تحریر: عمران کامیانہ
طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز کے کتابچے ’سوشلزم کیا ہے؟‘ سے اقتباس۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت محنت کش طبقات کی خواتین دوہرے جبر و استحصال کا شکار ہیں۔ بالخصوص پاکستان جیسے پسماندہ سماجوں میں طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ مردانہ برتری اور جنسی شاونزم پر مبنی رویوں، اقدار اور روایات نے خواتین کی اکثریت کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ یہ درست ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی خواتین نے کئی صدیوں پر مبنی جدوجہد کے ذریعے بہت سی آزادیاں اور حقوق حاصل کئے ہیں لیکن آزادی نسواں وہاں بھی ادھوری ہے، پدر شاہی کی جکڑ اور جبر موجود ہے اور کئی حوالوں سے مغربی معاشروں کی خواتین کی زندگیاں یہاں سے زیادہ اذیت ناک ہیں۔ جب بھی جنسی بنیادوں پر جبر و استحصال اور خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو بالعموم دو رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک طرف ’لبرلزم‘ کی سوچ ہے، جو زیادہ تر این جی اوز اور نام نہاد ’سول سوسائٹی‘ میں پائی جاتی ہے اور خواتین کی آزادی کو مغربی لباسوں، میک اپ، ڈرائیونگ اور فیشن وغیرہ جیسے ایشوز سے جوڑتی ہے۔ اُن کی نظر میں بالائی مڈل کلاس کی خواتین کے ’’مسائل‘‘ ہی اِس ملک کی تمام خواتین کے مسائل ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں خواتین کی وسیع اکثریت مناسب غذا، صاف پانی، رہائش اور صحت و صفائی کی بنیادی سہولیات سے ہی محروم ہے۔ حکومت پاکستان کے اپنے غذائی سروے کے مطابق 51 فیصد حاملہ خواتین جبکہ 50.4 فیصد غیر حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ وٹامنز اور معدنیات کی کمی کے اعداد و شمار اِس سے بھی زیادہ المناک ہیں۔ اِسی طرح تقریباً 50 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما ہی نامکمل ہے۔ ’حقوقِ نسواں‘ کی علمبردار این جی اوز اور لبرل حلقے ایسے خوفناک حقائق پر بات کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ یہ بحث پورے نظام پر ہی سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ لبرلزم بنیادی طور پر سرمایہ داری کا کلاسیکی نظریہ ہے اور طبقاتی غلامی پر مبنی نظام کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی نظرئیے کے مطابق ’آزادی‘ کا مطلب غلام بننے یا بنانے، استحصال کرنے یا کروانے کی آزادی ہی ہو سکتا ہے۔ ’آزاد منڈی‘ کے اِس نظرئیے کی رو سے عورت کی حیثیت بھی منڈی کی جنس سے زیادہ نہیں ہے جسے اپنا جسم بیچنے (چاہے اس کی شکل کوئی بھی ہو) کی ’آزادی‘ حاصل ہونی چاہئے۔ لبرلزم کے برعکس مذہبیت یا بوسیدہ روایات پر مبنی قدامت پرستی ہے جو تقدس، پردے یا ’غیرت‘وغیرہ کے نام پر عورت کو چادر اور چار دیواری میں قید کر کے سماج کی ہر سرگرمی اور ہر شعبے سے کاٹ دینا چاہتی ہے۔ اس کے نزدیک عورت کی اپنی کوئی خواہش، کوئی چاہت، کوئی مرضی و منشا نہیں ہونی چاہئے اور اسی میں عورت کی ’نجات‘ مضمر ہے۔ لیکن محنت کش طبقات کے پاس اتنی سکت نہیں ہوتی کہ عورت کو چار دیواری تک محدود رکھ کے گھر چلایا جا سکے۔ ایسے میں غریب طبقات کی خواتین کو اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ناگزیر طور پر اجرتی محنت کرنی پڑتی ہے۔ کھیتوں کھلیانوں، فیکٹریوں یا امرا کے گھروں میں برقعے پہن کر مشقت نہیں کی جا سکتی۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے درمیانے طبقات میں برقعے وغیرہ کا رجحان بڑھا ہے جو خواتین میں عدم تحفظ کے احساس کی غمازی کرتا ہے۔لیکن قدامت پرستوں کے بیہودہ دلائل کے برعکس یہ رجحان خواتین کو محفوظ یا مضبوط کرنے کی بجائے انہیں نفسیاتی اور سماجی طور پر مزید کمزور کرتا ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں سرمایہ داری کے ارتقا نے قدامت پرستی کو ختم کرنے کی بجائے زیادہ زہریلا اور وحشت ناک بنا دیا ہے۔ درحقیقت ملائیت اور لبرلزم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، ایک ہی نظام کے رکھوالے ہیں اور ان کے تحت عورت کا استحصال مختلف یا متضاد طریقوں سے جاری رہتا ہے۔
قومی سوال کی طرح خواتین کے حقوق اور آزادی کے سوال کو جب تک طبقاتی بنیادوں پر نہ سمجھا جائے کوئی حقیقت پسندانہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ سرمایہ داری میں نہ صرف عورت کی حیثیت کا تعین اُس کے طبقے اور دولت سے ہوتا ہے بلکہ آزادی نسواں کے معانی بھی مختلف طبقات کی خواتین کے لئے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں بالادست طبقات کی خواتین نہ صرف اپنی ملازماؤں بلکہ ملازموں کو بھی بد ترین تضحیک اور تحقیر کا نشانہ بناتی ہیں۔ کیا تپتی دھوپ میں سڑک پر مشقت کرتی عورت اپنے سامنے سے لاکھوں کروڑوں روپے کی ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں جاتی عورت کے ’برابر‘ ہے؟ کیا دونوں کے مسائل اور مفادات ایک ہیں؟ مسئلہ طبقاتی ہے۔ سرمایہ دار طبقات کی خواتین کے لئے ’آزادی‘ کا مطلب اپنے طبقے کے مردوں کے شانہ بشانہ محنت کش مرد و خواتین کا استحصال کرنے کی آزادی ہے۔ اِن خواتین کے مفادات محنت کش خواتین سے مختلف ہی نہیں متضاد ہیں اور وہ سرمایہ دارانہ نظام پر ضرب لگانے والی ہر تبدیلی کی مخالفت کریں گی۔ کیونکہ اپنے طبقے کے مردوں کے مقابلے میں اُن کی حیثیت کچھ بھی ہو، اِس سماج میں اُن کی بالادست حیثیت اور پرتعیش ’لائف سٹائل‘ اسی نظام سے مشروط ہے جو محنت کش مرد و خواتین کے استحصال پر مبنی ہے۔ اِسی طرح آج کل بہت سے سوشلسٹ خواتین و حضرات نے سوشلزم کو فیمنزم کیساتھ جوڑ کر عجیب و غریب اور متضاد نوعیت کی اصطلاحات بھی ایجاد کر لی ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ 8 مارچ، جسے ’محنت کش خواتین‘ کے عالمی دن کے طور پر منانے کا آغاز 1909ء میں دوسری انٹرنیشنل نے کیا تھا، رفتہ رفتہ محض ’خواتین‘ کا عالمی دن بن گیا ہے ۔ یہاں فیمنزم کی بھی بہت سی تعریفیں اور توجیہات موجود ہیں۔ لیکن انقلابی سوشلزم انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال اور محکومی کی ہر شکل کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتا ہے اور اس کے ثبوت کے لئے اپنے ساتھ کوئی دوسری اصطلاح جوڑنے کا مرہونِ منت نہیں ہے۔ مزید برآں محنت کش طبقے کی جڑت میں دراڑیں ڈالنے والا ہر تعصب اور تقسیم ردِ انقلابی کردار کی حامل ہوتی ہے اور سرمائے کی حاکمیت کو تقویت دیتی ہے، جس کے خلاف بے رحم جدوجہد کی جانی چاہئے۔
عورت کی محکومی کا آغاز سماج کی طبقات میں تقسیم کیساتھ ہوا تھا۔ اِس کا خاتمہ بھی طبقات کے خاتمے سے مشروط ہے جو سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب عورت کی آزادی اور نجات کو نہ صرف اپنے ایجنڈے پر رکھے گا بلکہ اِسے سوشلزم اور کمیونزم کی تعمیر کی بنیادی شرط بنائے گا۔ لینن کی کامریڈ اور دوست انیسا آرمنڈ نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ’’اگر کمیونزم کے بغیر عورت کی آزادی کا تصور محال ہے تو عورت کی آزادی کے بغیر کمیونزم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اِس حوالے 1917ء کا انقلابِ روس آج بھی مشعل راہ ہے جس کا آغاز ہی ٹیکسٹائل کی محنت کش خواتین نے کیا تھا۔ بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کشوں کے اقتدار پر قبضے اور سوویت جمہوریہ کے قیام کے بعد جنسی بنیادوں پر اجرتوں میں فرق کا خاتمہ کیا گیا۔ خواتین کو نہ صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا بلکہ سیاست سمیت ہر شعبے میں ان کی بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اِسی طرح خواتین کو طلاق دینے کا اختیار بھی دیا گیا۔ زچگی کے دوران خواتین کو اجرت کیساتھ آٹھ ہفتوں کی چھٹی دینے کا قانون متعارف کروایا گیا۔ یہ وہ حقوق تھے جو انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی خواتین کو کئی دہائیوں بعد تک حاصل نہ ہو سکے۔ لینن نے جون 1919ء میں بالکل بجا لکھا تھا کہ ’’خواتین کی حیثیت میں بہتری کے لئے جو کچھ ہم نے ایک سال میں کیا ہے کوئی جمہوری پارٹی کسی انتہائی ترقی یافتہ بورژوا جمہوریت میں پچھلی کئی دہائیوں کے دوران اُس کا ایک سواں حصہ بھی نہیں کر پائی ہے۔‘‘ اُس نے مزید لکھا، ’’ گھریلو مشقت عورت کا دم گھونٹتی ہے، اُس کی تضحیک اور تحقیر کرتی ہے، اُسے باورچی خانے اور نرسری سے باندھ کے رکھ دیتی ہے۔ وہ اپنی محنت کو بہیمانہ حد تک غیر پیداواری، حقیر، اعصاب کو تھکا اور کچل دینے والی بیگاری میں ضائع کرتی رہتی ہے۔ خواتین کی حقیقی آزادی اور حقیقی کمیونزم کا آغاز تبھی ہو گا جب برسراقتدار پرولتاریہ کی قیادت میں اِس حقیر گھرداری کے خلاف بھرپور جدوجہد شروع کی جائے گی، بلکہ یوں کہہ لیں کہ جب اِسے بڑے پیمانے کی سوشلسٹ معیشت میں ضم کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔‘‘ چنانچہ خواتین کو گھریلو مشقت سے نجات دلانے کے لئے اشتراکی باورچی خانوں، لانڈریوں اور کنڈر گارٹن اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سوویت یونین میں 1970ء کی دہائی میں 75 فیصد اساتذہ، 95 فیصد لائبریرین، 98 فیصد نرسز اور 75 فیصد ڈاکٹر خواتین تھیں۔ خواتین پی ایچ ڈی سکالرز اور سائنسدانوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ عصمت فروشی ناپید تھی۔ لیکن سرمایہ داری کی بحالی کے بعد سے یہ لعنت سابقہ سوویت ممالک (بالخصوص مشرقی یورپ اور وسط ایشیا) کی پہچان بن چکی ہے۔
ریپ، تیزاب گردی، جنسی ہراسانی اور غیرت کے نام پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات ایک ایسے نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں جو تاریخی طور پر متروک ہو کر سماج کو آگے بڑھانے سے قاصر ہو چکا ہے۔ ٹھہراؤ ہمیشہ تعفن کو جنم دیتا ہے۔ معاشرے جب آگے نہیں بڑھ پاتے تو ناگزیر طور پر وحشت اور بربریت میں غرق ہونے لگتے ہیں۔ یہاں خواتین کی حفاظت کے لئے بہت قوانین بنے ہیں اور شاید آگے بھی بنتے رہیں گے۔ ہم ایسی قانون سازیوں کی مخالفت نہیں کرتے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کرتے ہیں قانون کبھی بھی مادی حقائق سے بالا نہیں ہو سکتا۔ یہاں انصاف بھی پیسے سے ہی خریدا جا سکتا ہے۔ صرف محنت کش طبقہ ہی اِس نظام کی ذلتوں اور بربادیوں سے نسل انسان کو نجات دلا سکتا ہے اور محنت کش خواتین کی بھرپور شرکت کے بغیر سوشلسٹ انقلاب کبھی فتحیاب نہیں ہو سکتا۔ آزادی نسواں آخری تجزئیے میں طبقاتی جبر و استحصال سے آزادی کی متقاضی ہے۔ سوشلزم ہی ہر قسم کی غلامی کی بیڑیاں توڑ کر عورت کو حقیقی معنوں میں معاشی اور سماجی طور پر آزاد کر سکتا ہے۔