بہت بڑی اصلاحات کی گئیں تھیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایک عام محنت کش کی تنخواہ ایک تولہ سونے سے زیادہ تھی۔ مگر محنت کشوں پر اس کے بعد جو معاشی حملے کئے گئے اور جس تیزی کے ساتھ افراطِ زر اور مہنگائی میں اضافہ ہوا اجرتوں اور اشیاء کی قیمتوں کے مابین تناسب ایک دم بگڑ کر رہ گیا۔ ظاہری طور پر تو اجرتوں میں انتہائی کم اضافہ ہوتا رہا مگر حقیقی اجرتوں میں روزانہ تیزی سے کمی آتی جا رہی ہے۔ جنوری 1998ء میں دس گرام سونے کی قیمت چار ہزارروپے تھے جبکہ کم از کم تنخواہ 2 ہزار روپے تھی۔ آج 2014ء میں کم ازکم تنخواہ اگر 12 ہزار روپے بھی تصور کر لی جائے تو دس گرام سونے کی قیمت پچاس ہزار روپے کے قریب ہے۔ اس تناسب سے گزشتہ پندرہ سالوں میں حقیقی اجرتوں میں ہونے والی کمی کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ یہاں واضح ہوتا ہے کہ محنت کشوں کی تنخواہیں اگر 1998ء کی سطح پر بھی بحال کی جائیں تو آٹھ گھنٹے کے کام کے لیے غیر ہنر مند مزدور کی کم از کم تنخواہ 25 ہزار روپے ماہانہ بنتی ہے۔ اس تناسب سے ہنر مند مزدوروں کی تنخواہیں پچاس ہزار روپے سے شروع ہو کر ایک لاکھ روپے ماہانہ سے بھی تجاوز کرنی چاہییں۔ اس میں سرکاری ملازمین سے لے کر رسمی اور غیر رسمی شعبے کے تمام ملازمین آتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی تناسب سے کم ہوئی ہیں۔ نجکاری کے حملوں اور کنٹریکٹ و ڈیلی ویجز لیبر کے ذریعے بھی سرکاری سطح پر انتہائی کم اجرتوں پر کام کروایا جا رہا ہے۔ یعنی ریاست واضح طور پر سرمایہ دار طبقے کا اوزار بن کر ہر ممکن طریقے سے سے محنت کشوں پر حملے کر رہی ہے۔
اجرتوں میں اضافے کی لڑائی آج کے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس لڑائی کے لئے ہمیں اپنے اداروں کے اندر محنت کشوں کو نئے سرے سے منظم کرنا ہو گا۔ سرکاری ملازمین کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے یا نجی کمپنیوں کے مزدوروں اور غیر رسمی شعبوں کے محنت کشوں کو متحد کرتے ہوئے ہمیں تنخواہوں میں اضافے کی ایک ملک گیر تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔ غیر ہنر مند مزدور تو دور کی بات اگر ایک نوجوان ڈاکٹریا انجینئر کی اجرت بھی دیکھی جائے تو وہ بھی مہنگائی کے تناسب سے انتہائی کم ہے اور فوری طور پر اس میں سو فیصد اضافہ ایک اہم مطالبہ ہے۔ اسی طرح اساتذہ سے لیے کر پی آئی اے، اسٹیل مل، پوسٹ آفس، پی ٹی سی ایل، پیرا میڈیکل، نرسوں، بینکوں اور دیگر شعبوں کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس جدوجہد میں ڈیلی دیجز اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کرنے کا مطالبہ بھی انتہائی اہم ہے اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں ٹریڈ یونین قیادت کی غداریوں نے محنت کشوں کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ مگر محنت کشوں کی طاقت کو مجتمع کرنے کے علاوہ ہمارے پاس مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ آج تک محنت کشوں نے جو حاصلات لی ہیں وہ جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل کی ہیں ان پر سرمایہ دار طبقہ پے در پے حملے کرتا جا رہا ہے اور ان حملوں میں کمی کا کوئی امکان نہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ جوں جوں سرمایہ داری کا زوال اور بحران بڑھتا جا ئے گا توں توں یہ حملے بھی شدید ہوتے جائیں گے۔ واحد راستہ آگے بڑھ کر ان حملوں کا منہ توڑ جواب دینے اور جدوجہد کا ہے اور محنت کشوں کا یہی اکٹھ نہ صرف وقتی لڑائیوں میں اپنے فوری مطالبات کو پورا کروائے گا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے اس نظامِ زر اور اس کے استحصال کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تعمیر کرے گا۔

متعلقہ:
محرومی کب تلک مفلوج رکھے گی؟
مرتے ہوئے نظام کی وحشت